سید مصطفیٰ احمد
نہ جانے کن حسین ہاتھوں نے اس وسیع کائنات کے علاوہ ان Parallel Universes کی بنیاد رکھی ہیں کہ ہر روز تباہی کے کروڑوں واقعات رونما ہونے کے باوجود بھی یہ کارواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اس نظام میں ضروریات کی اتنی ریل پیل ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے باوجود بھی نگاہوں کے ساتھ ساتھ دل بھی تشنہ رہتا ہے۔ کسی کے پاس ضروریات زندگی کی خاطر اتنے وسائل ہیں کہ ان وسائل کو چھپانے کی بھی جگہ میسر نہیں ہیں، لیکن اس کے برعکس بیشتر افراد ایسے ہیں جن کو اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے میں اپنے دین و ایمان کا سستے داموں میں سودا کرنا پڑتاہے۔ جب ایک غریب انسان مسلسل اذیتوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا، تو مذہب کی آڑ میں اپنے دل کو تسلی دیتا ہے۔ زندگی کی بہاریں جب بیشتر انسانوں کو مہیا نہیں ہوتیں، تب وہ اپنے آپ کو کسی بڑی ہستی کے اصولوں کے تحت اپنی غریبی کو اس بڑی ہستی کے بنائے ہوئے تقدیر کے حوالے کرتے ہوئے سختیوں کے اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر بھی چپ چاپ کرکے ہر سختی کو برداشت کرتے ہیں ،لیکن کچھ افراد ایسے ہیں جو مرنے کے آرزو میں تو مرتے ہیں مگر ان کو موت نہیں آتی ہیں۔ وہ اس بات سے بخوبی ہے کہ زندگی جینا ایک مسلسل کاٹ ہے۔ ان کو ہر آن مرنا پڑتا ہے۔ ایک پسماندہ انسان چھوٹی موت سے گھبراتا نہیں ہے۔ وہ بڑی موت کا اس لیے بے صبری سے انتظار کرتا ہے تاکہ چھوٹی موتیں ایک بڑی موت پر ہی اختتام ہوکر سب اونچ نیچ کو ختم کردے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو غربت اور امیری جیسے الفاظ سے پرے کائنات کی حقیقت سے آشنا اس کائنات میں قدم رکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں کاغذ کے پیسے اور دوسری قسم کی دولت خاک اور نجاست کی مختلف شکلوں کا مجموعہ ہیں۔ وہ حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس لئے وہ جنم کے ساتھ ہی موت کی آرزو کرتے ہیں۔ جنم لینا ان کے ہاتھ میں نہیں تھا مگر موت کی آرزو ان کے بس میں ضرور ہے۔
کچھ دنوں پہلے میں ایک روحانی شخصیت کی تقریر سن رہا تھا۔ وہ تطہیر کے موضوع پر اپنی باتیں لوگوں کے سامنے پیش کررہے تھے۔ وہ بول رہے تھے کہ گوتم بدھ نے دولت کو دیکھ اور پرکھ کر اس کو ترک کردیا۔ یعنی پیسوں اور آسائشوں کو آزما کر ان سے کنارہ کشی کی۔ مزے اور سکون کی ریل پیل ہونے کے باوجود دنیا کی ظاہری خوشیوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے نجات کی تلاش میں چلے گئے۔ اس کے برعکس ایک غریب وہ سب کچھ چاہتا ہے جو گوتم بدھ جیسے لوگوں کے پاس ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ غریب کے دن اور رات پیسے کے محور کے اردگرد گھومتے ہیں۔ اس کا سکون قلب پیسوں میں پنہاں ہے ،لیکن اگر یہ غریب اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے سے قاصر ہوتا ہے تو موت کی خواہش ہی پھر زندگی کی بنیادی خواہش بن جاتی ہے۔ اسی طرح Greater Kashmir اخبار میں محرم میں پیش آئے واقعات پر ایک بہترین مضمون چھپ کر آیا تھا۔اس مضمون میں انگریزی فلاسفرز کے علاوہ شیخ العالم ؒ کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ زندگی ایک مسلسل کاٹ اور اذیت کا دوسرا نام ہے۔ حضرت شیخ العالم لکھتے ہیں کہ جنم کے وقت جس دھاگے کے ساتھ میں ماں کے رحم کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اگر اس کے کٹنے کے بجائے، گردن ہی کٹ جاتی تو زندگی کے سارے مسائل کا خاتمہ ہوگیا ہوتا۔ اس بات میں میرے مضمون کا مغز چھپا ہے۔ یعنی دنیا کا اتنا بڑا عالم اس دنیا میں آکر اپنی ہستی کو پائیداری بخشنے کی خاطر اس دنیا سے واپس چلے جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کو ہم غالب کی زبانی بھی سن سکتے ہیں۔ غالب لکھتے ہیں کہ مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی۔ یہ ساری باتیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے سب کی آرزو یہاں سے جانے کی ہے۔ دنیا میں کچھ ایسا ہنگامہ برپا ہے کہ جس سے دور بھاگنا ہر ذی حس شخص کا بنیادی مقصد ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہے اس کارخانۂ دنیا میں کہ ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے اور یہاں سے کوچ کرکے جانا چاہتا ہے۔ غریب کی بےبسی تو سمجھ میں آنے کے لائق ہے۔ اسی طرح گوتم بدھ اور لیو ٹالسٹائی کی مثالیں بھی عیاں ہیں، لیکن ان عظیم ہستیوں کا کیا جو غربت اور امیری دونوں باتوں سے مبرّا ہوکر بھی یہاں آنا پسند نہیں کرتے ، تاکہ the worldly entanglements کی lure سے اپنے آپ کو unscathed رکھیں۔ غور و فکر کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اصل میں جو مسائل زندہ رہنے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، وہ ایک اعلیٰ پایہ پر فائز انسان کو روحانیت اور معرفت کی معراج تک پہنچنے میں رکاوٹیں کھڑا کرتی ہیں۔ حضرت شیخ العالم ؒ نے بھی اپنے گھر کو چھوڑ کر ایک غار میں کئی سالوں تک پناہ لی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یعنی اس نظام دنیا میں کچھ تو ہے جس سے عارفین واقف ہیں اور اپنی روحانی مشعل کو جلانے کی خاطر وہ اس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔
اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی پسند ،زندگی اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے واقعات کو صرف ایک ہی جملے میں سمویا جاسکتا ہے۔ یہ جملہ اس طرح ہے کہ نہ جانے کن گناہوں کی سزا پائی ہم نے جو اس ہنگامہ کن دنیا میں جنم لیا۔ یہ دنیا کرب و بلا اور کربلا کی مختلف شکلیں ہیں۔ جیسے کہ مضمون کی ابتداء میں گریٹر کشمیر کا حوالہ دیا گیا تھا تاکہ بات سمجھ میں آئے۔ اسی طرح اس اخبار کا پھر سے حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ کیسے Oscar Wilde اپنی تحریر The Selfish Giant اور دنیا کی عظیم کتابوں میں ایک The Mahabharata میں کیسے محبت کے کیل معصوموں کی ہتھیلیوں اور پاوؤں میں ٹھونکی گئیں۔ یہ منصور جیسا درد ہے۔ یہ سقراط کا کڑوا زہر ہے۔ یہ سیدنا امام حسین ؑ ؑؑکی شہادت ہے۔ یہ امام جعفر صادقؑکا درد ہے۔ یہ حضرتِ سکینہؓ کا درد بھی ہے۔ یہ درد اتنا گہرا درد ہے کہ ہڈیوں کے ٹوٹ جانے کا درد اس کے آگے صفر ہے۔ اب ہم چکّی کے دو پاٹوں کے بیچ میں پھنس گئے ہیں۔ اب چھٹکارا تب ہی ممکن ہے جب ہم اس گلشن کو مالی کے حوالے کر دیں گے۔ ابراہیم ذوق کے الفاظ میں کہ بہتر یہی ہے کہ اس دنیا سے نہ جی لگے، کے تناظر میں ہم بھی یہاں سے جانے کی فکر میں رہے۔ اس چوربازار میں سامان ہر روز لوٹا جاتا ہے۔ اپنی فکر کریں اور جانے کی تیاری میں مصروف ہوجائیں اور مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی طرح ہماری آرزو بھی پوری ہوجائے گی۔ اللہ ہم سب کو معرفت سے آگاہ کرے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]