نئی دہلی //دفعہ35Aپر جاری بحث کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد محبوبہ مفتی نے کہا کہ وزیر اعظم نے انہیں اس بات کا یقین دلایا ہے کہ دفعہ370اور دفعہ35Aکا احترام کیا جائے گااور ایجنڈا آف الائنس پر عملدرآمد کو سو فیصد یقینی بنایا جائے گا۔جمعہ کی دوپہر محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس میں اُن کے دفتر پر ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران جموں کشمیر حکومت میں شامل پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مابین طے شدہ ایجنڈا آف الائنس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا اور اس ضمن میں خاص طور پر یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ ایجنڈا کے تحت دفعہ370 کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم پر واضح کیا کہ ریاست اور مرکز کے درمیان آئینی رشتے کی بنیاد دفعہ370پر رکھی گئی ہے ۔ لہٰذا اس کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہئے۔انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو ریاست کی اپوزیشن پارٹیوں کے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔وزیر اعظم کے ساتھ15منٹ تک ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے اگر چہ ملاقات کی زیادہ تفاصیل ظاہر نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ بات چیت بہت مثبت رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے انہیں اس بات کا یقین دلایا ہے کہ دفعہ370اور دفعہ35Aکا احترام کیا جائے گا اور ایجنڈا آف الائنس کی پاسداری کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ انکی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ریاستی حکومت بنانے کیلئے جو اتحاد ہوا ہے ، اس کے مشترکہ ایجنڈا میں یہ بات واضح طور پر درج ہے’’ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کے بارے میںجہاں دونوں پارٹیوں کی مختلف پوزیشن ،انکی سوچ اور موقف ہے، سیاسی اورقانونی حقائق مدنظر رکھ کر موجودہ ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت سمیت تمام قوانین کو اپنی اصلی ہیت میں برقرار رکھا جائے گا، جو ریاست کو آئین ہند میں دی گئی ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ہمارے ایجنڈا آف الائنس کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ دفعہ370کے تحت ریاست کی موجودہ حیثیت برقرار رہے گی اور کوئی اس کے خلاف نہیں جاسکتا‘‘۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ جب پورا بر صغیر انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا تھا توجموں کشمیر نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود ہندوستان کے ساتھ جڑنے کاایک الگ فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا ’’جموں کشمیرکی ایک اپنی گونا گائی ہے، یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن یہاں ہندو، سکھ اور بودھ بھی رہتے ہیں،اس کو دیکھتے ہوئے ملک کے اندر جموں کشمیر کی ایک خصوصی پوزیشن بنی ہے ‘‘۔محبوبہ مفتی نے بتایا’’بھارت کے خیال میں جموں کشمیر کا خیال شامل ہونا چاہئے‘‘۔انہوں نے کہا ’’پچھلے سال حالات خراب ہوئے،اب دھیرے دھیرے لوگ سنبھلنے لگے ہیں،زخموں پر مرہم ہونے لگا، ان حالات میں دفعہ35Aپر بحث ہورہی ہے جس سے ریاست کے حالات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ محبوبہ مفتی نے مزید کہا’’جموں کشمیر ملک کا بہت ہی ضروری حصہ ہے جو تکلیف میں نہیں رہنا چاہئے‘‘۔انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص پانی سے سر باہر نکالنے کی کوشش کررہا ہے اور اسکا سر دوبارہ پانی میں ڈبویا جارہا ہو۔انہوں نے کہا’’میں نے وزیر اعظم کو بتادیا کہ ہم بہت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، ریاست کی صورتحال آہستہ آہستہ معمول پر آرہی ہے ، لیکن ریاستی عوام کو یہ لگ رہا ہے کہ ہمارا وجود اور ہماری شناخت خطرے میں پڑنے جارہی ہے، لہٰذا یہ پیغام جانا چاہئے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ جموں کشمیر ملک کا تاج ہے ، ریاست نے دو قومی نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ہاتھ ملایا ، یہ سوچ کر کہ اس ملک میں میری جو خواہشات ہیں، ان کا احترام ہوگا ،میری جو پہنچان ہے ، وہ ہمیشہ زندہ رہے گی‘‘۔ایک سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان کی باتوں پر مثبت رد عمل ظاہر کیا۔ادھروزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جو قومی راجدھانی کے دورے پر ہیں نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے راشٹرپتی بھون میں ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ نے صدر کو یہ عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی۔یہ وزیر اعلیٰ کی کووند کے ساتھ صدر جمہوریہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی میٹنگ تھی۔