کرتار پور کاریڈور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ہندو ستان اور پاکستان کے ما بین چپقلش، تنائو اور بے اعتباری کا خلاصہ منیر نیازی کا یہ خوبصورت شعر پڑھ کر کیا ؎
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
بر صغیر کے میڈیا میں عمران خان کی تقریر کو خوب تشہیر ملی لیکن اس شعر کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی حالا نکہ ہندوپاک تنازعات کے تناظر میں یہ شعر پڑھ کر عمران خان نے ایک بہت بڑی بات کہہ دی۔1947 سے لے کر آج تک یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان اور پاکستان کے کسی بڑے لیڈر نے یہ اعتراف کیا ہو کہ دونوں ممالک کے بیچ تنائو کیلئے کوئی ایک ملک نہیں بلکہ دونوں ممالک ذمہ دار ہیں۔آج تک تو یہی مشاہدے میں آیا ہے کہ ہند۔پاک کی قیادت نے ہمیشہ ایک دوسرے پر الزامات دھرنے کی ہی سیاست چلائی ہے۔ بلوچستان میں کچھ ہوتا ہے تو اُنگلیاں ہندوستان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ کشمیر میں کچھ ہوتا ہے تو اُنگلیاں پاکستان کی طرف اُٹھتی ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ عبرتناک ہے۔ دونوں ممالک انگریزوں سے آزادی کے بعد سے ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہیں۔ دونوں ممالک نے جنگیں لڑیں۔براہ راست بھی اور پراکسی بھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک میںہر سطح پر افراتفری پھیلانے کے لئے مداخلتیں کیں۔ ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کے لئے کو ششیں کیں۔دونوں ممالک نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ اپنے ملک میں پڑوسی ملک کو دشمن کے طور پیش کیا جائے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے کھُلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں۔
ہندوستان کی جانب سے عمران خان کی صاف گوئی کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور نہ ہی ملنے کی توقع ہے کیونکہ لوک سبھا کے انتخابات کا نقارہ بج چکا ہے اور حال ہی میں تین ریاستوں،راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کے ہاتھو ں ہزیمت اُٹھانے کے بعدوزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ انتخابی ماحول کے بیچ اُن کے دوستی کے حوالے سے دئے گئے بیانات پر ہندوستان کی طرف سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا جائے گا۔لیکن پھر بھی اُنہوںنے اتنی بڑی بات کہہ دی۔ کیوں؟ کیا عمران خان کو ہندوستانی establishment کی جانب سے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ انتخابات کے بعدامن عمل کی شروعات کا امکان ہے؟حالانکہ یہ ایک مفروضہ ہے لیکن آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ یہ ناممکن بھی نہیں۔
کانگریس لیڈر نو جوت سنگھ سدھو عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہوتے ہیں۔ پاکستانی آرمی چیف کے گلے لگتے ہیں۔ہندوستانی میڈیا اس کو لے کے بوال مچاتا ہے ۔ سدھو اپنے دفاع میں کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے اُنہیں یہ یقین دلایا کہ سکھ یاتریوں کیلئے کرتارپور کاریڈور کھولا جارہا ہے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد پاکستانی سرکار با ضابط طور یہ کاریڈور کھولنے کا اعلان کرتی ہے اور افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایسی بات کہہ دی جو آج تک کسی ہندوستانی یا پاکستانی لیڈر نے کبھی نہیں کہی ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں سے پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ ایل اوسی پر لگاتار دونوں جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ سفارتی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ ہندوستانی سرکار کی جانب سے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور جوں جوں انتخابات قریب آتے جائیں گے، ان بیانات کی تلخیوں میں بھی اضافہ ہو تا جائے گااور اس ساری اشتعال انگیزی کے بیچ عمران خان نہ صرف کرتارپور کاریڈور کھولنے کا اعلان کرتے ہیںبلکہ شاردا پیٹھ اور دیگر مذہبی مقامات کو بھی غیر مسلم زائرین کیلئے کھولنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ ایسی کشیدگیوں کے ہوتے ہوئے عمران خان راستے کھولنے، ماضی کی تلخیوں کو بھولنے کی بات کرتے ہیں۔ آخر اس کے پیچھے کیا منطق ہے؟ بات پھر وہیں آکے رُکتی ہے کہ کیا عمران خان کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ انتخابات کے بعد ہندوستان کی نئی سرکار امن عمل کو پھر سے شروع کرنے جارہی ہے؟ اور کیا عمران خان مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کیلئے زمین ہموار کرنے میں لگے ہیں؟
ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے کیلئے پاکستان کی شمال مغربی سرحد کی جانب بھی نظر دوڑانی پڑے گی۔ افغانستان کی حکومت کو پاکستان سے بے شمار شکائتیں ہیں اور سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ پاکستان طالبان کا ساتھ دے کر افغانستان میں امن کوششوں کوکامیاب نہیں ہونے دے رہا ہے۔ موجودہ افغان حکومت کا پاکستان کے تئیں رویہ بہت ہی تُرش رہا ہے اور افغانستان میں ہونے والی ہر تخریبی کاروائی کو پاکستان کی آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ اس سارے تنائو کے بیچ انکل سام پاکستان کی وساطت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ گو کہ ابو ظہبی میں ہونے والے ان مذاکرات میں افغان حکومت کے کسی بھی ذمہ دار شخص نے براہ راست شرکت نہیں کی لیکن مذاکرات کے دوران افغانی ڈیلی گیشن بھی متحدہ عرب امارات میں ہی موجود تھا۔ان مذاکرات کو ممکن بنانے میں پاکستان نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ افغان حکومت کی جانب سے ہدف تنقید بننے کے باوجود پاکستانی سرکار نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کے لئے تیار کر لیا۔ گو کہ ابھی شروعات ہوئی ہے اور افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال کے پیش نظر ان مذاکرات کے انجام کے بارے میں کوئی پیشین گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا، لیکن مذاکرات کا انعقاد اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے۔
امریکا ۔پاکستان تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی کو دور کرنے کے لئے پاکستانی حکومت سر پیر مار رہی ہے۔ ملک کی اقتصادی صورتحال کے پیش نظر پاکستان امریکہ کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے امریکی حکومت کے کہنے پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پہل کی۔پاکستان اپنے اس عمل سے اپنے لئے دوہرے فائدے کی توقع رکھتا ہے۔ ایک تو ایسا کرکے پاکتان نے ایک بار پھر امریکی حکومت کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا شدت سے خواہاں ہے اور دوسری طرف اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور افغانستان کی سیاسی صورتحال میں کوئی ایسی تبدیلی ہوتی ہے جس کے ہوتے افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر تنائو کم ہونے کا امکان ہے۔ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی صورتحال میںپاکستان کی ترجیح یہی ہو گی کہ افغانستان کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات بحال ہوجائیں اور اگر وہ امریکی اور طالبان قیادت کے مابین مذاکرات میں کوئی پیش رفت کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو افغانستان کے ساتھ حالات سازگار ہونے میں کوئی زیادہ دقت نہیں ہوگی۔اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بدلے میں عمران خان کی حکومت امریکہ سے کیا چاہے گی۔ مالی امداد وغیرہ کی باتیں تو چلتی ہی رہیں گی لیکن پاکستانی حکومت کے رویے سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی میں سنجیدہ ہے ،اسی لئے عمران خان مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لگاتار ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی بات کرتے آرہے ہیں۔ عمران خان جانتے ہیں کہ اس اسٹیج پر نریندر مودی حکومت براہ راست بات چیت کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ قومی انتخابات اس کے سر پر ہیں۔ لیکن ہندوستان میں نئی حکومت بننے کے بعدعمران خان ایسے مذاکرات کی شروعات دیکھنا چاہیں گے۔ اس کے لئے وہ ایک طرف دوستانہ بیانات دے رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی اور ہندوستانی تعلقات میں بہت حد تک سدھار آچکا ہے اور عمران خان انہی امریکی تعلقات کو بھارت کے ساتھ از سر نو مذاکرات شروع کروانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ بار بار ہندوستان کے ساتھ تعلقات سدھارنے کی بات کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
دوسری جانب ایسے بھی کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین خفیہ طور کسی نہ کسی سطح پر بات چیت جاری ہے۔کرتارپور کاریڈور کے کھولنے کا فیصلہ شاید اسی خفیہ بات چیت کا نتیجہ ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک، ایل اوسی پر کشیدگی، ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات لگانے ، ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کے اس شور غل میں اتنا دور رس نتائج والا فیصلہ لینا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ شاید اسی خفیہ بات چیت کے دوران عمران خان کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہندوستان میں جو بھی سرکار آئیگی، پاکستان کے ساتھ با ضابط مذاکرات کے راستے کھول دئے جائیں گے۔ اس یقین دہانی کے باوجو ہند ۔پاک تلخیوں کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کو اس بات کا پورا ادراک ہے کہ امریکہ بھی درپردہ کوشش شروع کرے تو ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں سدھار لانے کے لئے بات چیت کے سلسلے کو لازمی طور ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب ہندوستان اور پاکستان کے مابین مذاکرات ہوئے ہیں، کشمیریوں کو تھوڑی بہت راحت نصیب ہوئی ہے۔عمران خان تعلقات میں سدھار لانے کے لئے جو پہل پر پہل کر رہے ہیں، اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو سب سے زیا دہ اگر کسی کا بھلا ہو گا تو وہ کشمیریوں کا ۔ کشمیری مسلسل عذاب جھیل رہا ہے اور اس عذاب سے راحت کا ایک راستہ دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے ہند۔پاک تعلقات میں سدھار۔ عمران خان نے کرتار پور کاریڈور کی افتتاحی تقریب میں بولتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کبھی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے کیونکہ دونوں ممالک کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں۔ جب جنگ کوئی آپشن ہی نہیں تو پھر مذاکرات کے بغیر اور کونسا طریقہ بچتا ہے جسے آزمایا جائے۔
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر