بی جے پی 2019ء میں لوک سبھا انتخاب جیت پانے کی نیت سے ہندوتوکے تن ِمردہ میں نئی روح پھونکنے اور اپنے ووٹ بنک کو مضبوط تر بنانے کیلئے اب جموں وکشمیر کارڈ کھیل رہی ہے ۔ اپنے اسی گیم پلان کے تحت بھاجپا نے ریاستی حکومت کا تختہ پلٹتے ہوئے محبوبہ مفتی کی حمایت واپس لینے کو قوم کے لئے اپنے بلیدان کا تاثر دے رہی ہے ۔ سنگھ پریوار پہلے دن سے ریاست میں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کر تی رہی جب کہ بقول عمر عبداللہ پی ڈی پی صدرمحبوبہ مفتی ادھر 3؍سالہ دورِ اقتدار میں صرف ربن کاٹنے میں مصروف رہیں ،اُدھر بھاجپا دلی میں ان کے ہاتھ پیر کا ٹتی رہی۔فروری 2015ء میں پی ڈی پی ۔بی جے پی مخلوط حکومت کا معمار بھاجپا جنرل سیکرٹری رام مادھو ریاستی حکومت کے بارے میںخوش گفتاریاں کرتارہا ، مگر سیاسی موسم کے اُ لٹ پھیر میں 19؍جون2018ء کو اسی نے بھارت کی سا لمیت اور وسیع تر مفادمیں پی ڈی پی کی سیاسی پشت پناہی واپس لینے کی وکالت کی ، یہاں تک کہ رام مادھونے سری نگر میں شجاعت بخاری کی دن دھاڑے ہلاکت کے لئے بھی محبوبہ مفتی کو معرضِ الزام ٹھہرایا۔حالانکہ محبوبہ مفتی اکیلے حکومت نہیں چلا رہی تھی بلکہ بھاجپا کے 10؍وزراء اور نائب وزیر اعلیٰ بھی ان کے شانہ بشانہ حکومتی کارندے تھے ۔ اگر ریاست میں صورت حال اتنی ابتر ہوگئی تھی کہ بقول رام مادھو عام شہریوں کے بنیادی حقوق خطرے میں پڑ گئے تو بھی اس کے لئے صرف محبوبہ مفتی کو ذمہ دار ٹھہرانا قرین انصاف نہیں۔ پی ڈی پی۔بھاجپا کے 3سالہ دور اقتدار میں کشمیر میں پُر تناؤ صورت حال اور ہند پاک رشتوں میں انتہائی بگاڑ کے باوجود محبوبہ مفتی دو نوں جوہری ممالک کے درمیان بات چیت کی وکالت کر تی رہیں ۔ جب 2016ء کی عوامی ایجی ٹیشن سے حالات انتہائی بے قابو ہوئے ، تب بھی مر کز نے محبوبہ مفتی کا بظاہر ساتھ دیا، حالات کا پہیہ منفی انداز میں گھومتا رہا مگر اس کے باوجود2017 میں11؍ہزار پتھر بازوں کے خلاف مقدے واپس لئے جانے کا اعلان ہوا ،اور 7جون2018میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سرینگر میں کہا کہ اپنے بچوں کے خلاف پتھر بازی کے جتنے بھی مقدمے ہیں، وہ واپس لئے جاتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دلی اور ریاستی حکومت مختلف معاملات میں ایک ہی صفحہ پر تھے ۔ میجر گگوئی تنازعہ سے لے کرکٹھوعہ عصمت دری اور قتل معاملہ تک واقعات بھی مخلوط اتحاد کی بنیادیں ہلا نہ سکے بلکہ محبوبہ مفتی کے مطالبے پر بھاجپا نے اپنے دو وزراء کو ریاستی کابینہ سے ہٹوایا۔ا لبتہ اس دوران تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہو اکہ محبوبہ مفتی چاہ کر بھی شوپیان معاملے میں میجر ادتیہ کمار کا نام پولیس ایف آئی آر میں شامل نہیں کر پائیں ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دو نوں پارٹیاں حکومتی بندھن کے ہاتھوں کچھ مجبور ہوکر اور کچھ مصلحتوں سے کام لے کر ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا تی رہیں۔ واضح رہے یہ اتحاداول دن سے مزاجاً کشمیری لوگوں کے خلاف تھا اورا نہوں نے ا سے کبھی نہ قبولا۔ مفتی سعید نے ایک بڑی چھلانگ لگاکر مصلحتاًقطبین کے سنگم کی اصطلاح وضع کر کے اقتداری سیاست کو کشمیر میں بیچ تو دیا لیکن یہاں کسی ایک بھی فردبشر نے اسarrangement پر یقین نہ کیا، دوسری طرف بھاجپا حکومت کی ساجھے دار تورہی مگر با لآخر وقت پر پی ڈی پی کو بلی کا بکرا بناکر اس مصنوعی اتحاد کا کریا کرم کیا۔کہتے ہیں کہ پی ڈی پی کو کچھ امیدیں تھیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی واجپائی کی کشمیر پالیسی پر گامزن رہیں گے اور2014 ء کے سیلاب متاثرین کے لئے مرکزسے پیکیج آئے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم مودی کی تقریروں میں واجپائی سے مستعار لفظوں انسانیت ،کشمیریت اور جمہوریت کا ورد کبھی کبھی ہوا مگر یہ سب زبانی جمع خرچ تھا۔ کہنے کو پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان ایجنڈاآف الائنس نام سے ایک کاغذی معاہدہ تھا مگر یہ ہاتھ کا دانت ثابت ہو اکیونکہ نہ افسپا گیا ، نہ حریت سمیت تمام سٹیک ہولڈرس کے ساتھ کشمیر حل پرکوئی بات چیت ہوئی ،نہ پاور پروجیکٹوں کی واپسی ہوئی ، نہ اسلام آباد سے گفت وشنید کی میز سجی ، نہ آرٹیکل 370 کے ساتھ چھیڑ خوانی سے اجتناب کی پالیسی اپنائی گئی ۔ سخت گیریت کے ردعمل میں کشمیر کے طول وعرض میں نامساعد حالات کی گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں مار دھاڑ بھی ہوئی اور سینکڑوں نوجوان بشمول اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ جنگجوؤں کی صف میں شامل ہوگئے ۔ بنابریں2016کے وسط سے آج تک تشدد میں مسلسل اضافہ ہو اجس کے باعث شدت پسند حملوں اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے انسداد ی کارروائویں میں حد درجہ اضافہ ہوا، خاص کر بشری حقوق کی پامالیوں کی تاریخ کا حجم بڑھتا گیا۔سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مفتی سعید نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت میں شراکت داری کے سوائے پی ڈی پی کے پاس دوسرا آپشن نہیں تھا اور بی جے پی پی ڈی پی اتحاد کے تجربے کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ آیا نریندر مودی واجپائی کا رول نبھا سکیں گے یا نہیں ۔ آج کی تاریخ میںان کا تجربہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ کشمیر کی گتھی سلجھانے کے لئے نت نئے تجربات یا پیوند کاری سے کام نہیں چلے گا بلکہ ایک معقول وژن اور سایسی عزم وارداہ درکار ہے جو فی الوقت دلی میں کہیں نظر نہیں آتا ۔
نوٹ:مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے ساتھ وابستہ ہے
رابطہ:9797205576،[email protected]