بی جے پی ،پی ڈی پی اتحاد کے لئے ساڑھے تین برس کی مدت کو بھی طویل عرصہ مانا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ’’اتحاد‘‘ میں لاجک یعنی عقلی ومنطقی دلائل کم تھے اور اقتدار کی ہوس اور حاکمیت کا شوق بہت زیادہ کارفرما تھا۔ یہ کوئی دیوانے کی بڑ یا افسانوی بات نہیں بلکہ تاریخ کی ایک ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان مدتِ مدید سے کانگریس کے زیر سایہ حکومت کے اخلاقی دیو الیہ پن ، بدعنوانیوں ، گراں بازاری، اقرباء پروری ، بے روزگاری، سماجی بحرانوںاور ایسی کئی دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایک سیاسی متبادل کی شدید ضرورت محسو س کر رہا تھا۔ بی جے پی نے بروقت آنکھیں کھولے دیکھا کہ عوام کو بڑی بے تابی کے ساتھ ایک نئے سیاسی متبادل کی تلاش ہے،اس نے موقع، موسم اور دستور غنیمت جان کر خود کو عوام میں مسیحا کے طور متعارف کرایا،انہیں’’ اچھے دنوں‘‘ کے سبز باغ دکھا ئے ،انہیں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘کے نام پر خیالی جنتوں کی سیر کرائی، انہیںکالا دھن دیار غیر سے واپس لا کر ہر شہری کے بنک کھاتے میں جمع کرنے کے سنہرے سپنے دکھائے اور انہی گورکھ دھندوں سے سیاسی لائم لائٹ میں آگئی اور کانگریس کا پتہ کاٹ دیا اور فی زماننا یہ بھگوا پارٹی ہر لحاظ سے ایک بہت ہی طاقتور اور بااقتدار پارٹی کے طور چھائی ہوئی ہے۔ اسی امر واقع سے مرعوب ہوکر مفتی سید نے بھاجپا کے مشن کشمیر کو اپنی کرسی کی شرط پر سوئیکارا اور پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت بناڈالی باوجودیکہ اول الذکر جماعت نے کشمیر میں انتخابی مہم اس نعرے کے گرد چلائی کہ ریاست میں بی جے پی کو روکنے کے لئے پی ڈی پی کوووٹ کر نا امر مجبوری ہے ۔ ساڑھے تین سال تک لشٹم پشٹم بھاگمتی کا یہ کنبہ چلتا رہا ، بالآخر بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حمایت واپس لے کر اپنا حساب چگتا کر دیا ۔
تاریخ کا ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ طاقت ور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے لئے خود ایسے ایسے نئے قوانین اور اقدار وضع کرلیتا ہے جو اس کی منشا ء اور اس کے مفادات وضروریات کی نگرانی کر تے ر ہیں ۔اس حوالے سے مخلوط حکومت کی ساڑھے تین سالہ کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ روزاول سے بی جے پی کا ایجنڈاہی اس حکومت پر چھایا رہا،اسی کی مرضی سکہ ٔ رائج الوقت بنی رہی ، اس کی ہاں اور ناں کے سامنے پی ڈی پی کو سر تسلیم خم کر ناپڑا ، اسی کی جی حضوری میں ریاستی انتظامیہ کے تمام کل پُرزے استعمال ہوئے اور وقت آنے پر بی جے پی کا اس مصنوعی اتحاد سے ناطہ توڑنا بھی اسی کی چاہت اور قوت کا آئینہ دار بنا ۔ اب پی ڈی پی اپنا تختہ پلٹائے جانے کے ضمن میں کیا تاویلات، توضیحات اور تشریحات سامنے لائے ، ان کا کوئی اعتبار نہیںاور نہ اس کے عذر ہائے لنگ کا کوئی خریدار ہو گا ۔ اب بی جے پی صدر امت شاہ ریاست کے حوالے سے جو نئی سیاسی موشگافیاں کرر ہے ہیں انہیں ایک نظر دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں۔ وہ جموں میں شیاما پرساد مکھر جی کی یاد منانے آئے توسٹیج پر تین تیکھی باتیں محبوبہ مفتی کو سنانے میں کوئی پس وپیش نہ کیا : (۱) سابق حکومت نے جموں اور لداخ کی ترقی میں دانستہ طور تساہل برتا (۲)مفتی سید کے ساتھ ایجنڈا آف الائینس کو خاطر میں نہیں لایا گیا (۳)وادیٔ کشمیر میں عسکریت کو فروغ ملا ہے ۔یہ تین باتیں بڑی بے تکلفی کے ساتھپی ڈی پی کے سر بم شیل کی صورت میں ڈراپ کر کے انہوں نے میڈیا کوبڑے زور و شور کے ساتھ انہیںاُ چھالنے کا خوب موقع دیا ۔ محبوبہ مفتی نے امیت شاہ کی نیم دلانہ تردید میں صرف اتنا کہا کہ بی جے پی کے وزراء پھر حکومت میں کیا کر رہے تھے ؟ سچ یہ ہے کہ پہلا الزام کہ جموں کو نظر انداز کیا گیا ، اس کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ سرکاری اعداد و شمار اس فسانہ طرازی کے بالکل اُلٹ میں ہیں اور ان سے یہ بات ا ظہر من الشمس ہوتی ہے کہ مخلوط حکومت کے اس پورے دور میں جموں و لداخ نے بجٹ میں لائنز شئیر پایا جب کہ تمام ترقیاتی پروجیکٹوں اور تعمیراتی امور میں وادی صدیوں پیچھے رہ گئی ۔ دوسری یہ چوٹ کہ ایجنڈا آف الائنس کو پس پشت ڈالاگیا تو اس پر التا چور کوتوال کو ڈانٹے کا محاورہ صادق آتا ہے ۔ امیت شاہ اینڈ کمپنی نے اس کا غذی پیرہن والے ایجنڈے کا حلیہ کوئی شور شرابہ کئے بغیر اسی طرح بگاڑ کے رکھ دیا جیسے کشمیر سے متعلق ایسی دوسری آئینی شقوںا ور دستاویزات کا دلی نے کفن دفن کیا ۔ ایجنڈا آف الائنس میں پاور پروجیکٹوں کی واپسی ، حریت اور پاکستان سے امن مذاکرات ، افسپا کے خاتمے، دفعہ ۳۷۰ کی حفاظت جیسے سامان ِ شوق پر’’ دو طرفہ اتفاق ‘‘بتایا جاتا تھا لیکن عملی حقیت یہ ہے کہ آج امیت شاہ جس ایجنڈاآف الائنس کی بات کرتے ہیں وہ ساڑھے تین برس کے دوران کسی بھی مقتدر شخص کے لب پر بھولے سے بھی نہ آیا ، چہ جائیکہ اس کی عمل آوری کا وہم وگمان کسی دل جلے کو لاحق ہو تا ! تیسری چوٹ محبوبہ مفتی کی حکومت پر یہ کیا گیا کہ انہوں نے ملی ٹینسی کا خاتمہ نہ کیا بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ آٹھ لاکھ پیشہ ور افواج ،سی آر پی ایف ، پولیس اور دوسری درجنوں خفیہ اداروں کے باوجود کشمیر میں عسکریت پر قابو نہ پایا جاسکا ۔اس کا سارا ملبہ سابقہ چیف منسٹر پر ڈالنا بے تکی بات ہے ، جب کہ اس سارے گیم میں ان کا زیادہ سے عسکریوں اور اسلام آباد کے خلاف تیز طرار بیانات دینے ، مارے گئے وردی پوشوں کے تابوتوں پر گلباری کر نے اور یونیفائیڈ کمانڈ کونسل کے فوٹو سیشن میں شامل رہنے سے زیادہ کوئی رول نہیں تھا ۔
محبوبہ مفتی کرسی کے چکر میں بنے زیر بحث موقع پرستانہ سیاسی اتحاد میں شروع دن سے ہی چیف منسٹری کی سٹیرنگ پر ضرور دِ کھتی تھیں لیکن یہ گاری ریمورٹ کنڑول پر کہیں اور سے چلائی جارہی تھی ، لیکن حکومت کی تمام ’’ناکامیوں‘‘ پراصل ڈرائیورکی خبر لینے کی بجائے سارا ملبہ پی ڈی پی پہ ڈال کر کوشش یہ ہورہی ہے کہ ا ول بی جے پی کی شبیہ قوم پرستی کے لئے بلیدانی فورس کے طور اُبھاری جائے،دوم اس ملبے تلے پی ڈی پی اتنی دبی رہے کہ ا س کا پھر سے سراٹھانا بعیداز امکان ہو ۔ آئندہ چند ماہ بعد انتخابی سود وزیاں کے تعلق سے بی جے پی کے سیاسی پنڈت کشمیر مدعے کو کیا رُخ دے رہے ہیں اور کس گیم پلان پہ عمل درآمد کر رہے ہیں ، پی ڈی پی کی حمایت الل ٹپ واپس لینے سے اس کی ابتدائی شکل سمجھ میں آسکتی ہے۔ آثار و قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصفہ عصمت دری اور قتل کیس کے ناقابل معافی جرم سے سیاسی فائدہ نچوڑنے کی غرض سے بھی اس نامراد اتحاد کو توڑا گیا تاکہ جموں کے ہندوتو ووٹروں کے لئے بہلاوے کا سامان ہو اور وہ بدستوربھاجپا سے جڑے رہیں ۔ اس المیہ کے دوران دو سینئروزیروں کا کھلے عام ہندو منچ کے جلوسوں میں شمولیت کرکے زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں آگے آنا ، حالات کے دباؤ میں محبوبہ جی کا سیدھے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے دربار میں پہنچنا، تصدق مفتی کا یہ بیان کہ’’ پی ڈی پی ، بی جے پی کے گناہوں میں شریک ہے ، یہ سب چیزیں اشارے دے رہی تھیں کہ مخلوط حکومت کا مستقبل مخدوش ہے مگر محبوبہ جی نوشتہ ٔ دیوار نہ پڑھ سکیں اور اس وقت بیدار ہوئیں جن انہیں دلی سے تختہ پلٹنے کی اطلاع ملی۔ اگر وقت پر پی ڈی پی نے سیاسی بصیرت وتدبر کا مظاہرہ کر کے عارضی اقتدار کو لات ماردی ہوتی تو شاید وہ کشمیر میں کسی کو اپنا منہ دکھا نے کے قابل رہتی لیکن کرسی کے مزے نے اسے اتنا غافل کر دیا کہ جب تک بلا پاؤں کے نیچے نہ آئی ،اسے پتہ نہیں چلا ۔ آج کی تاریخ میں پی ڈی پی ایک منتشر ریوڑ ہے اور تادم تحریر اس کے تین ممبران اسمبلی پارٹی سے بغاوت کا جھنڈا بلند کر چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پارٹی کی ڈراکیولائی امیج شاید ہی عوامی حافظے میں دھندلی پڑے گی ۔ عوام الناس پچھلے ساڑھے تین برس میں اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کی ذمہ داری سیدھے اسی پر ڈال ر ہے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی نے کھٹوعہ ٹریجڈی کے نازک وقتوں کا صحیح ادراک کرکے چند دنوں کے لئے اپنے دو وزرا ء کو سائیڈ لائن کردیا کیونکہ بی جے پی نہیں چاہتی تھی کہ اس معاملے پر محبوبہ مفتی اقتدار سے الگ ہوکرکشمیری عوام میں ’’شہادت ‘‘ کا درجہ پائیں ۔ بی جے پی نے اپنا فیصلہ اخفاء کے ہزار پردوں میں چھپائے رکھا تا کہ پی ڈی پی کو اسی طرح سوتے میں پکڑ اجائے جیسے اس نے غلام نبی آزاد کی سر کار کی حمایت واپس لے کر ان کی حکومت ا س وقت گرائی تھی جب لوہا گرم تھا ۔ مفتی سید نے اندرا گاندھی کے کہنے پر ایکارڈ کے چند ماہ بعد ہی شیخ عبداللہ کی حمایت واپس لینے کا پلان ترتیب دیا تھا مگر شیخ نے بروقت اسے بھانپ کر گورنر سے اسمبلی توڑنے کی سفارش کر کے مفتی کی حسرت کو باور آور نہ ہونے دیا ۔
ایک سوال یہ بھی گردش میں ہے کہ آخر بی جے پی نے مفتی سرکار سے علیحدگی کیوں اختیار جب کہ اتحادی سرکار میں محبوبہ جی علامتی کردار سے زیادہ نہ تھیں اور حکومت کی تاریں کہیں اور سے ہلائی جارہی تھیں۔ اس حکومت میں کشمیر ی وزراء اور چیف منسٹر شو کیس میں رکھے ہوئے عجوبے تھے جنہیں روز دیکھنے کے لئے عوام کی بھیڑتوجمع ہوتی تھی لیکن ان کے احکامات ’’ حکم نواب تا در نواب‘‘ جیسی اہمیت رکھتے تھے۔ اصل طاقت کا منبع وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی ذات میں مرکوز تھا ۔ اس دوران پی ڈ ی پی وزراء کو اپنے ہونے اور نہ ہونے میں شاید بہت ہی کم فرق محسوس ہوتا رہا لیکن شاہانہ کر وفر اور مادی فوائد کوسینے سے لگاکر وہ ہر چیز سہا کرتے ۔ا ُدھریہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ بی جے پی سرکار مرکزی میںاپنی مایوس کن کارکردگی کے سبب اپنی چمک دمک پہلے ہی کھوچکی ہے ۔ بعینہٖ زعفرانی پارٹی نے جموں کو بھی مایوسیاں ہی دی ہیں جس کی بناپر اس کا گراف بہت نیچے آگیا ہے ۔اور یہ بات آنے والے پارلیمانی الیکشن میں بھاجپا کے لئے زبردست ہزیمت کا باعث بھی بن سکتی ہے کیونکہ ہندوتوا کا جنون اگر چہ ابھی غالب ہی نظر آتا ہے لیکن ، روٹی ، کپڑا، مکان ، مہنگائی اور بے ورزگاری نے اس جنون کو بنیادی ضرورتوں کے سامنے دبا دیاہے کیونکہ پاپی پیٹ کے روبرو سارے جنون وقت گزرتے خود بخود ماند پڑ جاتے ہیں۔ بی جے پی اس گھمبیر صورت حال سے بہت پریشان ہے اور سمجھتی ہے کہ تعمیر و ترقی ، روٹی، کپڑا اور مکان کے حوالے سے اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ، یہ زیادہ سے زیادہ ہندوتوا کے پہلو سے مسلم اور دلت اقلیتوں پر ریکارڈ توڑ مظالم ، ہجومی قتل کے سنگین جرائم ، گئو رکھشا اور لو جہاد کے ناموں پر ہوئے قتل ِ ناحق اور دوسری متشددانہ پالیسیوں اور غنڈہ گردیوں جیسے کارناموں پر اترا سکتی ہے لیکن ان چیزوں کے خریدار ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹ رہے ہیں ۔اسی طرح کشمیر میں خون خرابہ، مار دھاڈ، بستی بستی اور قریہ قریہ لہو کے دریا بہانے کی کارروائیوں پر بی جے پی گھٹیا ذہن اور نیچ فطرت عوام کے مسلم دشمنانہ رحجانات کی تسکین سے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اقوام متحدہ میں پہلی بار کشمیر میں بشری حقوق کی پامالیوں پر جو رپورٹ پیش ہوئی اس نے دلی کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ اس لئے بی جے پی کے پاس اس وقت کوئی اور چیز دکھانے کو نہیں سوائے اس کے ہندو تو کارڈ ، پاکستان کے تئیں منافرت اور کشمیر کی ردِ عسکریت کا وہی آزمودہ کھیل کھیلے جس کی ابتداء پریوارنے پی ڈی پی سے بیک جنبش قلم ناطہ توڑ کر کیا ۔ اس کے پاس ایک اور آپشن ہے جورڑتوڑ سے نئے کمزوراتحاد بنا نے کا ، ہارس ٹر یڈنگ یعنی ممبران اسمبلی کی خرید وفروخت کر نے کااور اسی طرح کی دوسری رُسواکن ضمیر فروشیوں کا گورکھ دھندا چلانے کا ۔اس نے وادی کشمیر میں درپردہ یہ کام شروع بھی کیاہے،اب اس کی چال میں کون کون آکر بہلتا پھسلتا ہے وہ آگے معلوم ہوگا ۔ معطل شدہ ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے پچیس ممبر ان ہیں اور پی ڈی پی کے اٹھائیس لیکن ان میں سے فی الحال تین پارٹی سے فرنٹ ہیں ۔ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ پی ڈی پی کے چھ سے آٹھ تک ممبران اسمبلی کی بی جے پی سے پہلے سے ہی سانٹھ گانٹھ موجود ہے ۔ اس لئے قیاس یہ لگائے جارہے ہیں کہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کو حاشیہ پر رکھ کر حکومت سازی کی کوئی نہ کوئی سبیل ممکن بنائی جارہی ہے جس کے لئے بتایا جاتا ہے کہ گراؤنڈ ورک بھی شروع ہوچکا ہے ۔اس تناظر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کااسمبلی توڑے جانے کا مسلسل مطالبہ کر نا خالی از معنی نہیں۔ باوجود کہ ریاست میں ایک سخت گیر انٹی ڈیفیکشن لاء بھی موجود ہے جو دل بدلی پر پوری سختی کے ساتھ روک لگا تا ہے لیکن اس قانون کے باوجود کشمیر کی سیاسی تاریخ کا مسلمہ بتارہاہے کہ دلی دربار کی مرضی اور کشمیر مشن کے سامنے کشمیر کے آئین وقانون، سیاسی اخلاقیات، فہم وفراست اور دوراندیشی کو پرکاہ کی بھی حیثیت حاصل نہیں۔اس لئے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ یہاںکا سیاسی موسم اتناunpredictible ہے کہ چشم فلک یہ نظارہ بھی دیکھ سکتی ہے کہ جسے آج گندی نالی کا کیڑا سمجھ کر مردود ٹھہرایا جاتاہے ، وہی کل کلاں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاقرار ہونے کا درجہ پائے ۔ اس لئے اہل کشمیر مستقبل قریب میں ہر ڈرامائی چیز دیکھنے کے لئے ذہناً تیار رہیں۔
9419514537