مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت

محمدشمیم احمد مصباحی
ہندوستان بھر میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے۔ مشرقی ہندوستان ہو یا مغربی، ہر خطے میں مسلمان بچوں کی زبانوں سے ’’قال اللّٰه وقال الرّسول‘‘ کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ انہی مدارس و مکاتب کا فیضان ہے کہ آج ہم آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اگر مدارس کے علما نے اپنی درس گاہوں سے نکل کر رسم شبیری نہ ادا کی ہوتی تو ہندوستان کا حال کچھ اور ہوتا۔ دینی مدرسوں کے علما و فضلا نے نہ صرف ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا بلکہ باشندگان ہند کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد بھی کی،اور وہ بچے جو غریبی کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے، اُن کے لیے بھی تعلیم کا بندوبست کیا۔ ہندوستان میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے، اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مدارس ومکاتب سے غریب مسلم طلبہ نے زیادہ استفادہ کیا، جہاں انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیاوہاں ان غریب و نادار طلبہ کے لیے کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام کیا گیا۔

مسجد اللہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللہؐ کا۔ چنانچہ ہر مومن مسجد میں اپنا سر اپنے رب کی بارگاہ میں جھُکاکر بندگی کا حق ادا کرتا ہے اور مدرسہ میں خدا کے گھر جانے اور سر جھکانے کا طریقہ سیکھتا ہے ،یہ دونوں اسلام کی شان اور اسلام کی عظمت کے نشان ہیں۔

دینی مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے۔

      مسجد نبوی شریف کے مقدس ننھے سےچبوترہ سے علوم وافکار کا جو سوتا پھوٹا تھا، پوری دنیا اب تک اس کے آبشار سے سرشار ہو رہی ہے۔ یہ مدارس و مکاتب اسی سمندر کے نہر کی بلکھاتی لہریں ہیں، اُن کی ایک الگ دنیا ہے، الگ فضا ہے، الگ شان ہے، الگ پہچان ہےاور الگ تاثیر وتاثّر ہے۔

      جب بھی انسانی آبادی بے چارگی کا شکار ہوئی ہے تو مدارس اسلامیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں قوم وملت کے حوالے کی ہیں کہ ان کے دم قدم کی برکتوں سے صحرا میں بھی پھول کھل اٹھے ،وہ چاہے امام ابو حنیفہ ہوں ، امام شافعی ہوں ، امام مالک وامام حنبل ہوں،یا شیخ عبدالقادر جیلانی ،خواجہ محی الدین چستی ہوں، یا رومی،سعدی،رازی وغزالی علیہم الرّحمہ۔

        احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں  کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِرسالت میں مسجد نبوی کے چبوترہ کے علاوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اولاد کو ضروریاتِ دین سکھلا دیاکرتے تھے ۔عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی صحابۂ کرام کیا کرتے تھے، جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا۔(حیاۃالصحابہ جلد /۱، باب النصرة) پھر عہدِ صحابہ میں حضرت عمر ؓنے اپنے دورِ خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطورِ وظیفہ مقرر کردی۔ (معلّیٰ ابن حزم جلد/ ۸ صفحہ/۱۹۵)جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید اجراءِ مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ’’ تم لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو‘‘۔( کتاب الاموال،صفحہ/۲۲۱)۔

دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں!ا۔حاکم وامیر: ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے،۲۔ مصحف: یعنی قرآن کی خریدوفروخت، ورنہ کتاب اللّٰہ کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا،۳۔ تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم ضروری ہے جو اُجرت لے، ورنہ لوگ جاہل رہ جائیں گے۔ (تربیت الاولاد فی الاسلام ،جلد/۱صفحہ/۲۹۱)

بلاشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے۔ یہی مدارس ومکاتب ہیں کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں۔ وہ طلبہ جنہیں صحیح معنوں میں بولنے تک نہ آتاتھا، مدارس نے انہیں بولنے کا شعور بخشا، چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کے گُر بتائے،اسی لیے توکسی شاعر نے کہا ہے؎

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی

یہاں کی خاک سےانساں بنائےجاتے ہیں

      مذکورہ شعر بلاشبہ مدارس کی اہمیت و افادیت اور مدارس کے مقصد قیام کو اُجاگر کر رہا ہے۔ آج سے کئی صدیاں پہلے مدارس کا قیام عمل میں آیا اور ان خرقہ پوشوں کا مقصد گلشن محمدی کو سرسبز و شاداب رکھنا تھا۔ دورِ حاضر میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد پیغامِ خداوندی و فرمان نبویؐ کو فروغ دے کر شجر اسلام کی آبیاری کرنا ہے تاکہ علوم مصطفویہ کے نور سے ہر گھر روشن و منور ہوجائے۔ انہی مدارس ومکاتب سے انسان سلیقۂ زندگی پاتا ہے۔قوم وملّت کے ایمان وعقائد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگرمدارس و مکاتب نہ ہوں تو کما حقہ جلالِ کبریائی کا غلغلہ نہ ہو، مدارس کا وجود نہ ہو تو حق و باطل میں امتیاز مشکل ہے۔ یہیں سے انسان تاریکی سے نکل کر روشنی پاتا ہے، جب انسانیت ہلاکت کے گڈھے میں گرنے لگتی ہے تو ان مدارس کے فارغین و علما ،گرنے والوں کو ہلاکت سے بچاتے اور وادی ٔ ظلمت سے نکال کر نور ِو ہدایت کی بزم گاہ میں لاکھڑاکرتے ہیں۔

مدارسِ اسلامیہ ملک میں دینی و عصری علوم کے رواج اور تعلیم اور پڑھائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں، اگر یہ مدارس و مکاتب بند ہو جائیں تو ان لاکھوں نونہالانِ ملّت کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری حکومت کے سرآ پڑے گی اور حکومت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنےمہذّب،پُرسکون اور مفید ادارے نہیں چلاسکتی ۔گویا یہ مدارس ملک میں تعلیمی شرح کے اضافہ کے ساتھ ہر سال اربوں روپیہ کا مالی فائدہ بھی کر رہے ہیں، سیاست کے کارندوں کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے۔

         ان مدارس کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لیے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے، کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لیے تنخواہ دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اوربُری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو ،قتل و غارت گری کی جگہ امن وآشتی آئے،چوری اوررشوت کا جنازہ نکالا جائے ، زنا کاری اور بدکاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رُک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ بُری کارستانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جب کہ یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں ۔مسجدوں میں، دینی جلسوں میں ،مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں ۔اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے ارباب نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لیے قابل افتخار سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف انہیں ملک و ملت کے لیے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈّہ سمجھاجانے لگا۔ صرف انہی باتوں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلا ًیہ کہ ’’ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں،ان مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کیے جاتے ہیں،ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، ان مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے،ان مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اوران مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔جب کہ حقیقت اس کےبالکل برعکس ہے یعنی ان مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلاتفریقِ مذہب وملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے، مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتا ہے ،مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے، مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے۔ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں، امن و امان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکرو بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں‘‘۔اللّٰہ تعالیٰ مدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے۔

[email protected]>