خان سحرش ۔عیدگاہ،سرینگر
سری نگر جو اپنی خوبصورت جھیلوں اور قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے، آج پانی کی قلت جیسے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف شہری زندگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ مقامی معیشت اور زراعت پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔ سری نگرکے مرجان پور عید گاہ کی آبادی کم از کم بیس ہزار ہے۔اس علاقے میں چھ سے زائد اسکول ہیں، علاقے میں کافی سرکاری عمارتیں بھی پائی جاتی ہیں جیسے ڈاک بنگلہ، محکمہ جل شکتی کے دفاترکے ساتھ ہی ساتھ محکمہ بجلی کے دفتر وغیرہ بھی ہیں۔ لیکن ان تمام کے باوجود یہ علاقہ پانی کی شدید کمی سے دو چار کیوں ہے؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی قُدرت کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے۔ مگر اس تعلق سے یہاں کی ایک طالبہ فضانے بتایا کہ مرجان پور کا یہ علاقہ عرصہ دراز سے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اسکول جانے والے بچے ہوں یا گھر میں کھانا پکانے والی مائیں یا اس علاقے میں رہنے والے بزرگ ہوں، سب پانی کی قلت سے پریشان ہیں۔ نی یہ علاقے کے لیے نا انصافی کی بات ہے۔ فضا نے کہا کہ میں ایک طالبہ ہوں لیکن مجھے بھی یہ احساس ہے کہ ہمارے بڑے اس علاقے میں کس طرح کی زندگی بسر کررہے ہیں۔محلے کی ایک خاتون عصمت نے کہا کہ’’ہمیں آدھی رات کو جاگ کر پانی بھرنا ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود بھی پانی نہیں ملتا۔اس صورتحال کی وجہ سے ہمیں کھانا پکانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی کمی نے ان کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔‘‘
بقول ان کے ہمیں خود پانی دور سے اٹھا کر لانا پڑتا ہے۔ اگریہاں پانی کی اسکیموں کو عام گھروں تک پہنچایا جاتا تو شاید یہ یہاں کے لیے سب سے بڑی نعمت ہوتی، یہاں پر کافی جگہیں ہیں جہاں پہ ٹیوب ویل کھودے جا سکتے ہیں لیکن ہم سمجھ نہیں پار ہے ہیں کہ آخر پانی کی کمی دور کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ایک بزرگ محمد سلیمان نے بتایا کہ’’وضو کے لیے بھی پانی نہیں ہوتا اور سردیوں کی شدت نے تو مزید مشکلات بڑھا دی ہیں۔‘‘ محمد سلیمان یہ کہتے ہیں کہ پانی سے انسان کئی طرح کی بیماریوں سے دور رہ سکتا ہے کیونکہ پانی صفائی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار پانی کی پریشانی کو انتظامیہ حل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن عرفان متو نے بتایا کہ ہم نے کئی مرتبہ عہدے داروں کو اس بارے میں مطلع کیا کہ پانی کی شدید قلت سے علاقہ کے لوگ پریشان ہیں۔ آفیسرنے انہیں کئی مرتبہ یقین دہانی کرائی کہ پانی کی بنیادی سہولیات کو آنے والے وقت میں دور کردیا جائے گا لیکن ابھی تک جس طرح کے حالات ہیں ہمیں نہیں لگتا کہ یہاں پانی کی قلت کو پورا کیا جائے گا۔ ہم ایک بار پھر سے اپیل کرتے ہیں کہ یہاں کی پانی کی مشکلات کو دور کیا جائے۔مرجان پور کی ایک خاتون شمیمہ بانو جن کی عمرتقریباً 35 سال ہے، نے بتایا کہ پانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے جس کے بنا انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔عوامی نمائندوں نے کئی مرتبہ اس بارے میں متعلقہ حکام سے بات کی، لیکن ان کی طرف سے یقین دہانی والے الفاظ کے سوا اب تک کچھ نہیں ملاہے۔ اس سلسلے میں محلے کے صدرمصوّر واوا نے بتایا کہ انہوں نے واٹر ڈیپارٹمنٹ میں درخواست دی ہے، مگر ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم پھر اپیل کرتے ہیں کہ براہ کرم اس معاملے پر غور کریں تاکہ ہم اس پریشانی سے باہر نکل سکیں۔ پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، ہمیں اس مسئلے کا حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ انہوں نےبتایا کہ میں سرکار سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ یہاں کے اس مسئلے پر فوری طور چھان بین کر کے علاقہ کے باشندگان کو پانی فراہم کرائے۔ اس تعلق سے پی ایچ ای ڈویژن کوتھیبل لال چوک محمد ایاز بانڈی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس بار اس علاقے کی پانی کے لیے ایک بڑا پروجیکٹ رکھا ہے جس پراجیکٹ کا کام بہت جلدی شروع کیا جائے گا اور علاقے کے لوگوں کو فوری طور پر پانی دستیاب کرایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مرجان پور کے لوگوں کو تھوڑا صبر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پانی کی سہولیات کی اسکیم اب تک مرجان پور کے لیے سنکشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس سکیم پر بہت جلدی کام شروع کیا جائے گا۔
بہرحال پانی کی قلت کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں جیسے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں تیزی اور غیر متوقع موسمی تبدیلیوں نے پانی کے قدرتی ذرائع کو متاثر کیا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری ترقی نے پانی کی طلب کو بڑھا دیا ہے۔ پانی کی ترسیل کا پرانا اور غیر مؤثر نظام بھی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈل جھیل اور دیگر آبی ذخائر کی آلودگی نے صاف پانی کی دستیابی کو محدود کر دیا ہے۔پانی کی قلت نے عوام کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ لوگ روزانہ پانی بھرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔ زرعی زمینوں کو پانی نہ ملنے کے باعث کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جیسے کہ جھیلوں، دریاؤں اور دیگر آبی ذرائع کو آلودگی سے بچانے کے لیے مؤثر پالیسیاں بنائی جائیں۔ بارش کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ پانی کی قلت کے دوران اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ پانی کے مؤثر استعمال کے لیے عوامی شعور کو بیدارکیا جائے۔پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی قلت سری نگر کے عوام کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ حکومت، مقامی ادارے اور عوام کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں اس خوبصورت شہر کے پانی کے وسائل سے مستفید ہو سکیں۔ (چرخہ فیچرس)