حافظ خورشید عالم
جموں وکشمیر کے معروف ومشہور مدبر ومفکر، دانشور، ماہر تعلیم وماہر اقتصادیات پروفیسر عبدالواحد قریشی ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے کشمیر میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں نمایاں کردارا دا کیا۔پروفیسر قریشی کشمیر یونیورسٹی سرینگر ،سنٹرل یونیورسٹی جموں وکشمیر جو بعد میں سنٹرل یونیورسٹی کشمیربنی، کے وائس چانسلرکے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے ۔انہوں نے کشمیر میں کالج و یونیورسٹی سطح کی اعلیٰ تعلیم کو معیاری اور منظم بنانے میںقائدانہ خدمات انجام دیں۔اُن کی تعلیمی،تحقیقی اور انتظامی خدمات کا مرکز و محوردانش گاہ کشمیر رہی۔ مارچ1968ء میں شعبہ اقتصادیات کشمیر یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرتعینات ہوئے۔قبل اسکےآپ ریجنل انجینئرنگ کالج سرینگر میں عارضی طور پر چند ماہ لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔قریشی صاحب ملک کی ممتاز یونیورسٹی علی گڑھ کے گولڈ میڈلسٹ پوسٹ
گریجویٹ تھےاورکشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ پر تعینات ہونے سے قبل یونیورسٹی کے تمام تعلیمی و انتظامی عہدوں ریڈر،پروفیسر،رجسٹرار،کنٹرولر امتحانات،ڈین اکیڈمکس اورکارگزار وائس چانسلر جیسے عہدوںپر فائز رہ چکے تھے۔ کشمیر یونیورسٹی کی قیادت 2004 میں سنبھالی اور کشمیر یونیورسٹی کومعیاری تعلیمی وتحقیقی مرکز بنانے ،تعلیمی شعبوں کو متحرک ومنظم کرنے اور اساتذہ کااعتماد بحال کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔انہوں نے تدریسی و غیر تدریسی عملہ میں عزت نفس،بھروسہ اور اعتماد کی فضا پروان چڑھائی۔ان کے وائس چانسلر عہدہ پر فائز ہونے سے قبل یونیورسٹی کی فضا مکدّر ہو چکی تھی۔پروفیسر عبدالواحد قریشی نے وائس چانسلر عہدہ سنبھالنے کے بعد یونیورسٹی اساتذہ کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کی۔
اُن کے مشفقانہ و قائدانہ رویہ اور طریقہ کار نے اساتذہ پر مثبت اثرات مرتب کئے۔عملہ کے ساتھ چلنے اور ان کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ان کے طریقہ کار میں شفافیت تھی۔وہ مختلف معاملات کی فیصلہ سازی میں یونیورسٹی اساتذہ کی کو شرکت اور اُن کی آراء کو اہمیت دیتے تھے۔بلا وجہ کسی کی حوصلہ افزائی کے قائل تھے نہ ہی کسی کی حق تلفی کے روادارتھے۔وہ ذہین اور معاملہ فہم تھےاورباہمی رضاو رغبت سے معا ملات حل کرنے کے قائل تھے ۔اُن کی بارعب اور پر وقار شخصیت کے سامنے ہر ایک سر نگوں ہو جاتا تھا۔
پروفیسر قریشی نے اپنے دور اقتدار میں یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو بہتر بنایااور معیاری نظام تعلیم کو فروغ دیا۔انہوں نے مختلف شعبہ جات کو وسعت دی اور تعمیراتی کام شروع کرائے اورتعلیمی ،تدریسی و تحقیقی لحاظ سے یونیورسٹی کو اعلیٰ سطح پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔وہ 2004 سے 2008 تک کشمیریونیورسٹی اور2009 سے2014 تک سنٹرل یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر رہے۔
پروفیسر قریشی ریاستی اور ملکی سطح پر شہرت یافتہ ماہر تعلیم وماہر اقتصادیات تسلیم کئے جا چکے تھے۔انہوں نے ملک کی کئی یونیورسٹی سطح کمیٹیوں کی صدارت کی اور اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت حکومت ہند نے انہیں جواہر لال نہرو ایوارڈ فار انٹرنیشنل انڈرسٹینڈنگ کمیٹی کا ممبر بنایا،وہ تین سال تک اس کمیٹی کے ممبر رہے۔انہوں نے کشمیریونیورسٹی کے اساتذہ کے دورہ امریکہ کی بھی سربراہی کی اور ایک ماہ وہاں کے تعلیمی وتدریسی نظام کا مطالعہ و مشاہدہ کیا۔
پروفیسر عبدالواحد قریشی ایک نامورماہر اقتصادیات تھے۔درس وتدریس کے علاوہ کئی برس تک جموں وکشمیر بنک کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔وہ یونین پبلک سروس کمیشن اور پبلک سروس کمیشن کی سلیکشن کمیٹیوں کے ممبر ایڈوائزر اور چئیرمین رہے، بڑے محتاط اور زیرک شخص تھےاورحالات کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔اکتوبر 2004 میں سائوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن(سافما) کے زیر اہتمام سرحد پار سے ایک سولہ رُکنی وفدکشمیر آیا،اُس وفد نے کشمیر یونیورسٹی کے گاندھی بھون میں طلباء و اساتذہ سے تبادلہ خیال بھی کیا۔میں اُس وقت مقامی ہفت روزہ کشمیر عظمیٰ سے وابستہ تھا، اس لئے میں بھی میٹنگ حال میں داخل ہو گیا۔وائس چانسلرقریشی صاحب نے وفد کا خیر مقدم کیا،پھر سوالات وجوابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران طلباء نے گاندھی بھون کو گھیرے میںلے کر نعرہ بازی شروع کردی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وفد کے ساتھ ایک کھلا مباحثہ ہو، جس میں وہ بھی شریک ہوں۔سیکورٹی آفیسران نے وائس چانسلر سے رائے مانگی تو انہوں نے لاٹھی چارج کے بجائےطلباء کے مطالبات کو مانتے ہوئے سب کو اندر بلا لیا۔وائس چانسلر سمیت ڈیلی گیشن کے سبھی نمائندے اور طلباء کھڑے تھے۔وائس چانسلرنے طلباء کے سامنے کھڑے کھڑےتقریر کی اور انھیں یقین دلایا کہ ان کی بات سُنی جائے گی۔اس کے بعد روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے منیجنگ ایڈیٹر امتیاز عالم کی تقریر ہوئی۔پھر طلباء سے کہا گیا کہ ان میں سے چند آکر اپنی بات رکھیں۔میں میٹنگ ہال ہی سے پروفیسر قریشی کے ساتھ ہو لیا تھااور سٹیج پر اُن کے پاس کھڑا تھا۔چونکہ میں شعبہ اردو کا طالب علم بھی تھا اس لئےمیں نے ہاتھ اٹھایا اور تقریرکی،پھر طلباء کی پر جوش تقریریں ہوئیں۔اس طرح ایک بڑا ہنگامہ خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوا،طلباء مطمئن ہو کر کلاسوں میں چلے گئے، ڈیلی گیشن سےپُر امن ماحول میں دوبارہ تبادلہ خیال شروع ہوا۔
پروفیسر قریشی شریف النفس انسان تھے۔ جو بھی شخص ان سے ملنے آتا اسے ضرور وقت دیتے اوراس کی بات سن کر مناسب مشورہ بھی دیتے۔راقم پروفیسر قریشی کی خدمت میں پہلی بار1998 میں اُس وقت حاضر ہوا،جب میں بارہویں جماعت کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا اور دارالعلوم بلالیہ لال بازار میں درجہ حفظ پڑھاتا تھا۔میرا ایک مضمون اکنامکس تھا۔میرے دل میں خیال آیا کہ پروفیسر صاحب اکنامکس کے بڑے استاد ہیں، اُن سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ میں کتاب لے کر ان کی رہائش گا ہ پر چلا گیا۔انہوں نے میری بات غور سے سننے کے بعد فرمایا کہ میرے پا س وقت کی بڑی قلت ہے ،پھرپوچھا کہ کیا کوئی کتاب لائی ہے،میں نے کتاب نکالی اور انھوں نے Demand and Supply موضوع پر بڑے دلچسپ انداز میں چند نکات سمجھائے۔انہوں نے میرے قیام کے بارے میں پوچھا۔میں نے بتایا کہ بلالیہ میں پڑھاتا ہوں اور وہیں مدرسہ میں رہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ لال بازار میں پروفیسر محمد یونس کول صاحب رہتے ہیں جو اسلامیہ کالج حول کے بڑے محنتی پروفیسر ہیں،اُن کے پاس چلے جائو ،ہو سکتا ہےوہ تمہیں پڑھائیں۔ میں نے مدرسہ پہنچ کر پروفیسر کول کے بارے میں معلوم کیا تو یہ جان کر اطمینان ہوا کہ وہ مدرسہ کے قریب ہی رہتے ہیں۔دوسری صبح میںپروفیسر کول صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے جب یہ سُنا کہ پروفیسر قریشی نے بھیجا ہے تو بہت خوش ہوئے۔پروفیسر محمد یونس کول بڑی علمی شخصیت ہیں۔
انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور بغیر کسی اُجرت کے گریجویشن تک چار برس اکنامکس مضمون پڑھایا۔ میں نے گریجویشن شعبہ فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی سے مکمل کی۔
اُس وقت رزلٹ گیزٹ عام طور پر دستیاب نہیں ہوتا تھا بلکہ یونیورسٹی جاکر اپنے نتائج دیکھنے پڑتے تھے۔لیکن مجھے یہ نتائج پروفیسر قریشی صاحب کے گھر فون کر کے حاصل ہوجاتے تھے۔ 2003 میںشعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوگیا۔اس کے بعد جب میں نے سلیٹ اور نیٹ امتحان پاس کئے توپروفیسر قریشی نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ماشاء اللہ آپ بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر قریشی دینی مزاج رکھتے تھے اورصوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔انہوں نے 2002 میں فریضہ حج ادا کیا ۔وہ اپنے آباء واجداد کی دینی و تہذیبی اقدار کی امین وپاسدار تھے۔اُن کے آباء واجداد نے علاقہ کرناہ میںدین کی دعوت و تبلیغ اور سماجی و اصلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ا ن کے خاندان میں ایک عہدہ قاضی بھی تھا ۔اس عہدہ پر فائز قاضی صاحب شرعی مسائل میں علاقہ کرناہ کے لوگوں کی رہبری و رہنمائی کرتےتھے۔اس وقت قاضی حمید الدین اس عہدہ پر فائز ہیں جو پروفیسر صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں اور محکمہ تعلیم سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں،اُن کی زندگی نہایت سادگی سے گزری،وہ نمود ونمائش اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کے قائل نہیں تھے۔ان کی جڑیں اپنی جائے پیدائش سےپیوست تھیں۔صدر بل سرینگر میں ان کی رہائش اپنے تمام قریبی ودور کے رشتہ داروں کے لیےایک سرائے کی حیثیت رکھتی تھی۔ خاندانی وگھریلو معاملات ان کی رہائش گاہ پرحل ہوتے تھے۔اپنی جنم بھومی سے انھیں ہمیشہ لگائو رہا۔ 17 نومبر 2024 ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا سرینگر میں انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق جسد خاکی کنڈی کرناہ کے آبائی قبرستان میںپیوند خاک ہوا۔
پروفیسر عبدالواحد قریشی علاقہ کرناہ کی ایک سربر آوردہ شخصیت تھے جن کی زندگی نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی رہے گی۔انہوں نے زندگی میں جونمایاں کامیابیاں حاصل کیں ،اپنی محنت اورلگن سے حاصل کیں۔ وہ10 دسمبر 1946 ءکو کنڈی کرناہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب محکمہ تعلیم میں ایک نامور استاد تھے۔ پروفیسر قریشی نے میٹرک امتحان شیر کشمیر ہائی سکول کنڈی کرناہ سے پاس کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے1961میں ایس پی کالج سرینگر میں پی یو سی میں داخلہ لیا۔
1965 میںگریجویشن کے بعد اپنے اکنامکس کے استادپروفیسر محمد عبداللہ کے مشورہ اور اصرارپر علی گڑھ چلے گئے اور ایم اے اکنامکس میں داخلہ لیا۔پروفیسر قریشی کے ذاتی جوہر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں نکھرےاور ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی، جہاں انہوں نے ملک کے معروف اساتذہ سے استفادہ حاصل کیا۔ یونیورسٹی کے علمی ماحول نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی،انہوں نےسال اوّل کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ انہیں یونیورسٹی کے نظم کے مطابق آفتاب ہوسٹل میںالگ کمرہ دیا گیا تاکہ یکسوئی سے اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔انہوں نے دوسرے سال بھی اول پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعدپروفیسر قریشی نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھااور جس عہدہ کی تمنا کی ،وہ ان کا مقدر بنا۔دراصل تعلیمی و تحقیقی میدان میںکامیابی کا کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں بلکہ محنت،ذوق وشوق اور معیاری تعلیم، وسیع مطالعہ انسان کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے۔
رابطہ۔8491096996