بلال فرقانی
سرینگر// جموں و کشمیر میں گزشتہ 10 برسوں سے 330 پینے کے پانی پروجیکٹوں کی بر وقت عدم تکمیل سے ان کا مقصد ہی فوت ہوچکا ہے۔پانی سے مالا مال وادی میں پینے کے صاف پانی کی قلت اور کئی علاقوں میں عدم دستیابی نا قابل یقین ہے۔ اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ 378ترقیاتی پروجیکٹ 2019 اور 2022 کے درمیان مختلف اوقات پر ہاتھوں میں لئے گئے اور گزشتہ ایک دہائی سے نا مکمل منصوبوں کی وجہ سے سرکاری خزانے پر 1000 کروڑ روپے کا بوجھ بھی پڑ گیا ہے۔اقتصادی جائزہ رپورٹ میںکہا گیا ہے ’’397 پروجیکٹوں کو ایک ہزار518کروڑ 66 لاکھ روپے کے اصل تخمینہ کے ساتھ 4 محکموں،آبپاشی و فلڈ کنٹرول جموں، جل شکتی کشمیر،جل شکتی جموں اور میکنکل انجینئرگ ڈیپارٹمنٹ کشمیر نے شروع کیا تھا،مگر وہ امسال مارچ کے آخر تک نا مکمل تھے‘‘۔
ان پروجیکٹوں میں محکمہ پی ایچ ای(جل شکتی) کشمیر نے 216 اور پی ایچ ای جموں نے 119 پروجیکٹوں، میکنکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے ایک جبکہ آ بپاشی و فلڈ کنٹرول جموں نے61کو ہاتھ میں لیا تھا۔ ان پروجیکٹوں کو سال 2012-13 سے 2014-15 اور سال 2017-18سے سال 2021-22 کے درمیان مکمل کرنا تھا ،تاہم وہ نا مکمل رہے‘‘ ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ان نا مکمل پروجیکٹوں کی وجہ سے مجموعی طور پر 1095 کروڑ 52 لاکھ روپے کی رقم منجمند ہوکر رہ گئی ‘‘۔ ایک پروجیکٹ سال 2012-13 میں، 2 پروجیکٹ 2013-14میں،9پروجیکٹ 2014-15 میں اور2پروجیکٹ 2017-18میں منظور ہوئے تھے۔5پروجیکٹوں کو 2018-19میں ہری جھنڈی دی گئی جبکہ85پروجیکٹوں کو2019-20اور203پروجیکٹوں کو سال2020-21کے علاوہ 2021-22میں90پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی۔ محکمہ جل شکتی(محکمہ پی ایچ ای) جموں نے246کروڑ95 لاکھ ،محکمہ پی ایچ ای(جل شکتی) کشمیر نے233کروڑ65 لاکھ اور میکنکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کشمیر نے70لاکھ روپے کی رقم صرف کی ہے۔ ان پروجیکٹوں میں 330 پروجیکٹ پینے کے پانی سے تعلق رکھتے ہیں،اور پروجیکٹوں کی بر وقت عدم تکمیل کے نتیجے میں سرکار کے ہر گھر نل سے جل کے نعرے پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ وادی میں پینے کے پانی کے نا مکمل پروجیکٹوں کی تعدد 217ہیں ،جنہیں اگر بر وقت مکمل کیا جائے تو لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی میں کافی حد تک راحت ہوگی۔سیکریٹری پی ایچ ای دپیکا کماری نے کہا کہ اس معاملے کو وہ زیر غور لائے گی،جس کے بعد ہی وہ پر اپنے تاثرات پیش کرسکتی ہیں۔