سیّد آصف رَضا
حضرت محبوبِ سبحانی پیرانِ پیر محی الدّین شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رضي اللّٰه عنه (یکم رمضان ۴۷۰ھ ۔ ۱۱ ربیع الثانی ۵۶۱ھ) بمقام گیلان پیدا ہوئے- اُس دور میں (بغداد میں) مسلمانوں کی مذہبی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی اور سیاسی حالات بھی مسلمانوں کے موافق نہیں تھے۔ علماء اپنا فرضِ منصبی بھول کر اور دعوت و اصلاح کو چھوڑ کر درباری مولوی بننے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ حکمران طبقہ بھی عیش پرستی کی ساری حدیں پار کر رہے تھے۔(الا ماشاء اللہ)
آپؒ اہلِ بغداد کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”جناب رسول اللہ ﷺ کے دین کی دیواریں پے در پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیادیں بکھری جاتی ہیں۔ اے باشندگانِ زمین! آو، اور جو گِر گیا ہے اس کو مضبوط کرلیں اور جو ڈھا گیاہے اس کو پھر دُرست کرلیں۔“
(سیرت مقدسہ سید الاولیاء شیخ سید عبد القادر جیلانی ؒ، صفحہ: 15)
علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ216 صفحات پر مشتمل اپنی تصنیف ”سیرت مقدسہ سید الاولیاء حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانیؒ“ میں تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپؒ کو ”محی الدّین“ کیوں کہتے ہیں؟ آپؒ نے جواباً فرمایا: ۵۱۱ہجری میں، میں بیت المقدس کی سیر و سیاحت کرتا ہوا بغداد واپس آیا تو اس وقت میں نے ایک نہایت ہی کمزور، نحیف البدن اور زرد رو مریض کو دیکھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ مجھے اُٹھاکر بٹھا دو۔ میں سلام کا جواب دے کر اُسے اُٹھا کر بٹھا لیا تووہ فوراً موٹا، تازہ اور خوش ہو گیا۔ پھر اس نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا: تم جانتے ہو میں کون ہو؟ میں نے کہا: نہیں! اُس نے کہا میں دینِ اسلام ہوں ، میں نہایت کمزور اور قریب المرگ ہو گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے طفیل پھر تنومند اور سر نَو زندہ کیا۔“
(سیرت مقدسہ سید الاولیاء شیخ سید عبد القادر جیلانی ؒ، صفحہ: 33)
حضرت سيدنا غوثِ پاک رحمتہ اللہ علیہ کے بلند کردار اور تقویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ بخاری رقمطراز ہیں:
اللّٰه رب العزت کی عبادت و معرفت میں آپ رضی اللہ عنہ اتنے مست اور پیوست ہو چکے تھے کہ سلطان سنجر ملک شاہ نے ایک دن آپؒ کے نام ایک خصوصی پیغام بھیجا کہ جس میں آپؒ سے اپنے ملک میں آنے کی استدعا کی اور وعدہ کیا کہ اگر آپؒ میرے ملک میں آئیں گے تو نصف ملک کی بادشاہی آپؒ کو بخشش میں دوں گا۔
اے دُنیا کے طلبگارو! اے متاعِ دین بیچنے والو!! آو، اور دیکھو اس پیر کامل رحمتہ اللہ علیہ نے سُلطان مذکور کو اس پیشکش کے جواب میں کیا فرمایا، پھر اس جواب پر غور کرو اور بتاو کیا تُو واقعتاً اس قابل ہے کہ تجھ کو قادریُ النسب یا قادریُ النسبت کہا جائے؟ …… آہ! ……… مروی ہے کہ پیر کامل رحمتہ اللہ علیہ نے اس درخواست کے جواب میں ملک شاہ سنجر کو ایک رُباعی فارسی زبان میں بھیجی ۔………….
چوں چتر شاہی رُخ بخستم سیاہ باد
درِ دِل بود اگر ہوس ملک سنجرم
زنگہ کہ یافتم خبر از ملکِ نیم شب
بہ نیم جَو نمی خرم ملک سنجرم
ترجمہ: اگر میرے دل میں ملک سنجر کی بادشاہی کی ہوس ہو تو تیرے تاج شاہی کی طرح میرا بخت بھی سیاہ ہو۔ جب سے مجھ پر آدھی رات کی عبادت و ریاضت کا راز اور مرتبہ کھُل گیا تو اس کے نصف دانہ جَو کے عوض میں بھی تجھ سے ملک سنجر کی بادشاہی خریدنے کے لئے تیار نہیں ہوں کیونکہ میری بادشاہی باقی ہے اور تیری شاہی فانی اور زوال پذیر ہے۔ وہ کون ہوگا جو بقاء کے عوض فنا خریدے؟“
(سیرت مقدسہ سید الاولیاء شیخ سید عبد القادر جیلانی ؒ، صفحہ: 34)
ہمارے جاہ طلب اور موقعہ پرست “لوگوں” اور اُن کی ہاں میں ہاں ملانے والے ”عالموں“ کے لئے یہ درسِ عبرت ہے………!!