ہلال بخاری
ایک رات دیر گئے تک مجھے نیند نہیں آئی۔ دل میں بہت غبار تھا۔ اپنی عمر رفتہ کی وجہ سے دل شکستہ تھا کہ کچھ خاص حاصل نہ کر پایا میں۔
اب جبکہ چالیس سال کا ہونے والا ہوں تو لگتا ہے کہ اب پچھتاوے کے سوا کچھ اور تدبیر بن نہیں سکتی۔
جو کارنامے نوجوانی میں انجام دے سکتا تھا اب شاید انکے بارے میں سوچنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا۔
غرض دیر تک یوں ہی دل کا خون جلاتا رہا اور ایک لمبی آہ کے ساتھ آخرکار اسی نام پاک کا سہارا لیا جو دلوں کو قرار فراہم کرتا ہے،
” یا الٰہی !”
قرار آیا تو نیند آئی۔ ایک نورانی چہرے والے بزرگ کو خواب میں دیکھا جو ایک دلفریب منظر میں لالے کے ایک دلکش و دلربا باغ میں جلوہ فروز تھا۔ ایک دھیمی سی ہوا آکے لالے کے ان خوبصورت پھولوں کو آہستہ سے ہلاہلا کر ایک نایاب منظر پیش کر رہی تھی۔
اس بزرگ کی شخصیت پُر کشش تھی اور مجھے جیسے کوئی روحانی کیفیت اس کے قریب لائی۔ پھر میں بنا تحمل کے اپنے دل کا حال اسی بزرگ سے بیان کرنے لگا،
” بابا جی ، دل کا کرب بڑھتا ہی جارہا ہے کوئی سبیل نظر آتی کہ اسکا مداوا ہو۔”
بابا جی نے بڑے اطمینان سے میری طرف دیکھا اور ایک دلکش مسکراہٹ کو اپنے عمر رسیدہ ہونٹوں پر ماہرانہ انداز میں پھیلا کر جواب دیا،
” دنیا میں واقعی زندہ رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی مطابقت کو برقرار رکھیں۔”
انکی یہ بات مجھے وضاحت طلب محسوس ہوئی۔ وہ بھی اپنی دانائی کے انداز سے سمجھ گئے اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے،
“شاہین، پرندوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ جب وہ چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو اسکے پنجے اور پر بے کار ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکا جسم اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ خود اس کے لئے عذاب بن جاتاہے۔ لیکن وہ ہمت والا پرندہ جو اپنے پنجوں کو پتھروں پر مار مار کر اور اپنے بے کار پروں کو نوچ نوچ کر درد و کرب برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جو مشقت اٹھا کر زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے وہ ایک نئی زندگی جینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔”
میں یہ دانائی سے لبریز کلام اپنے ذہن و دل کے گوشوں میں جذب کرنے لگا۔ اس بزرگ نے جانے سے پہلے بڑی گرم جوشی سے میرے ہاتھ میں اپنا نورانی ہاتھ دے کر فرمایا،
” ہلال صاحب ، جو اپنی کم ہمتی کی وجہ سے اپنی سعی کو ترک کرتے ہیں وہ تو بزدل ہوتے ہیں۔ ایسے بزدل لوگ اکثر خود فریبی کے جال میں پھنس کر اسی بے مثال تحفے کو ضائع کردیتے ہیں جو اللہ نے انہیں بخشا ہوتا ہے۔ جوانی کسی عمر سے ذیادہ اس شوق کا نام ہے جو آپکو سعی کرنے کے لئے ہر وقت اکساتی رہتی ہے۔”
پھر اس نے اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے میرے ہاتھوں کو اس انداز سے دبایا کو مجھے اپنے روح کے اندر ایک حیرت انگیز حرارت کے داخلے کا احساس ہونے لگا۔ پھر فرمایا،
” ہلال صاحب ، سعی کے لئے کوشاں رہو ، سعی ہی زندگی کی اصل دلیل ہے۔”
اس بزرگ کا یہ منفرد انداز مجھے بہت ہی دلکش لگا اور میں اپنے اندر ایک خدا داد ذوق و شوق کی صلاحیت کو محسوس کرنے لگا جو کیفیت پھر اس خواب سے بیدار ہونے کے بعد بھی میرے دل میں قائم رہی۔
���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ، کشمیر