سرینگر//محکمہ پی ایچ ای میں مقرہ حد سے زیادہ رترقیاں تفویض کرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ محکمانہ ترقیاتی کمیٹیوں کے قیام، سنیارٹی فہرستوں کی تجدید اوررووزانہ اجرات پر کام کرنے والے عملے کی تعیناتی پر کنٹرول میں با قاعدگی کا مظاہرہ کیا۔محکمہ آب رسانی میں تعینات عملے کیلئے درکار تنخواہوں میں گزشتہ5برسوں کے دوران41فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال2011-12 میں جہاں پی ایچ محکمہ کیلئے541کروڑ60لاکھ روپے کا خرچہ آتا تھا وہی سال2015-16میں یہ بڑ کر774کروڑ20لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ میں اضافہ نئی تقرریوں،مہنگائی بھتہ میں اضافے،معمول کے اضافوں ترقیوں کے بعد تنخواہوں کے مد میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے2011میں محکمہ میں انسانی فوغ وسائل،ویجی لنس پرسنل شعبوں کو قائم کیا تاکہ محکمہ کو استوار کیا جاسکیں،تاہم دستاویزات کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اگر انسانی وسائل منیجمنٹ شعبہ نے2012سے2016تک سپر انٹنڈنٹ انجینئروں،ایگزیکٹو انجینئروں،اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئروں اور جونیئر انجینئروں کی سنیارٹی فہرست ترتیب دی تاہم اس فہرست کو متواتر بہتر(ایپ ڈیٹ) نہیں کیا گیا۔رپوٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ شعبہ نے اس سلسلے میں اپنی ذامہ داری مکمل طور پر نہیں نبھائی،اور نہ ہی محکمہ نے انسانی وسائل منیجمنٹ شعبہ کا دورانیہ جائزہ لیا۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2012-13میں گزیٹیڈ عملے کی منظور شدہ افرادی قوت کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم اس دران محکمہ کی ضرورت کے مطابق تکنیکی،منطقی اورانتظامی خصوصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سروس رولز بھی تیار نہیں کئے گئے۔ کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈرافٹس مین اور سنیئر ڈرافٹس مین اعلیٰ عہدے پرکو ترقیاں دینے کیلئے تعیناتی رولز میں ایام کار کا ذکر نہ کرنے کی وجہ سے یہ عملہ ڈرافٹس مین سے سنیئر ڈرافٹس مین اور سنیئر ڈرافٹس مین سے ہیڈ ڈرافٹس مین تک ،ان کیڈروں میں اسمامیوں کے باوجود، ترقیاں پانے سے30برسوں تک رہ گئے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ میںاسسٹنٹ انجینئروں کی115اسمامیوں کے باوجود محکمہ نے مئی2015میں صرف41اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے پبلک سروس کمیشن کو روانہ کی جبکہ محکمہ نے ان272اسامیوں کو بھی نظر انداز کیا جنہیں اپ گریڈ کردیا تھا وہ جگہیں دستیاب تھی،تاہم پبلک سروس کمیشن کو روانہ کی گئی اسامیوں کو بھی ستمبر2016تک پُر نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ محکمانہ ترقیاتی کمیٹیوں کی عدم موجودگی کے نتیجے میں محکمہ نے متواتر گزیٹیڈ عملے انچارج بنیادوں پر ترقیاں دی،اور اس دوران ایچ آر ایم شعبے،ویجی لنس سے‘‘این ائو سی‘ اسناد کی حصولیابی کو سرد کانے کی نذر کر دیا۔ کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے دونوں صوبوں کے چیف انجینئروں کے دستاویزات کی جانچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ہیڈ اسسٹنٹوں،سنیئر اسسٹنتوں،ڈرائیوروں اور کلینروں کیلئے محکمانہ ترقیاتی کمیٹیوں کا قیام متواتر اور باقاعدگی سے ساتھ عمل میں نہیں لایا گیا۔رپورٹ کے مطابق انچارج بنیادون پر جس عملے کو ترقیاں دی گئی انہیں2 سال بعد مستقل کیا گیا،جس کے نتیجے میں22ملازمین کو سبکدوشی کے مستقل بنیادوں پر ترقیاں دی گئی۔ کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی اس رپورٹ مین مزید کہا گیا ہے کہ چیف انجینئروں، سپر انٹنڈنٹ انجینئروں اوراسسٹنٹ انجینئروں کی سنیارٹی فہرست مرتب کی گئی ہے،تاہم ایگزیکٹو انجینئروں اور اسسٹنٹ ایگزیکٹوں انجینئروں کی سنیارٹی لسٹ2013کے بعد ایپ ڈیٹ نہیں کی گئی۔ محکمہ نے2015دسمبر مین منسٹریل عملے کی سنیارٹی فہرست کو مرتب کر کے اخبارات مین شائع کیا،جس کے دوران20ملازمین نے اس سنیارتی فہرست پر اعتراجات جتائے،تاہم ان اعتراجات کو ایڈرس کرنے کیلئے کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی،اور2016میں حتمی سنیارٹی فہرست کو منظر عام پر لایا گیا۔کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے محکمہ آب رسانی کی تبدالے پالیسی پر بھی سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ6دویژنوں میں6اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر کے علاوہ4ڈویژنوں میں5اسسٹنٹ انجینئروں کے علاوہ12دویژنوں میں19جونیئر انجینئروں سمیت12 دویژنوں میں19جونیئر اسسٹنٹوں نے ایک ہی جگہ پر3برسوں سے7برسوں تک کام کیا،جبکہ محکمہ کی طرف سے حساس اور انتہائی حساس اسامیوں کی نشاندہی کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔