کشمیرکے سیاسی افق پر ایک بڑا تغیر حال ہی میںاس وقت ہوا جب پی ڈی پی۔ بھاجپا پر مشتمل مخلوط حکومت یکایک گرگئی ،اسی کے ساتھ ریاستی آئین کی دفعہ ۹۲؍ کے تحت ۲۰ جون ۲۰۱۸ء کو گورنر این این ووہرا نے حکومت کی زمام ِ کار سنبھالی۔ یہ چوتھی مرتبہ ہے جب گورنر این این ووہرا حکومت سنبھال رہے ہیں۔آج تک کل ملا کر آٹھ مرتبہ کشمیر میں گورنر راج نافذکیاگیا ہے ۔ کشمیر ہمیشہ سیاسی زلزلوں کی زد میںرہا ہے لیکن تازہ سیاسی زلزلہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے گھٹ بندھن سے بنی مخلوط حکومت اوائل سے ہی ڈگمگارہی تھی مگر جیسے تیسے اس نے قریبا ً ساڑھے تین سال تک کا م کاج چلایا۔پی ڈی پی کا بی جے پی سے مل کر مخلوط سرکار بنانا اس علاقائی جماعت کی ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کو اسمبلی کے جوالیکشن نتائج سامنے آئے ،اُن کی رُو سے ۸۷؍ نشستوں والے ایوان میں پی ڈی پی نے ۲۸؍ بی جے پی نے ۲۵؍ نیشنل کانفرنس نے ۱۵ ؍ گانگریس نے ۱۲؍ اور دیگر پارٹیوں نے ۷؍ نشستوں پر جیت درج کرائی۔ایسے میں ریاست میں مخلوط سرکار کا بننا ہی مقدر تھا ۔
بعض لوگوں کا قیاس تھا کہ پی ڈی پی، گانگریس اور نیشنل کانفرنس سے مل کر بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ملی جلی حکومت بنائے گی ۔ پی ڈی پی نے بھی لوگوں سے ووٹ مانگتے وقت بار بار دہرایا تھا کہ کشمیر دشمن بی جے پی کو کشمیر سے آوٹ کیا جائے، یا یوں کہیں کہ کشمیریوں کو بی جے پی کے بھوت سے ڈرا کر پی ڈی پی نے رائے دہندگان سے منڈیٹ مانگا ۔بظاہر یہ ممکن تھا کہ پی ڈی پی یا کوئی دوسری کشمیرcentric جماعت بی جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط سرکار بنائے مگر پی ڈی پی نے تاریخی حقائق کی اَن دیکھی کر کے موقع پرستی کا ثبوت پیش کر نے میں کوئی پس وپیش نہ کیا ۔ البتہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر اس پارٹی نے کشمیر یوں کو ایجنڈا آف الائنس کا چکمہ دینے کی نیم حکیم سیاست چلائی۔
بالآخریکم مارچ ۲۰۱۵ء کو مفتی سعید نے وزیر اعظم ہند مودی سے سیاسی ناطہ جوڑ کر پی ڈی پی۔ بی جے پی حکومت کا چمتکار دکھایا۔ اس قدام سے شروع دن سے پی ڈی پی کی عوامی ساکھ پر کافی اثر پڑا لیکن کشمیری عوام کو بہلانے کے لئے پی ڈی پی نے یہ جُل دیا کہ مخلوط سرکار دفعہ ۳۷۰ کو بچائے گی، افسپا کو واپس کالعدم کرائے گی ، پاور پروجیکٹوں کو واپس لائے گی ، حریت اور پاکستان سے بات چیت کا آغاز کرائے گی، معاشی ترقی کی نئی منزلیں طے کرائے گی وغیرہ وغیرہ مگر یہ سارے وعدے خواب و سراب ثابت ہوئے ۔جب مفتی سعید کا دہلی میں۷ جنوری ۲۰۱۶ء کو انتقال ہواتو ایک سیاسی تعطل پیدا ہوا، اس وجہ سے ۸؍ جنوری ۲۰۱۶ء کو گورنر راج نافذ ہوالیکن ۲۲ ؍مارچ کو محبوبہ مفتی دہلی میں مودی سے ملیں اور ۴؍ اپریل کو انہوں نے ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیا۔ اس کے اگلے ہی روز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سرینگر میں مقامی اور غیر مقامی طلباء کے بیچ کرکٹ میچ پر اَن بن ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک سیاسی مسٔلہ بن کر وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے گلے پڑگئی ۔اس کے معاً بعد ہندوارہ میں فورسز کے ہاتھوں ۵؍ شہری ہلاکتیں ہوئیں جس نے محبوبہ مفتی کی کمزور سیاسی پوزیشن کو مزید واضح کیا۔۸ ؍جولائی ۲۰۱۶ء کو حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کے جان بحق ہونے سے پورے کشمیر میں آگ لگ گئی، لوگ مرحوم کا سوگ منانے اور صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے وادی کے طول وعرض میں سڑکوں پر امڈ آئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سی آرپی اورپولیس نے احتجاجی مظاہرین اور سوگواروں کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایک جانب سو کے قریب کشمیری مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں کی بصارت پیلٹ سے زائل ہوکر رہ گئی اور دوسری جانب عوامی ایجی ٹیشن چھڑ گئی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک کشمیر میں دوطرفہ عسکری کارراوئیاں معمول کا حصہ بن کررہ گئی ہیں ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے نام پر مخلوط حکومت نے دلی کی ہدایت پر آوپریشن آل آوٹ کے تحت درجنوں عسکریت پسندوں اور سوئیلین افراد کو قبروں میں اُتارا جب کہ سینکڑوں کی تعداد میں نو عمر لڑکے اور کم سن بچیاں پلٹ گن کے آزادانہ استعمال سے قوتِ بصارت سے محروم ہوئیں ۔ بالفاظ دیگر جو حکومت مرہم کاری کے نعرے سے برسراقتدار آئی تھی ، اس نے اپنے پیچھے بد ترین مظالم و مصائب کے مندمل نہ ہونے والے زخم ہی چھوڑدئے۔ بہر حال محبوبہ مفتی نے اپنی ساکھ بچانے کا رقص نیم بسمل کرتے ہوئے رمضان المبارک سیز فائر کا مطالبہ کیا جس کا مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے با قاعدہ اعلان کیا مگر اس کے باوجود ہلاکتوں اور مظالم کا پہیہ بدستور چلتا رہا۔۱۷ ؍ جون کو راجناتھ سنگھ نے ازخود سیز فائر ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کیامگر ۱۸؍ جون کو مخلوط حکومت کے بی جے پی وزراء کو دلی بلا یا گیا اور ۱۹؍ جون کو بی جے پی نے ساجھی سرکار سے علحیدگی اختیار کر لی۔ بی جے پی۔ پی ڈی پی اتحاد ٹوٹنے کی خبر محبوبہ مفتی تک چیف سیکریٹری کے ذریعے پہنچائی گئی۔ان سارے معاملات کا بغور جائزہ لیا جائے تو بلا مبالغہ یہی اخذ ہو گا کہ بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی نے بے جوڑ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر نہ صرف اپنی سیاسی بے بصیرتی کا وافر ثبوت پیش کیا بلکہ اپنے سیاسی زوال کی داستان اپنے ہی قلم دوات سے لکھ دی۔
رابطہ :ہردوشیوہ۔۔۔ زینہ گیر
9906607520