یہ ایک کھلا راز ہے کہ گزشتہ سترسال سے وقت وقت پر مرکزی حکومتوںکی کشمیر پالیسی ہمیشہ ادلتی بدلتی رہی جب کہ دنیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی کہ پردہ ٔ سیاست پر کشمیر کہانی ہر موڑ پر عجیب وغریب سسپنس کا روپ دھارن کر تے ہوئے اصل درد کا درماں تو نہیں بنتی رہی بلکہ اس کے بجائے پہلے سے ہی موجودہ پیچیدگیوں میں مزید سلوٹیں اور گانٹھیں ڈال دیتی رہی کہ کبھی ویلن کو ہیرو اور کبھی ہیرو کو ویلن بناکر پیش ہونا پڑتا تاکہ کشمیرmelo-drama کا چلتا رہے ۔ یوں کشمیر کہانی میں عجیب طرح کی تضاد آرائیاں اپنا وجود منواتی رہی ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ماہِ اکتوبر میں جموں و کشمیر کے لئے خصوصی مذاکرات کار( یا مرکزی ایلچی کہئے )کی حیثیت سے دنیشور شرما کا تقرر ہے ۔یاد رہے کہ یہ صاحب سابق آئی بی چیف بھی رہے ہیں ۔ ان کا پیشہ چونکہ خالص جاسوسانہ رہاہے ،اس لئے ان کی خد مات کشمیر کے حوالے سے کس نوعیت کی ہوسکتی ہیں یا ان کی نامزدگی میں مرکز کے کیا عزائم پوشیدہ ہوسکتے ہیں ، شاید ان کا تصور آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔دنیشور شرما نے ریاست کا پہلا دورہ ۶؍نومبر کو کیا اور پہلے ہی دن’’ بتالیس وفود‘‘ ( ناقدین ومبصرین کہتے ہیں کہ ان ’’وفود‘‘کی کوئی سیاسی یا عوامی ساکھ نہیں ) سے ملاقی ہوئے۔ اتنے سارے لوگوں سے کشمیر کے چیستاں پر گفت وشنید کر نا بذات خود ریکارڈ ہے یانہیں،اس نکتے پر تبصرہ ٹالتے ہوئے ، صرف ایک دن کے اندر ۴۲؍ ’’وفود‘‘ سے ملنا،ان کی سننا ، ان سے اپنی کہنا ، یہ معاملہ اپنے آپ میں بھی ایک عجوبہ ہے ۔ غور طلب ہے کہ دنیشور شرما کی نامزدگی کے اگلے ہی دن بی جی پی لیڈر ایک اہم لیڈر نے اس بات کا بر ملا اعتراف کیا تھا کہ یہ صاحب حکومت کے نمائندے ہیں ۔ اس ایک مختصر سے جملے میں ساری کہانی کا وہ تھیم چھپاہواہے جو یہ باور کراتا ہے کہ شرماجی کا کشمیر مشن کا لیکھا جوکھا پہلے ہی سے طے شدہ ہے،۔ البتہ کشمیر کے سیاسی ڈرامے میں آہستہ آہستہ یہ سارا قصہ ٔ طولانی ڈی کوڈ ہو تا چلے گا ۔ خود اہل کشمیر کے نقطہ ٔ نظر سے اس گفت وشنید سے شاید ہی کوئی مفید مطلب پہلو ابھر کر سامنے آئے اور یہ کہ یہ سلسلہ ٔ جنبانی مشق لا حاصل ثابت ہونا ہی ہونا ہے۔
بہر کیف مذاکرات کار اپنے دوسرے راونڈ میں ۲۴؍ نومبر کو واردِ جموں ہوئے ، یہاں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے علاوہ دوسرے کلیدی عہدے داروں اور کچھ ’’نئے وفود ‘‘سے بھی ملے ۔ اس کے بعد دنیشور شرما ہنگامہ خیز جنوبی کشمیر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد پہنچے ۔ یہ دورہ تین دنوں پر محیط تھا اور موصوف دو مرتبہ اسلام آباد پہنچے جہاںسر کاری اعلان نامے کے مطابق وہ طلبا ء اور اُن والدین سے ملے جن کے بیٹے جیلوں میں مقید ہیں ۔انہوں نے اطلاع کے مطابق جنگجوؤں کے والدین سے بھی ملاقاتیں کیں اور اپنے دورے کا آخری دن سرینگر میں گذارا ،جہاں اطلاع کے مطابق پھر ایک بار کثیر التعداد’’ وفود‘‘ ان کے منتظر تھے۔ان کے ساتھ موصوف نے ملاقاتیں ( یا گپ شپ )کیں ۔اخباری اطلاعات کے مطابقــ ملاقات کے لئے آئے ان’’ لوگوں یا وفود‘‘ نے دنیشور جی کے ساتھ ، بجلی ،سڑک ، بے روزگاری ، حکام کی غفلت شعاری ، وغیرہ امورپراپنی توجہ مر کو زکی جب کہ مین اسٹریم پارٹیوں نے مخلوط حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورنس کا رونا رویا ۔یہ سب وہ مسائل یا عوامی مطالبات ہیں جنہیں یہاں عوامی درباروں میں محلہ صدور منسٹروں یا اکثر وبیشتر ڈیویژنل کمشنر کے ساتھ ڈاک بنگلوں میں قہوہ نوشی کرتے وقت اٹھاتے ہیں اور اپنی شکایتیں درج کر تے ہیں۔ یہ کوئی سات پردوں میں چھپا کوئی راز نہیں بلکہ ایک عیاں وبیاں حقیقت ہے کہ ان ’’درباروں‘‘ میں پچھلے تیس برسوں سے وہی ’’معززشہری ‘‘ اور وہی چہرے اگلی اور پچھلی صف میںپیش پیش نظر آتے رہتے ہیں جن کی ایک پوری لسٹ متعلقہ سرکاری محکموںکے پاس ہمیشہ رہتی ہے ۔ روایت کے عین مطابق ہر بار یہی لوگ مر کزی ’’صاحب بہادروں ‘‘ کے یہاں باریابی کے لئے بلائے جاتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تواس قسم کے دربار منعقد ہوتے ہی اس لئے ہیں تاکہ سرکاری ٹی وی اور حکومتی ترجمان کی خبریں ’’ڈیولپمنٹ ‘‘ کے عنوان سے مشتہر ہوکر خیالی جنتیں بناتی رہیں ۔عوام ا ن درباروں سے کل بھی دوریاں اور فاصلے بنائے رکھے ہوئے تھے اور آج بھی ان سے لاتعلق ہیں، بالکل اسی طرح جیسے متحدہ مزاحمتی قیادت، ، عوامی نمائندے ، سول سو سائٹی ، تجارتی ادارے ، چیمبر آف کامرس ، بار ایسوسی ایشن اور دوسرے بڑے بااعتبار ادارے اور انجمنیں دنیشور شرما سے دوری بنائے ہوئی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس سیاسی بیوپار منڈل کا مطلب کیا ہے سوائے ا س کے کہ نشستند گفتند برخواستند کا ایک ا ور راؤنڈ تاریخ کشمیر میں درج ہو ؟ اس سوال کا جواب واجبی سطح کا ذہن رکھنے والا بھی خوددے سکتا ہے ۔
زیر بحث موضوع کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ہمیں تھوڑا سا ماضی کے جھروکوںمیں بھی جھانکنا ہوگا ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ یو پی اے ( کانگریس ) نے وقتاً فوقتاً کشمیر کے لئے مذاکرات کار مقرر کئے ، پھراین ڈی اے (بھاجپا)کی قیادت والی سرکار نے بھی کشمیر پر مذاکرات کار مقرر کئے ۔ اسی روایت کو دہراتے ہوئے سخت گیرمودی سرکار اب دنیشور جی کومذاکرات کار( ایلچی ) کی حیثیت سے سامنے لائی ہے ۔ ان تمام تقرریوںکاانجام چونکہ ایک جیسا بنا ،اس لئے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس بار شر ما کہانی کا ڈراپ سین ماضی کے مذاکرات کاروں سے کچھ بھی مختلف ہو۔ اس بات پر یقین کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت سارے وجوہ و دلائل ہیں ۔ مثلاًان ’’بے شمار وفود‘‘ نے جو بقول سرکاری پریس بیانات کے دنیشور جی سے ملے ، اب تلک اپنی ملاقاتوں میں جو اشو یا مسائل اٹھائے ہیں، کیا ان میں کسی ایک کا بھی مسئلہ کشمیر سے دور دور کا کوئی تعلق بنتا دکھتا ہے ؟ نہیں ، یہ ہماری حکومتوں کے ساتھ جڑے وہ روزمرہ عوامی مسائل ہیں جو میٹرو پالیٹین شہر جیسے دلی، ممبئی ، کولکتہ ، چنئی اور دوسرے شہروں سمیت یہاں بھی موجود ہیں اور جو سرکاروں کو لازماً ایڈریس کرنا ہوتے ہیں۔ کشمیر میں بھی یہ اَن گنت مسائل موجود ہیں جو بقول سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پانی سڑک بجلی نالی بے روزگاری سے متعلق ہیں۔چونکہ ریاست میں جیسی تیسی سرکار بہرحال موجود ہے جس پر ان مسائل کو حل کرنے کی قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ دنیشور جی کا روز گار تعلیم ، صحت ، بلدیاتی سہولیات ، ریزرویشن ،آئین کی دفعہ ۳۵۔A،دفعہ ۳۷۰، روہنگیائی ا ور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کی بے دخلی ، مغربی پاکستان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں (شرناتھیوں )کو ریاست کی شہریت ، مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن کی مناسبت سے ۲۳؍ ستمبر کو سرکاری تعطیل ،گوجر ،بکر وال نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کرنے وغیرہ و غیرہ مسائل سے تعلق کیا بنتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ سارے مسائل مسئلہ کشمیر کے ساتھ کسی طرح کی کوئی مطابقت نہیں رکھتے بلکہ ر یاست کے اپنے خانگی انتظامی( حقیقی یا مصنوعی) مسائل ہیں جنہیں ایڈ ریس کرنے کے لئے ہی ریاستی حکومتیںمعرض وجود میں لائی جاتی ہیں ۔ اس بنا پریہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاکرات کار کا تقرر یہی مسائل حل کرنے کے لئے ہوا ہے ؟اور اگر ایسا ہے تو یہاں کی سرکا ر کے ذمہ کون سے کام رہ جاتے ہیں ؟دوسری بات جو ذہنوںکو اچھنبے میں ڈالتی ہے کہ پہلے دن سے ہی’’ سینکڑوں وفود‘‘ کا ٹڈی دَل اپنے غیر اہم اور غیر منسلک سوالات کے ساتھ مذاکرات کار کو اتنا مصروف کیوں رکھ گئے ہیں کہ وہ اصل مسئلے کے بارے میں غور وخوض کرنے کی فرصت بھی نہیں پاتے ؟کہیں کچھ ایسا تو نہیں کہ ان اتنے سارے ’’وفود ‘‘میں زیادہ تر ’’وفود‘‘ خود سرکاری اور دوسری ایجنسیوں کے ہی سٹیج managed تونہیں ہیںجو اول محض خانہ پُر ی کا کام دیتے ہیں ، دوم وفود کی نفر شماری کا ہندسہ بڑھاتے ہیں ، سوئم سرکاری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں’’ وفود‘‘ کی ایک بہت بڑی تعداد دکھا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک جانب اصل مسئلے کی ہوا بھی کہیں دنیا کو لگنے نہیں دیتے اور دوسری جانب بھانت بھانت کی بولیوں اور جدا جدا ٹولیوں کے بیچ اصل مسئلہ کو ہائی جیک کر تے ہیں ؟ بہر کیف مذاکراتی سیاسی سوانگ کے پس پردہ بہت سارے کردار دخیل نظر آتے ہیںجن میں کوئی ہدایت کار ہے ، کوئی پرڈیوسر ہے اور کوئی اداکار ۔ اس لحاظ سے یہ سار سرکش شو ا چھے خاصے ڈرامہ بازی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ کیا شرماجی کے ان دو پھیروں میں یہاں کوئی ایک آدھ وفد کہیں نظر آیا جو اصل مسئلے کی بات کرگیا ہو یا جسے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے کا منڈیٹ عوام کی طرف سے حاصل رہاہو؟؟؟ اگر میراقلم یہ لکھے تو سچائی ہوگی کہ مذاکرات کار کا وادیٔ کشمیر میں قدم رنجہ ہونے سے پہلے ہی بہت سارے ’’وفود‘‘ کی تشکیل کی جاتی ہے تاکہ مذاکرات کار کی دہلیز پر گہما گہمی بھی رہے اور ایسا بھی لگے کہ وہ زبردست مصروف ہیں اور تاثر یہ دیا جائے کہ کشمیر کے کونے کونے سے وفود آکر مسئلہ کشمیر سے متعلق انہیں اپنی آراء سے آگاہ کر رہے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ ساری چیزیں مذاکرات کاروں کو ہی نہیں بلکہ ان کے ملاقاتیوں کی پوزیشن بھی مضحکہ خیز بناتی ہیں ۔ کسی حل طلب مسئلے میں ثالثی کا کردارا دا کر نے والے یا فریقین کو ایک ودسرے کے سامنے لانے کے ضمن میں مذاکرات کار کا مشن ایک بہت ہی اہم اور سنجیدہ عمل ہوتاہے جس سے مسائل حل ہوتے ہیں اور گتھیاں سلجھی جاتی ہیں مگر پچھلے ستر سال سے جموں وکشمیر کے قضیہ کو سلجھانے کے لئے اقوام متحدہ کی ثالثی سے لے کر دنیشور شرماکی مذاکرات کاری تک تمام اقدامات بوجوہ بے ثمر ثابت ہوتے رہے ۔ ا س میں دورائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر نے خطے کے ساتھ ساتھ سارے جنوبی ایشیا خطے کو بارود کے ڈھیر پر بٹھایا ہوا ہے اور اتنے بڑے تنازعے کو جو سلامتی کونسل میں بھی ایک زندہ مسئلہ کی حیثیت سے آج بھی سانسیں لے رہا ہے ،کے لئے مذاکرات کار متعین ہو اور اس کا وقت چھوٹے چھوٹے مسائل میں ضائع ہوجائے ، تواس پر کیا کہئے ؟ کشمیر سپیفک مذاکرات کار کو بھی اس بات کا فہم وادراک ہو نا چاہیے کہ اُن کے سامنے مشن کیا ہے اور اس مسئلے کے اصل سٹیک ہولڈرکون ہیں جن سے انہیں ملنا چاہیے اور کھلے دل سے گفتگو کر نی چاہیے۔ اس کے برعکس اگر اصل مسئلہ کی طرف دل کا دربار اور سماعتوں کے دریچے بند رکھیں جاتے ہیں تو یہ سارا کچھ سعی ٔ لاطائل ثابت ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
دلی اپنے ہم نواؤں (مین اسٹر یم پارٹیوں ) سے پچھلے ستر برس سے ملتی جلتی رہی ہے ۔ وہ کبھی این سی پر عنایتوں کی بارش کرتی رہی ہے، کبھی کانگریس کی مسند نشینی کر تی رہی ہے ، اب اس وقت بی جے پی اور پی ڈی پی کے ناقابل فہم سنگم سے سرکار چلاتی ہے ۔ یہ سب دلی کے اپنے مہرے ہیں جن سے مرکز کے منجھے ہوئے بادشاہ گر صرف کرسی کے کنٹریکٹ پر کچھ بھی کراسکتے ہیں۔ اگر دنیشور جی کو اُنہی سے ملنا ہے،انہی کی سنناہے، انہی سے افہام وتفہیم کا دروازہ کھولنا ہے تو پھر یہ مذاکرات کاری کا دھندا صرف دائرے کاسفر ہے کیونکہ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ یہ سب لوگ الفاظ کے ہیر پھیر کے باوجود الحاق کو حتمی اور اٹوٹ کہتے ہیں ، انہیں دلی سے کوئی شکایت نہیں ،ا ن کی ہی کرم فرمائی سے کشمیر میں افسپا اور شورش زدہ علاقوں کے لئے مخصوص ایکٹ نافذ العمل ہیں اور انہیں لے دے کے عوامی راحت سے نہیں بلکہ ذاتی پاور اور وزارتیں چاہیے ۔ محض ان کے لئے مذاکرات کار مقرر کیا جانا تضیع اوقات اور عوامی خزانے کا زیاں ہے۔ اس لئے مرکز کوچاہیے کہ موجودہ مذکراتی گورکھ دھندے کو مختصر کر کے اپنے تہہ خانوں میں کانگریسی دورِ حکومت کی راونڈ ٹیبل کانفرنسوں کی جوسفارشا ت اور پانچ ورکنگ گروپوں کی تجاویز دھول چاٹ رہی ہیں،ان کو نکال کر انہی پر از سرنو غور وفکر کرے۔ نیزماضیٔ قریب میں پڈگاؤنکر کمپنی کی تفصیلی رپورٹ بھی کہیں نہ کہیں دلی کے دھنوانوں کے یہاں موجود ہی ہوگی ، مر کزاس پر بھی نگاہِ التفات ڈالنے کاکشٹ اٹھائے۔ مزید برآں کیا بھارت کشمیری عوام کی دھڑ کنوں سے واقف نہیں کہ اس کے لئے کوئی ایلچی یا نمائندہ مقرر کر نا پڑے ؟ چونکہ مرکز کی نیت بنیادی مسئلے کو ایڈ ریس کرنے کی کبھی نہیں رہی ہے، اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکثر وبیشتردلی اپنے ہی مقرر کردہ مذاکرات کاروں ،ا یلچیوں ، ٹریک ٹو کے خفیہ کرداروں کی رپورٹیں اور سفارشیں کبھی قابل اعتناء نہیں سمجھیں ،ان کی خدمات حاصل کر نا محض وقت گذاری کا آزمادہ حربہ تھا بلکہ ان چونچلوں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ بیرونی رائے عامہ کو گمراہ کیا جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار۲۰۱۶ء کے ہنگامہ خیز حالات کے پس منظر میں نئے مذاکرات کار کا تقرر ایک بڑی خبر تھی لیکن اس خبر کے غبارے سے یک نفری ودونفری’’ سینکڑوں وفود‘‘ کی لاحاصل ملاقاتوں نے ہوا نکال کر اسے ایک فضول مشق ظاہر کر کے ہی رکھ چھوڑا۔ اور ہاں ا س سے زیادہ سے زیادہ بعض چنلوں کوزبردست مصروفیت و مشغولیت کا بہانہ فراہم ہوا کہ ا نہیں کشمیر مخالف فضول مباحثوں کا بنا بنایامواد ملا ۔اگر اس سارے تماشے کا مقصد یہی کچھ ہے جیسا کہ حالات وواقعات سے ظاہر بھی ہوتا ہے تو پھر دنیش شرما جی وادی میں آمدورفت کے کتنے ہی وزٹنگ راؤنڈ کریں ،وہ کچھ بھی حاصل نہ کر پائیںگے اور اپنی ہر رپورٹ میں اصل کشمیر بیانئے کے حوالے سے حق بیانی سے کوسوں دور رہیں گے ۔ بایں ہمہ اگر مستقبل میں کبھی کسی موڑ پر سرکار ی سطح پر دلی کو ماضی کا اعادہ کر نے کی بجائے سنجیدگی اور خلوصِ نیت سے یہاں عوام الناس سے بات چیت کی ضرورت محسوس ہو تو اسے لازماً اپنے نامزد کردہ مذاکرات کار کو یہ لازمی ہدا یت دینا پڑیں گی کہ وہ کشمیر کادر وکرب سمجھنے اور سمجھانے کے لئے دُکھتی رگوں پر اپنی انگلیاں رکھ دیںنہ کہ اپنا وقت غیر متعلقہ ہجوم کے درمیان ضائع کرنے کا جوکھم اُٹھائیں ۔
رابطہ 9419514537