چند روز پہلے یہ ایک خوش نما خبر مختصراًگردش میں رہی کہ بھارت سرکار نے پاکستان کی طرف سے موصول ہوئی مذاکرات کی تجویز کو منظور کر لیا ہے اور یہ کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی نیو یارک میں یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے حاشئے پرملاقات ہوگی۔ یہ اعلان برصغیر کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لئے ایک نوید وخوش خبری تھی ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہند نریندر مودی کے نام مکتوب لکھا جسے نئی دلی میں غیر متوقع طور پذیرائی ملی۔ بے شک ہند پاک ملاقاتیں اور مذکرات کے نتائج ہمیشہ شک و شبہ کے پردے میں رہتی چلی آئے ہیں پھر بھی اس بار امن پسند لوگوں نے اسلام آباد کو دلی کی طرف سے اوکے سے سکون کی سانس ضرور لی کیونکہ کافی دیر سے چلا آ رہا ڈیڈ لاک کم ازکم اب ختم ہونے کا امکان تھا لیکن دو دن بعد ہی دل ٹوٹنے والی یہ خبر آئی کہ بھارت نے اپنی طرف سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات ردّ کر دیا ہے۔
ہندوستان کی سرکار نے ملاقات کی تجویز رد کرنے کی بڑی وجہ یہ بتائی کہ مذاکرت کی بات کرتے ہی بقول اس کے پاکستان کے اشارے پر چلنے والی عسکری تنظیم نے کشمیر میں تین پولیس والوں کا قتل کر دیا۔بلا شبہ ان پولیس کرمیوں کا قتل بہت دردناک بات ہے۔ ہم نے اُن کے گھر والوں کی روتی چلّاتی اور دلد ہلا دینے والی تصویریں دیکھی تو دل بھر آیا۔ شورش زدہ کشمیر میںچاہے پولیس والے یا فوجی جوان عسکریوں کے ساتھ جھڑپ اور مڈبھیڑ میں مارے جائیں یا عسکریت پسنداور سوئلین اپنی جان گنوا بیٹھیں، مارا ماری پرایک حسا س دل انسان کو دُکھ اور صدمہ پہنچنا لازمی ہے۔
پھر بھی یہ بات سوچنے والی ضرور ہے کہ ایسا دلدوزسانحہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پہلے بھی پولیس اور فوج جوانوںکو گھر یا کسی اور جگہ سے اغواء کر کے مارنے کی بہت ساری وارداتیں ہو چکی ہیں۔ پھر جب ہم اس طرح کے ہر واقعہ کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیں ، اُس سے ہم گفت وشیند کی میز پر قیامت تک نہیں آسکتے کیونکہ جب تک کوئی مذاکراتی حل نہیں نکلتا حالات سدھرنے کا نم نہ لیں گے۔ کشمیر میں سرگرم جنگجو تنظیمیں پاکستان سرکار سے آشیر واد لے سکتی ہیں لیکن ضرور ی نہیں کہ پاکستان کا ہر حکم وہ بجا لائیں، ملی ٹینسی ایسا ہو بھی سکتا ہے اورنہیں بھی ہو سکتا۔ اور پھر ہمین یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرس کا بھی اس ساری کارستانی میں اپنا ایک رول ہوسکتا ہے ۔یہ خفیہ ہاتھ کبھی نہیں چاہیں گے کہ بھارت اور پاکستان کے رشتوں میں بہتری آئے ، بات چیت ہو ، امن اور تصفیہ پر سوچ بچار ہو کیونکہ ان کو امن وآشتی پسند نہیں۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے کہ جیسے ہی انڈو پاک امن کی کوئی کوشش ہونے لگتی ہے ، فوراًکوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے۔یہ عناصر نفرت اور عنادکے ماحول کو زندہ رکھنے کی کوشش میںلگے رہتے ہیں۔اس پس منظر میں دیکھیں تو ہند پاک مذاکرات کا اب کی بار پھرردّ ہونا ان غیبی ہاتھوں کی ہی فتح یابی ہے نہ کہ دلی اور اسلام آباد کی جیت، کیونکہ یہ لوگ ان سے پھر ایک بار اپنا ایجنڈ منوانے میں کامیاب رہے۔ آگے بھی ان لوگوں سے یہی توقع ہے اور ضروری نہیں کہ یہ عناصر صرف ایک ہی ملک یا خطے میں ہوں، نفرتوں کے سوداگر یہاں بھی ہیں اور پار بھی۔
ہند پاک مذاکرات رد ہونے کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے فوجی سربراہوں کے بہت اشتعال انگیز بیان آئے ہیںجن میں ایک دوسرے ملک کو سبق سکھانے اور ’’مناسب‘‘ جواب دینے کی باتیں کی گئیں۔کیا ہوتا ہے سبق دینا اور کیا ہوتے ہیں موزون جواب؟ ان کا ایک ہی مطلب ہے، صرف ہلاکتیں ، موتیں اور تباہیاں۔یہ کام پہلے ہی دونوں جانب بہت ہوچکا ہے۔ اب خدارا بس کریں تو اچھا۔باوجود اس کے کہ دونوں ملکوں میں نفرتوں کے تاجرین کا اچھا بزنس چل رہا ہے، دونوں ملکوں میں امن اور دوستی کی طاقتیں بھی موجود ہیں جو سمجھتی ہیں کہ رشتوں کی بہتری عوام کی پہلی ضرورت ہے۔یہ لوگ مانتے ہیں کہ جب تک بھارت ایک ہی رَٹ لگاتا رہے گا کہ پہلے’’ دہشت گردی روکو‘‘ پھر بات ہوگی اور پاکستان یہ دوہراتا جائے گا کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے، باقی کی باتیں بعد میں ہوں گی ، ا س وقت تک کبھی بھی نہ کوئی کامیاب مکالمہ ہوگا اور نہ کوئی قابل قبول حل نکلے گا۔حقیقت یہ ہے کہ دوستانہ ماحول بنانے سے، لوگوں کے باہمی رابطے بنانے سے، ان کے ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے ، ایک دوسرے کی سننے سے، آ رپارآنے جانے سے ہی نفرتوں کی فضا دور ہوگی اور مطلع صاف ہوگا۔ صرف ایسا کرنے سے ہی وہ خوش گوارماحول بنے گا جس سے شدت پسندی بھی رُک جائے گی اور پیچیدہ حل طلب مسائل بھی حل ہوںگے۔
دونوں ملکوں کے لئے بات چیت کا پہلا ایجنڈا سرحد اور کنٹرول لائن پر ہورہی آئے دن کی گولہ باری بند کرنا ہونا چاہیے۔اس سے سرحدوں کے نزدیک رہنے والے لوگوں کو بہت مصیبتیں ملتی ہیں۔ یہاں فوجی اہلکار،عام شہریاور پشوؤں تک کی موتیں ہوتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اور مویشی بھی بلا وجہ کام آتے ہیں۔ لوگوں کے مکان برباد ہوجاتے ہیں، سکول بند پڑتے ہیں اور زندگی کی دشواریاں دو چند ہوتی ہیں۔ یہ دوزخ جیسی زندگی کسی اور سے کہاں برداشت ہوگی؟ مگر یہ سرحدی عوام بے بس ہیں ، گھر بار اور کھیت کھلیان چھوڑ کر کہاں جائیں ۔ اس لئے ان ناروا دوطرفہ کارروائیوں کو روکئے۔
اس صورت کا حل’’ مناسب جواب‘ ‘یا بدلا لینا نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلے کی باریکیوں پر بھی بات چیت ہونی چاہیے۔ اچھا ہو کہ ایک ایک چوکی پر ہاٹ لائن رابطے کا بندوبست ہو۔ جب ایک طرف سے گولی چلے تو اس کا واجب جواب دوسری طرف سے گولی چلانا نہیں ٹیلیفون پریہ سوال ہو کہ گولی کیوں چلائی ہے؟ کیا بات ہے؟ کام بہت بہت مشکل ہے لیکن ارادہ پختہ ہو تو ناممکن نہیں۔ صاف بات ہے کہ اگر دونوں ملک سرحد پر روز مرہ گولہ باری نہیں روک سکتے تو وہ کوئی بھی ودسرا مسئلہ نہیں حل کر سکتے۔
مذاکرات کادوسرا یہ خاص نکتہ آپ کو معمولی لگے گا لیکن اس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ واگہہ بارڈر کے روزانہ پرچم رسم کو دوستانہ بنایا جائے یا کم سے کم نارمل کیا جائے۔دونوں طرف سے زور زور سے پیر مارنے اور ایک دوسرے کو جوتے دکھانے کی روایت بند کی جائے۔ بہت اچھا ہو کہ دونوں طرف کے حفا ظتی دستے مشترکہ پریڈ کریں، ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں، پھر لوگ بھی ایک دوسرے کی طرفwish کرنے والے ہاتھ ہلائیں۔ کتنا اچھا ہو کہ تقریب میں حاضرین کے ہاتھ میںدونوں ملکوں کے جھنڈے ہوں۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگ سکتی ہے لیکن یہ نہ مشکل ہے اور نہ ہی نا ممکن کہ واگہہ پریڈ کے وقت لاہور کے کباب اور امرتسر کے قلچوں کے سٹال لگا یا کریں۔دونوں ملکوں کے پنجابی فن کار اپنے گیت گانے پیش کریں۔اس سے مسائل کے حل کی شروعات مخلصانہ انداز میں ہوگی ۔ بہر صورت خود ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ لاہور آنا جانا بنا رہے گا لیکن جتنا آنا جانا پہلے تھا، وہ بھی بند کروا چھوڑا گیاہے۔ ہر سردی اور گرمی میں چنڈی گڑھ جیسے شہروں میں پاکستانی کپڑوں کی نمائش لگتی تھی، اب نہیں لگتی۔اب پاکستان کی کبڈی ٹیمیں مشرقی پنجاب کی رونق نہیں بن رہی ہیں۔ دلّی کے کتاب میلے میں بھی پاکستان کے بک سٹال دکھائی نہیں دیتے۔ ابھی حال ہی میں دلّی میں چلے بن الاقوامی پکوان میلے میں پاکستان کے باورچی ماہرین کو ویزے نہیں دئے گئے۔
آخر دونوں ملکوں کے شہریوں کو کھلے ویزے کیوں نہیں ملتے؟ آر پار ٹورسٹ ویزے کیوں نہیں ملتے؟ کیا حرج ہے اگر روزانہ امر تسر اور لاہور بسوں کے چار چار چکر امرتسر کیوں نہ لگیں؟ کیوں راجستھان اور سندھ کے بیچ بسیں نہ چلیں؟ کیوں سرینگر اور مظفر آباد کے بیچ روزانہ بسیں نہ چلیں؟اس میں کیا حرج ہے؟ جموں کے لوگ میر پور کا ڈیم دیکھنے کیوںنہیں جا سکتے؟ اور میر پور کے لوگ ڈل جھیل کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ وہ سرینگر کے سنڈے بازار میں کیوں خریدداری نہیں کر سکتے؟سنا ہے کہ کشمیر میں ایک ندی ہے جو ریاست کو دو ملکوں کے درمیان میں تقسیم کرتی ہے۔ لوگ باگ اسی ندی کے دو نہ ملنے والے کناروں پر جمع ہو کر ایک دوسرے کے رشتے داروں کو پہچان کر ہاتھ ہلاتے ہیں، آوازیں لگاتے ہیں، روتے ہیں اور اکثر چیختے ہیں مگر پانی کے شور میں کانونں پڑی آوز سنائی نہیں دیتی۔شام ہوتے ہی پولیس ان کو وہاں سے ہٹا دیتی ہے۔ اگر وہاں پُل بن جائے، مشترکہ پارک بن جائے، بارش سے بچنے کے لئے کوئی شیڈ بن جائے تو کون سے آسمان ٹوٹ پڑیں گے ؟ لوگ ایک دوسرے کے گلے ملیں تو حکومتوں کا کیا جاتا ہے؟ یہ سب جب تک ہو تارہے گا حالات سدھریں گے نہ پیچیدہ مسلے حل ہو جائیں گے۔ اس لئے دونوں دیشوں کو امن اور تصفیہ کی نئی شروعات کر ناہوگی۔ کچھ بھی ہو راستے منزل سے شروع نہیںہوتے، وہاں سے شروع ہوتے ہیں جہاں ہم کھڑے ہوں، اور افسوس ہم اس وقت آر پارامن دشمنوں کی نفرتوں ڈھیر پر کھڑے ہیں۔
رابطہ 98783 75903