سرینگر//عوامی نیشنل کانفرنس کے سنیئر نائب صدر مظفر شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مرکزی سرکار کی جانب سے ایک بار پھرکشمیرمیں افراتفری کی صورت حال کا جائیزہ لینے کیلئے اور کشمیر کے لیڈروں سے بات چیت کے لئے مذاکرات کار کی حیثیت سے شری دنیشور شرما کو کشمیر بھیجنے کی حکمت عملی ترتیب دی ہے ۔جبکہ آج تک اس قسم کی کوششوں میں مرکز کو کوئی کامیابی نہیں ملی ہے مظفر شاہ نے کہا کہ نئے مذاکرات کا ردنیشور شرما کے کشمیر آنے کے مشن کو واضح کیا جانا چاہئے کہ اْسے کن امور کے بارے میں کشمیر آکر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا ہے۔ ریاست کے آئینی اور شہری حقوق سے متعلق خصوصی دفعہ 35-A کو آئین سے ختم کرنے کی عرضداشت کسی نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہے ۔پہلی سماعت پر اٹارنی جنرل آف انڈیا نے مرکزی سرکار کی جانب سے اس بناء پر چھ مہینے کی فرصت دینے کی عدالت سے درخواست کی ہے کہ مرکز نے چونکہ مذاکرات کار کی تقرری عمل میں لائی ہے اس لئے اگلی سماعت کے لئے وقت دیا جائے ۔عدالت نے اگر چہ تین مہینے کے بعد مقدمہ کی تاریخ مقرر کی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہند سرکار نے مذاکرات کار کو ہند کشمیر تعلقات کے آئینی دستاویزات پر بات کرنے کا اختیار دیا ہے یا امن و قانون کی صورت حال کا جائیزہ لینے کی اجازت دی ہے؟اگر ہند کشمیر کے آئینی تعلقات کو زیر بحث لانے کے لئے مذاکرات کار کشمیر آرہا ہے تو کشمیر کے آئینی اور قانونی ماہرین کو اصلی صورت حال سے مذاکرات کار کو آگاہ کیا جانا چاہئے لیکن اس سے پہلے مرکزی سرکار مذاکرات کار کو کشمیر بھیج د ینے کے مقصد کو واضح کرے کہ کیا مذاکرات کار کو 370 اور 35-A کے دفعات اور ہند کشمیر کے آئینی امور پر بات چیت کرنے کا اختیار ہے کہ نہیں ۔ آپ نے کہا آئینی امور پر بات چیت کرنے اور بحث میں حصہ لینے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ کشمیر کے لوگوں کو اپنے موقف سے کوئی ہلا نہیں سکتا۔