افتخاراحمدقادری
یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ یہ کسی خاص مذہب کی پابند ہوکر پروان چڑھتی ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ مذہب کو زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ زبان پر ماحول کے گرد و پیش کا اثر پڑتا ہے۔ اُردو زبان کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اُردو زبان عربی، فارسی کی زبانوں اور کچھ مقامی بولیوں کی آمیزش اور باہمی تعاون و اشتراک سے ہندوستانی ماحول میں پل بڑھ کر موجودہ رنگ و روپ میں کھلی اور نکھری ہے۔اردو زبان کی مقبولیت اور اثر پذیری کے طویل عرصے کے ارتقائی سفر میں جہاں دربارِ دبستاں، خانقاہ اور بازار کا مہتمم بالشان کردار رہا ہے وہیں مدارسِ اسلامیہ کی بھی فعال شمولیت رہی ہے۔
اردو زبان کے ارتقاء اس کی تشکیل و تحمیل اور ترویج واشاعت میں مدارسِ اسلامیہ کی پیش بہا خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُردو زبان کی ابتدائے آفرینش سے لے کر ارتقاء کی مکمل تاریخ میں مدارس کی عظیم خدمات رہی ہیں۔ خواہ اردو کی صرفی، نحوی ساخت کی بات کی جائے یا لفظیات و مصطلحات کی یا پھر مترادفات و استعارات اور تشبیہات و تلمیحات کی یہ سب انہی مدارس سے مشروط ہیں۔ زبان اُردو اور مدارسِ اسلامیہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اس کی زندہ اور عملی مثال مدارس میں ذریعۂ تعلیم اردو کا ہونا ہے۔ اس طرح دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے علاوہ اُردو زبان کو برصغیر کے کونے کونے تک پھیلانے میں بھی مدارس کا بڑا کردار رہا ہے۔ خواہ یہ مدارس شمال میں قائم ہوں یا جنوب میں مشرق میں ہوں یا مغربی ہند میں مدارس کے طلبہ کی راہ میں ملک کی جغرافیائی، لسانی اور تہذیبی حدبندیاں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ اس لیے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں جہاں کہیں بھی کوئی عالم ہوگا، وہ اُردو ضرور جانتا ہوگا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان میں بعض مدارس عالمی شہرت یافتہ ہیں، ان مدارس میں نہ صرف مختلف ہندوستانی طلبہ ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ غیر ممالک کے طلباء بھی علم دین کے حصول کے لیے یہاں قیام پذیر ہوتے ہیں جو برسوں ہندوستانی طلبہ کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں۔ چونکہ ان غیر ملکی طلباء کو بھی اردو زبان میں ہی اسباق حاصل کرنے ہوتے ہیں ،اس لیے یہ بھی جلد از جلد اردو زبان سیکھ لیتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان کے باہر بھی اردو زبان کو تعارف کرانے میں انہیں مدارسِ اسلامیہ کا کردار رہا ہےبلکہ یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُردو زبان انہی مدارس کی وجہ سے زندہ ہے۔ ہندوستان میں اگر مدارس نہ ہوتے تو اردو زبان کا دائرہ نہایت ہی سکڑا اور سمٹا ہوتا۔ ملک کے جن علاقوں میں پرائمری اسکول تک موجود نہیں، وہاں کوئی نہ کوئی مدرسہ ضرور ہوتا ہے۔ جہاں اُردو زبان پچھلی ڈیڑھ صدی سے اظہار کی زبان بنی ہوئی ہے۔ مذہب کی تبلیغ واشاعت اور اسلامی علوم کی تعلیم کے نام پر جن مراکز کا وجود عمل میں آیا تھا، عملی طور پر انہیں مراکز نے اُردو زبان کو اپنے جلو میں سمیٹے رکھا ہے۔ جہاں اُردو زبان کے تحفظ اور اس کے ادبی ارتقاء کے طبقاتی مراحل پر گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی اردو کو نصاب میں شامل کر کے اس کی اشاعت کا غلغلہ بلند کیا جاتاہے۔ لیکن ابتدا سے لے کر انتہاء تک نحو، صرف، بلاغت، فلسفہ، منطق، عقائد، کلام، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، اصول حدیث، قرآن وحدیث کے افہام وتفہیم کے لئے وہاں اردو زبان ہی کو ذریعہ اظہار بنایا جاتا ہے۔ مدارس کے تعلیم یافتہ اسی زبان میں مراسلت کرتے ہیں، درخواستیں دیتے ہیں، اور اسی زبان میںمقالہ جاتی تحریریں، تقریری ،بزمیں، منعقد کی جاتی ہیں۔ برصغیر کے طول وعرض میں روز مرہ اسی زبان میں عظیم الشان کانفرنسیں اور جلسے ہوتے ہیں، سمینار کرائے جاتے ہیں۔ ان مدارس کے فارغین اسی زبان میں مختلف موضوعات پر مضامین اور مقالے تحریر کرتے ہیں، مدارس سے مذہبی رسائل و جرائد اسی زبان میں نکلتے ہیں۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مدرسے کو اُردو زبان کے فروغ دینے والے ادارے کی حیثیت سے لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ضرورت اس بات ہے کہ ہندوستان میں تعلیم کے اس سب سے بڑے نیٹ ورک کو اُردو زبان کے حوالے سے توانا کیا جائے اور تعلیمی و لسانی سطح پر اس خاموش خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے جذبے کو مستحکم کیا جائے۔