جموں //سابق وزیر علیٰ عمراللہ نے ریاستی وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ اگر انہیں اپنی سیاسی روح کو جہنم سے بچانا ہے تو ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کو بہتر نظام فراہم کیا جائے ،انہوں نے کہا پی ڈی پی کو بی جے پی نے 6سال کیلئے عزت ،دولت ، طاقت اور شہرت دے کر اُن کی سیاسی روخ کو اپنے تصرف میں کر لیا ہے ۔اسمبلی میںجاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ اور این سی سربراہ عمر عبداللہ نے حکومت کو انتظامی وسیاسی مسائل پر گھیرتے ہوئے سوالات و الزامات کی بوچھار کردی۔انہوں نے کہاکہ ریاست کے حالات کیا ہیں، یہ سب کے سامنے ہیں ،کوئی دن ایسا نہیں جب ہمیں خون خرابہ کی خبر نہیں ملتی، چاہئے وہ ہمارے نوجوا ن ہوں، چاہئے ملی ٹینٹ، چاہئے ہماری بہادر فوجی ، سیکورٹی فورسز کے اہلکار، آفیسر، سرحد کے قریب رہنے والے لوگ کہیں نہ کہیں سے روز یہ خبرآتی ہے کہ حالات اور زیادہ خراب ہورہے ہیں۔‘‘عمر نے کہا’’ ہم شوپیاں سے لیکر کٹھوعہ جائیں بے بسی، افسوس ، دکھ ا ور درد کے علاوہ ہمیں کچھ اوردیکھنے کونہیں ملتا۔‘‘گذشتہ برس کے حالات کاذکر کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا ’’وہ اُن حالات کو ابھی تک نہیں بھول پائے ،سرینگر کے کالجوں اور اسکول کے علاوہ باقی اضلاع کے کالج اور سکول میں وہ نظارے وہ تصویر، ابھی بھی ہمارے سامنے ہیں،جہاں پر کالج کے گیٹ کے اوپر سے پتھر اور گیٹ کے نیچے ٹیرگیس کے شیل استعمال کئے گئے ۔‘‘انہوں نے کہا ’’ ہم جہاں بھی دیکھیں ایک غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے۔‘‘ عمر نے اپنے دور اقتداد کا زکر کرتے ہوے کہا ’’مجھے یاد ہے کہ میرے دور حکومت میں جب2010کے بعد حالات کو کچھ حد تک قابو کیا گیا ، تب وزیر اعلیٰ صاحبہ اپوزیشن میں تھیں اور بار بار کہتی تھیں کہ یہ ایک مصنوعی امن وخاموشی ہے۔ پابندیاں اور کرفیو لگا کر ایسا کیاگیاہے لیکن اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ’’ شہر سرینگر کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاںمساجد میں جانے کی اجات ہو ،یہاں تک کہ پہلی مرتبہ ، عید کے روز کرفیو اور پابندیاں لگائیں گئیں،اور لوگوں کو عید کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں د ی گئی۔‘‘ عمر نے وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کہا ’’ الیکٹرانک کرفیو تو اب عام بات ہے، کہیں نہیں تو کچھ علاقوں میں روز لگ ہی جاتاہے، اب انٹرنیٹ بند کرنے سے کتنا فائیدہ اور نقصان ہوتا ہے اس کا فیصلہ آپ کر سکتی ہیں‘۔‘ سرحدی علاقوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے عمر نے کہا ’’وہاں روز لوگوں کو نشانہ بنایاجاتاہے ،ایک کے بعد ایک، یہاں پر شہریوں کو نشانہ بنایاجارہاہے، اور اس کے بعد ہمارا رد عمل ، کچھ جگہوں پر ۔میں مانتا ہوں کہ افسران نے اچھا کام کیا ہے لیکن عام طور پر ہم جب بارڈر کے قریب رہنے والے لوگوں سے سنتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی نے پوچھا ہی نہیں، ہمیں اپنے ہی حال پر چھوڑا گیاہے، ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ حکومت پر بھروسہ کریں لیکن ہم بھروسہ دلانے کے لئے وہ اعتماد سازی کی بحالی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔‘‘شوپیاں میں شہری ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے عمر نے وزیر اعلیٰ سے کہا ’’پچھلے دنوں شوپیاں کے افسوس ناک واقعہ پر ایوان میں بحث ہوئی ، لیکن آپ نے اپنے جواب میں اس وقت ریاست کے لوگوں کو یقین دلایاکہ آپ نے ایف آئی آر لگائی ہے اور آپ انصاف دلائیں گی، چلئے یہ اچھی بات ہے اگر آپ کر سکیں ،لیکن ابھی تک ایسا نہیں پایا کہ سرکار کی طرف سے درج ایف آئی آر پر کارروائی ہوپائی‘‘۔انہوں نے کہا، آپ خدارا مجھے بتائیں جس تھانے میں یہ ایف آئی آر درج ہے، اس تھانے کا ایس ایچ او کرے گا کیا۔‘‘ انہوں نے ریاستی وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ’’ میری آپ سے مودبانہ یہ گذارش ہوگی کہ آپ ایک اعلیٰ سطحی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیں کیوںکہ جہاں یہ 2 ایف آئی آر کی لڑائی ہوگئی ہے، یہ اب معمولی ایف آئی آر نہیں رہی ہیں ۔مجسٹریل انکوائری اپنی جگہ لیکن ان ایف آئی آر کے لئے آپ کو اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینی ہوگی تاکہ وہ اس کی اچھی طرح سے تحقیقات کر پائیں ‘‘۔فورسز کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مرکز کو بھیجے گی شکایات کا ذکر کرتے ہوئے عمر نے ریاست وزیر اعلیٰ سے کہا ’’حقیقت یہ ہے کہ سال 2002کے بعد شاید پچاس کے قریب شکایات ہم نے مرکز کو بھیجیں ، جن میں سے 47کو مستر د کر دیاگیا او ر 3ابھی زیر التوا ہیں ، ایک بھی شکایات پر سماعت نہیں ہوئی ہے، اور نہ ہی اس کو درست ماناگیاہے، جب یہ ہمارا ٹریک ریکارڈ ہے تو آپ اسمبلی میں کھڑی ہوکر کہتی ہیں آپ اس ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچا ئیں گی۔ہمیں یہ بتائیں، جووراثت میں یہ پچاس کیس ملے ہیں، جن پر ابھی بھی Prosecutionکے لئے اجازت نہیں ملی، آپ کوایسے میں یہ کہاں سے اعتماد حاصل ہوا کہ آپ اس ایک ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچا دو گی۔‘‘انہوں نے ایوان کو بتایا کہ جن کیسوں میں کارروائی عمل میں لائی گئی اُن میں فوج نے خود کی۔سابق وزیر اعلیٰ نے بحث کے دوران کہا ’’ میرے دور حکومت میں جب مژھل کا معاملہ ہوا، اس وقت میں نے لوگوں سے کہا کہ میں آپ کو انصاف دلاکر رہوں گا،اُس وقت کورٹ مارشل کے ذریعہ اُن فوجی اہلکاروںکے خلاف کارروائی ہوئی۔لیکن آج وہ سلسلہ آہستہ آہستہ Reverseکیاجارہاہے۔‘‘ عمر نے ذاہد فاورق قتل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’مجھے یاد ہے کہ میرے وقت میں برین میں بی ایس ایف کے سنیئر افسر نے طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک نوجوان کو ماردی، اس کی گرفتاری ہوئی اور کیس چلا ،لیکن آج جو آپ نے شوپیاں کے حوالے سے یقین دلایا ہے مجھے شک ہوتا ہے اور شک اس لئے کہ آپ دیکھیں ہمارے پچھلے سال کے ٹریک ریکارڈ دیکھئے ‘‘۔عمر عبداللہ نے پنچایتی انتخابات کے حوالے سے سرکار سے کہا ’’ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ پنچایت کے انتخابات ہونے چاہئے، لوگوں کو بڑھ چڑھ کر ان پنچایت انتخابات میں حصہ لینا چاہئے ، وقت موزوں ہے کہ نہیںاس کیلئے آپ کل جماعتی میٹنگ میں بتا رہی ہیں ۔‘‘ عمر نے کہا نے محبوبہ مفتی سے مخاطب ہو کر کہا ’’ آپ کہتی ہیں کہ ووٹر سامنے آنے چاہئے ، پھر ووٹر کی کیا حالات ہوتی ہے وہ میرے حلقہ انتخاب میں پچھلے سال کے پارلیمنٹ الیکشن میں ایک ووٹر کا کیا حال ہوا ، وہ پوری دنیا کو پتہ ہے ،اس کو جیپ کے آگے رسیوں سے باندھ کر 9 گاؤں سے گھمایاگیا،قصور کیا وہ ووٹ ڈالنے کے لئے آیاتھا، پتھراؤ ہوا ، فوج نے اس کو پکڑا، گاڑی سے باندھا اور لے گئے ،اور جب ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے اس کے حق میں10لاکھ روپے معاوضہ کی سفارش کی۔ نوٹس لیا معاوضہ کا اعلان ہوا، وہ معاوضہ بھی آپ نے نہیں دیا جس کا جواب کل سامنے آگیا، آپ نے سیدھا کہا ہے کہ اگر ہم معاوضہ دیں گے تو یہ فوج کی حوصلہ شکنی ہوگی لیکن فوج نے تو اپنا کام کر دیا۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ فاروق کو گاڑی کے ساتھ باندھنے والے کو انعام میڈل ، باقی چیزیں ملیں لیکن جو باندھاگیا وہ نہ ادھر کارہا نہ اودھر‘‘۔ عمر نے کہا ’’ ایماناًمیں کہتاہوں کہ شاید بہتر ہوتا اُس کیلئے کہ وہ پتھر باز ہوتا تو کم از کم اس کو حریت والے اپناتے، آج تو نہ ہم اسے اپنا سکتے ہیں ،کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ معاوضہ دینا پڑے گا ، اس نے ووٹ ڈالا ہے، اس لئے حریت والے کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ہوا۔ ووٹ ڈالنے کیوں گیا تھا،بیچار ہ دو کشتیوں میں سوا ر ہوکر تباہ ہوگیا ہے‘‘۔عمر عبدللہ نے سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کٹھوعہ واقعہ پیش آنے کے بعد سے اب تک میڈیکل رپورٹ بھی تیار نہیں کی جا سکی ہے ۔عمر نے کہا ’’میں حیران ہوا کل سن کر، کہ ابھی تک بچی کی میڈیکل رپورٹ نہیں آئی ہے ،کرائم سین اس کے ساتھ کیا ہوا وہ دوسری بات لیکن میڈیکل رپورٹ نہیں، کیا محبوبہ جی آپ وہی نہیں ہیں، سال 2009میں شوپیاں کے واقعہ پر اتنا بڑھ چڑھ کراس کو آگے پیش کیاکہ انہیں انصاف ملنا چاہئے، اُنکے ساتھ ہوا غلط ہوا۔سرکار نے غلط کیا لوگوں کو اکسایاگیا، ان کو سڑکوں پرلایاگیااور آج آپ کے دور ِ حکومت میں ایک معصو م بچی کے ساتھ کیا ہوا، ایسا سانحہ پیش آیا تو کارروائی کیوں نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ اس تحقیقات پر لوگوں کو بھروسہ اٹھ رہاہے کیونکہ بنا میڈیکل رپورٹ کے آپ کون سی تحقیقات کر سکتی ہیں۔عمر عبداللہ نے سنگ بازی میں ملوث نوجوانوں کو عا م معافی دینے کے حوالے سے محبوبہ مفتی سے کہا ’’ہمارے سنگ باز ہیں، آپ یہ برائے مہربانی اس ایوان کوبتائیں اور اس ایوان کے ذریعہ لوگوں کو بتائیں کہ یہ دوسری مرتبہ کے سنگباز کون ہوں گے۔ جن کو 2010کے بعد کیس لگے، ان پر دوسرا کیس لگا، وہ اس میں لائے گئے کیونکہ میری سمجھ میں آیا نہیںآتا یہ کون ہیں ۔‘اس میں ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت ہمیں نہیں مل رہی ہے۔‘‘عمر نے وزیر اعلیٰ سے محاطب ہو کر کہا کہ وہ مرکز سے کہیں کہ ریاست ، خاص کر ریاستی انتظامیہ کو لیکر جو فیصلے یا جو اعلانات کرنے ہوں وہ مہربانی کرکے آپ پر چھوڑیں اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ کرائیں۔عمر نے کہا ’’ مجھے یاد ہے میرے دور حکومت کے دوران2010میں ایک دن ہوم سیکریٹری نے شاید پارلیمنٹ سے باہر آرہے تھے ،تو انہوں نے میڈیا سے بات کی ، میڈیا سے کہاکہ ہم نے ریاستی سرکار سے کہا ہے کہ وہ کرفیو میں نرمی برتے تو آپ لوگوں کی طرف سے وبال مچ گیا کہ کرفیو لگانا یا نہ لگانے کا فیصلہ بھی دہلی سے ہوتاہے، آپ اس کرسی پر بیٹھی ہیں کرفیو آپ شاید خود بھی نہیں لگاتیں، اس کا فیصلہ ایس ایس پی اور ڈی سی حالات کاجائزہ لیکر لگاتے ہیں، کبھی کبھار تو ایس ایچ او لیول پر بھی کرفیو لگایاجاتاہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آج جو بھی فیصلے ریاست کے متعلق ہوتے ہیں وہ مرکز کی طرف کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ’’ اب یہ پتھر باز کیس کاپہلا اعلان بھی مرکز سے سنا، مذاکرات دنیشور شرما صاحب نے پہلے کہاکہ ہم نے ریاستی حکومت سے کہا ہے کہ اُن کیسوں کا جائزہ لیں اور پھر پچھلے دنوں میڈیا کے ذریعہ راجناتھ سنگھ نے سات نکاتی روڑ میپ کا اعلان کیا، وہ سب چیزیں ریاست کے حد اختیار میں ہیں، مہربانی کر کے اپنے لئے اور اس ریاست وزیر اعلیٰ کی کرسی کے تقدس کو بحال رکھنے کے لئے آپ مرکز سے کہیے کہ وہ جو بھی اعلان کرنا چاہئیں وہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ کرائیں۔‘‘عمر عبداللہ نے ریاست میں تعینات کئے گے ایس پی اوز کی تعیناتی کے حوالے سے کہا ’’ کچھ جگہوں سے آپ کی پارٹی کے لیڈران کی سفارش پر لگے ہیں ،اب جو ہوا اس کو بدل تو نہیں سکتے، البتہ آئندہ خیال رکھیں کہ قواعد وضوابط اور شفاف طریقہ سے ایس پی او کی بھرتی عمل میں لائی جائے۔عمر عبدللہ نے سرکار پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے منصوبہ بندی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ انہوں نے کہا ’’ کہاں شیر کشمیر کا سنگل لائن ایڈمنسٹریشن اور کہاں آپ کے عوامی دربار کا سلسلہ،اس میں آ پ نے ایم ایل اے کے ادارہ کو بھی بخشا نہیں، عوامی دربار کا تصور کس نے دیا لیکن اس کا فائیدہ آپ نے ضرور حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ انہوں نے ریاستی وزیر اعلیٰ سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ’’جوفیصلے آپ نے کئے جواعلانات کئے، ان کا کتنا عمل ہورہاہے ،وہ آپ کو پتہ ہے، کیونکہ مطالبات زر کے دوران بہت سی شکایات ہیں، جو وعدے کئے گئے ان پر عمل نہیں ہورہاہے، اس میں مفتی صاحب کا ذکر بھی ہوا اللہ مغفرت کرے، آپ کا بھی ذکر آیا، اور میں نے جب سیکریٹریٹ سے اعدادوشمار حاصل کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایک سال میں مفتی محمد سعید نے شاید662وعدے لوگوں سے کئے اسی طرح لوگوں کو ملتے تھے، لیکن آج تک پچاس فیصدبھی پورے نہیں کئے گئے ہیں ‘‘۔عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کے عوامی دربار پر بھی چٹکی لیتے ہوئے کہا’’ آپ نے 14اضلاع میں14دربار کئے جو ہمیں سرکار سے اعدادوشمار ملے ہیںاُن کے مطابق 3ہزار کے قریب آپ نے ڈائریکشن دی ہیں اور ان پر جو خرچہ آنا ہے وہ 600کروڑ کے قریب ہے۔‘‘ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ کیا یہ کام ضلع ترقیاتی بورڈ کا نہیں تھا یہ تو ایم ایل اے کا کام ہوتا ہے کہ لوگوں کے مطالبات آپ کے سامنے رکھیں یا ضلع ترقیاتی بورڈ کے سامنے رکھیں اور اس میں اپ کوجہاں سیوٹ کر گیا وہاں پر آپ نے ایم ایل اے کی بات مانی، جہاں نہیں سیوٹ کیا تو وہاں پر آپ نے ڈیلی گیشن کی صورت میں آپ کے ہارے ہائے امیدوروں کے ذریعہ وہ بات کہلاوئی اور ان مطالبات کوقبول کیاصرف اس مقصد کے لئے کہ کسی نہ کسی طرح ضلع ترقیاتی بورڈ کا سلسلہ بائی پاس ہوجائے۔‘‘انہوں نے کہا کہ 6 سو کے آپ نے وعدے کئے ہیں، ان کے بدلے درابو صاحب نے شاہد 60کروڑ بجٹ میں انتظام رکھا ہے باقی540کروڑ آپ نے نے ڈی سی کو دستیاب وسائل سے پورا کرنے کو کہا ہے، اگر مرکزی سرکار کی اسکیموں کو چھوڑ دیاجائے تو پیچھے کل 300کروڑ روپے ہی بچتے ہیں جبکہ آپ نے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 540کروڑ چاہئے، یہ کہاں سے آئیں گے۔ اس کا جواب آپ ہی دے سکتی ہیں۔ ایک طرف آپ نے ڈی ڈی بی کو کھوکھلا کر دیا۔عمر نے کہا’’ مجھے یاد ہے کہ میںاپنے اسمبلی حلقہ میں ایک جائزہ میٹنگ لے رہا تھاتو اس دوران مجھے اچانک سی اے پی ڈی کی یاد پڑی ، ایک افسر سے جب میں نے پوچھا کہ میرے حلقہ میں گذشتہ سال کتنے فیئر پرائز شاپ کھولے گئے تو اس نے بتایاکہ 70۔ تو میں نے پوچھا کہ اس کے لئے کیا کرائیٹریا اپنا گیا تو اس نے جواب دیاکہ بیس آپ کی سفارش پر اور 50کی لوکیشن کا فیصلہ سابقہ ایم ایل اے کی سفارش پر کیاگیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس افسر نے غلطی سے کہا یا زیادہ ایماندار تھا، لیکن کہہ ڈالا اور وہی کہہ ڈالا جس کا شاہد ہم سب اپوزیشن والے ، اس چیز کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم لوگوں سے چن کر آتے ہیں، لوگوں کوہم سے امیدیں ہوتی ہیں، ہمیں بائی پاس نہ کیاجائے اور دوسرے لوگوں کو سامنے نہ لایاجائے جو ہارے ہوئے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا آپ جموں وکشمیر ریاست کی وزیر اعلیٰ ہیں نہ کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کی چیف منسٹر۔‘‘ مہربانی کر کے اس میں آپ اپنے افسروں کے ذریعہ یہ واضح ہدایات دی دیئے کہ سیاسی مداخلت اور فیصلے اس کو روک دیاجانا چاہئے۔انتظامیہ میں تبادلے کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’ٹرانسفر پالیسی کی ہم بات کریں یہ کاغذی پالیسی ہے، جی اے ڈی کی ویب سائٹ پر ٹرانسفر آرڈز ہی ملتے ہی ، اس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ایس آراو202میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہ غلطی ہم بھی کر چکے ہیں جس کا خمیازہ ہم نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھگتا۔ پھر ہمیں عقل آئی کیونکہ اس پر نوجوانوں پر دیکھا تو۔ ایک ہی دفتر میں ایک ہی کام لیکن تنخواہ الگ الگ نا انصافی ہے۔ آپ ایس آر او202کے تحت لگائے گئے نوجوانوں کو لداخ اور کرگل بیجتے ہو چھ یا سات ہزار ماہانہ پر یہ، نظام درست کیجئے۔
پی ڈی پی۔بی جے پی اشتراک
عمر کی ’فوسٹ اور شیطان‘ کے معاہدے سے تشبیہ
عمر عبداللہ نے ایوان میں اپنی تقرر کے آغاز میں ایک پرانی کہانی سے شروع کیا انہوں نے کہا ’’ایک شیخ تھے اُن کا نام تھا فوسٹ وہ زیادہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ چاہتے تھے کہ اور علم ہو اور طاقت ہو اور اثر ورسوخ ہو۔ تو انہوں نے شیطان سے اُس وقت سمجھوتہ کیا ،شیطان بھی چاہتا تھا کیونکہ اُسے لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر جہنم میں لینا پڑتا تھا وہ چاہتا کہ اُس کو وہ بندہ ملے جو خوشی خوشی اُس کے ساتھ چلے ،تو یہ ہوا کہشیطان نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا اور اُسے کہا کہ فوسٹ کو جو چاہئے آپ دے دو ۔20سال کا وقت اُس کیلئے طے کیا گیا اور اُس سے کہا گیاکہ ان 20برسوں میں اُن کو جتنی دولت شہرت چاہئے عزت طاقت ہے وہ آپ کیلئے ہے اور اس کے بعد آپ کی جو روح ہو گئی وہ شیطان کے حوالے ۔ فوسٹ نے سودا قبول کر لیا 20سال تک کھلم کھلا طاقت کا استعمال، پیسے کا استعمال سب کچھ گیا اور جیسے جیسے وہ 20سال ختم ہونے کو پہنچے تو فوسٹ کو لگا تو یہ میں نے کیا کیا ۔میری جو روح کواب جہنم کی آگ میں تڑپنا ہو گا۔ اُس نے کوشش کی کہ کسی طرح اس سودے سے پیچھے ہٹ جائوں ،سشیطان نے اُس کی روح کو لے لیا اور جہنم کی آگ میں وہ چلے گئے ۔‘‘ عمر عبدللہ نے کہانی کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ فوسٹ نے کافی معافیاں مانگیں ، ہاتھ جوڑے پائوں پڑااور آخر کار شیطان نے اُس کے اس سودے کو کمنسوخ کر لیا اور اُن کو جہنم کی آگ میں جلنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔عمر عبداللہ نے اپنی تقریر کے آخر پر ایوان کو بتایا کہ مجھے آج کے حالات دیکھ کر فارسٹ اور اس کے سودے کی یاد آئی۔‘‘ عمر نے کہا ’’مجھے کبھی کبھار یہ لگتا ہے کہ سیاسی طور آپ نے بھی ایک ایسا ہی سود کرسی کیلئے کیا ہے ، جس کیلئے بی جے پی بھی آپ کو تنگ وغیرہ نہیں کرتے ، نہ ہی شکایت کی گنجائش دی۔‘‘ انہوں نے محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’اننت ناگ میں آپ الیکشن نہیں کرپائیں ۔بی جے پی والے خاموش رہے، امرناتھ یاتریوں پر بہت بڑا حملہ ہوا، یہ چپ رہے ۔ اگر کوئی اور ہوتا تو یہ طوفان مچاتے، اسی طرح میں گورننس اور کرپشن کو لیکر بولوں تو سارا دن نکل جائے گا، انہوں نے اف تک نہیں کیا۔ کابینہ میں آپ نے اپنے منسٹر بڑھائے، ان کے وہیں رکھے بی جے پی نے وہ بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے یہ سوچاکہ ہم انہیں یہ چھ سال دے دینں۔ عزت، شہرت، دولت طاقت سب کچھ دیں لیکن ان کی سیاسی روح کو حاصل کریں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’اب اس کہانی کا خاتمہ کیسا ہوگا وہ ابھی دیکھنا پڑے گا۔،وہ آپ پر منحصر کرتا ہے آپ کی جوسیاسی روح ہے، اس کو کوئی بچا نہیں پائے گا۔ اگر آپ وہ اینڈنگ چاہتی ہیں تو جیسا چلتاہے، ویسا چلنے دو،لیکن اگر آپ چاہتی ہیں کہ اس کی اینڈنگ دوسری ہوتو جس طرح فوسٹ نے تپسیا کی، منتیں کیں، اور پھر آخر کار اپنے آپ کو آگ کی جہنم سے بچایا تو آپ کو بھی تپسیا کرنی ہوگی۔آپ کو بھی نظا م بدلنا ہوگا، وہ بھی الفاظوں سے نہیں ، عملی طور سے۔ آپ و ہ ہیں جنہوں نے سیلف رول بیچا،ڈیول کرنسی بیچی، جوائنٹ مکیزم ، آپسی تال میل ، آپ وہ ہیں جنہیں میرے دور حکومت میں 2010میں بچوں کے منہ میں ٹافی نظر آئی لیکن 2016میں جب یہی ہمارے بچے گولی، پیلٹ اور ٹیرگیس کے شکار ہورہے تھے تو آپ نے اس وقت کہا کہ یہ کیا ٹافی لانے گئے تھے یہ کیا دودھ لانے گئے ۔ ایجنڈا آف الائنس کی تو میں نے بات ہی نہیں کی پاکستان کو ہرکسی چیز کے لئے مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہیں، آپ کو اندرونی بھی مسئلے ہیںجنہیں درست کرنے کی بے حد ضرورت ہے، اس لئے مہربانی کرکے ، میری اس ریاست کے لوگوں کی طرف سے مود بانہ گذارش ہے کہ یہی ہوگی کہ آپ وہ تپسیا کریئے ، آپ اپنے ریاست کو چلانے کے طریقہ میں وہ بدلاولائیں تاکہ آپ اپنی سیاسی روح کو اس جہنم کی آگ سے بچا سکیں اور اس ریاست کو وہ بہتر نظام آپ فراہم کرنے میں کامیاب ہوں جس کا آپ نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے۔ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں مانگیں گے۔
بی جے پی برہم
عمر جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں: نرمل سنگھ
جموں// جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر عبداللہ بھارتی عوام کے منڈیٹ (بی جے پی حکومتوں) کی توہین کررہے ہیں۔ ڈاکٹر نرمل جو کہ بی جے پی ایک سینئر لیڈر ہیں، نے جمعہ کو یہاں اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں عمر صاحب کے بیان سے بے حد مایوس ہوا ہوں۔ میں عمر عبداللہ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن جس طرح سے انہوں نے ایوان میں شیطان اور کسی دوسرے شخص کی کہانی سنائی ، انہوں نے اس کے ذریعے ریاستی اور مرکزی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی عوام کے منڈیٹ کی توہین کی ہے۔ اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ایک ایسا سابق وزیر اعلیٰ جو مرکز میں وزیر بھی رہ چکا ہو، کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں ۔ بہت افسوس ہوا ہے۔ میرے دماغ میں عمر صاحب کی جو تصویر تھی، اس میں فرق آئی ہے‘۔ نائب وزیر اعلیٰ نے عمر عبداللہ کی طرف سے انسانی ڈھال کے معاملے میں ریاستی حکومت کو لگائی گئی پھٹکار پر کہا ’یہ جلتی پر آگ لگانے کی کوشش ہے۔ اس کی نام نہاد مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے توقع نہیں کی گئی تھی۔ وہ صورتحال کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔ پاکستانی فائرنگ سے مارے جارہے ہیں۔ وہ اپنے منڈیٹ کی توہین کررہے ہیں‘۔ یو این آئی