مشتاق شمیم
بہر کیف آج ایک لمبے عرصہ کے بعد شاعر موصوف بیک وقت دو شاعری مجموعے ۔۔ تاشوقہ چانے اور واوہ گرایو منز پکسُ۔ منظر عام پرلانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ دونوں شاعری مجموعے قابل دیدبھی ہیں اور قابل داد بھی۔ ان دونوں کتابوںکے سرورق ہارڈ کور پر بہت ہی زیادہ خوبصورت انداز میں ڈیزائن کئے جاچکے ہیں ۔مختلف موضوعات اور عنوانات کے تحت ڈھائی سو کے قریب شاعرانہ کلام ان دو کتابوں میں شامل ہے۔ مجید مسرور نے متذکرہ بالیٰ تین کتابچوں میں درج کلام کو زیر بحث تازہ شاعری مجموعوں میں شامل کردیا ہے تاکہ یہ کلام محفوظ رہ پائے۔ حمد باری تعالیٰ ،نعت نبیﷺ ، مناجات،منقبت اولیاء ، غزلیات، نظمیں آزاد نظمیں، روبائیاں وغیرہ جیسی معروف شاعرانہ اصناف میں زیادہ تر کلام ان دو شاعری مجموعوں میں شامل پایاجاتا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسرور صاحب ایک مکمل شاعر کی صورت میں حلقہ شعراء میں اپنا نام درج کرانے کی دوڑ میں سنجیدگی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔حسینیات اورمتفرقات جیسی دو نئی اصناف ِسخن بھی ان دو مجموعہ کلام میں نظر آرہی ہیں۔ان دو کتابوں کی ورق گردانی کے دوران خاکسار نے پایا کہ مسرور صاحب کی شاعری کا بیشتر حصہ رومانوی شاعری پر مشتمل ہے اور صوفیانہ شاعری کا رنگ اس میں قدرے ہلکا پھلکا ہے۔ایسا محسوس ہورہاہے کہ مسرور صاحب عشقیہ شاعری کے امام رسول میر کے نقشہ راہ پر گامزن ہوکر اپنا شاعرانہ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔امتحان ،کاشر زبان وقتُک آلو،خون،شہر،اخلاق ،رُووداورکتاب جیسے خوبصورت عنوانات کے تحت سماج سدھار،وقت کی پکار ،کردار سازی اور انقلابی شاعری پر مبنی چند رباعیات بھی مذکورہ دوشاعری مجموعوں میں شامل ہیں جس سے شاعر کی دور اندیشی اور سماج کے تئیں اُن کی فکر مندی کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔
چناچہ جب کوئی شاعر ادیب سخن ور یا قلم کار کوئی کلام ادب پارہ یا مضمون ضبط تحریر لانے کیلئے قلم اُٹھاتا ہے تو وہ اپنا کوئی خاص تخیل، چشم دید حالات و واقعات کے مناظر ،مقاصد یا ارادے سامنے رکھ کرہی یہ شب کام سر انجام دیتا رہتا ہے اسلئے یہاں تنقید کرنے کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہتی البتہ اگر صحت زبان وزن کلام ردیف قافیہ استعارات اور رموزات وغیرہ کے استعمال میں کسی قسم کی کوئی کمی پیشی نظر آئے تو اُس صورت میں تنقید نگار پر تنقید برائے تعمیراصول کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خامیوں کی نشاندہی کرنا اور کوتاہیوں کی تصحیح کرنا لازم بن جاتا ہے۔ شاعری اور شاعرانہ طور طریقوں اور تقاضوں سے زیادہ واقفیت نہ رکھتے ہوئے خاکسار نے زیر بحث دو مجموعہ کلام کا تنقیدی جائزہ نہ لیتے ہوئے اس کام کو اصحاب نقاد پر چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ شاعرانہ مہارت ، علمی فصاحت اورفنی بلاغت سے اپنا تنقیدی جائزہ پیش کرسکیں۔ ہاں مگر بحیثیت ایک ادبی طالب علم کے دو چار نکات پر تنقید برائے تعمیر کرنے کی یہاں جسارت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان دو شاعر ی مجموعوں میں سے ایک کو شاعر موصوف نے اپنے والدین اور دوسرے مجموعہ کو اپنے بچوں کے نام منسوب کیا ہوا ہے ۔ یہاں پر میرے خیال سے شاعر نے معاملہ فہمی سے زیادہ جذباتی کیفیت سے کام لیا ہے۔اگر کسی بڑے شاعر ادیب مفکر یا اُستاد کے نام ان شاعری مجموعوں کو منسوب کیا جاتا تو شاید زیادہ بہتر رہتا۔اکثر دیکھا جارہا ہے کہ شاعر حضرات اپنے کسی خاص کلام کے موضوع یا عنوان کو ہی اپنے شاعری مجموعہ کے ٹائٹل کے طور پر منتخب کرنا پسند کرتے ہیںلیکن شاعر موصوف کے کسی بھی کلام کا عنوان تاشوقہ چانے یا واوہ گرایو منز پکُس نہیں ہے۔مذکورہ کتابوں کے ٹائٹل کس بات یا خیال کو ملحوظ نظر رکھ کر منتخب کئے جاچکے ہیں شاعر موصوف بہتر جانتا ہوگا۔اگر چہ ان دونوں شاعری مجموعوں کا سال اشاعت ۲۰۲۲ء ہے اوردونوں کی بیک وقت رونما ئی کی رسم انجام دینے کا پروگرام طے تھا تو پھرشاعرموصوف نے دو الگ الگ کتابوں کی صورت میں اور دو الگ الگ عنوانات کے تحت اپنے شاعرانہ کلام کو شائع کرنا مناسب کیوں سمجھا ۔ خیر یہاں جن کوتاہیوں کی طرف خاکسار نے اشارہ کیا ہے یہ معمولی نوعیت کی خامیاں ہیں اور ان گزارشات کے ساتھ شاعر موصوف یا دوسرے بعض اصحاب نقاد کا اتفاق کرنا لازم نہیں ہے۔
’’واسوخت ،، شاعرانہ فن میں ایک اہم صنف تصور کی جاتی ہے۔ اگرچہ صنف ھٰذا سے ہمارے یہاں اکثر شاعر حضرات ناواقف ہیں تاہم اس صنف کے بارے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کے باوجود وادی کے اکثر و بیشتر رومانوی شاعر اپنے کلام میں اس صنف کا خوب استعمال عمل میں لایاکرتے ہیں۔واسوخت صنفِ شعر کا لغوی معنی ہے محبوب کی بے وفائی کاتذکرہ شاعرانہ کلام کی صورت میں پیش کرنا۔ یہاں مسرور صاحب کے ان دونوں شاعری مجمعوں میں درج کلام کا اچھا خاصا حصہ اسی صنف شعر کے ارد گرد گھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاعر موصوف کا یہ مشہور کلام ’’از تہ رودُس انتظارس آکھ ما۔چھوس بہ پیاران دیدارس آکھ ما۔۔ صنف ھٰذا کی روح کو بے باکی سے ظاہر کرتا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو میں وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ زیر بحث شاعری مجموعوں کے ٹائٹل ــ’’ تاشوقہ چانے اور واوہ گرایو منز پکُس ‘‘ میں بھی مذکورہ صنف شعر کی خوشبو خوب محسوس ہو رہی ہے۔ــ
گلستان نیوز چینل کے ایگزیکیٹیو ڈائیریکٹر جناب اشفاق گوہر صاحب نے اپنے خاص انداز بیان میں مجید مسرور کی ذاتی زندگی اورشاعرانہ وجود کے بارے اپنا نکتہ نگاہ پیش کیا ہے۔گوہر صاحب بڑی بے باکی سے اور ماہرانہ انداز میںاپنی ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ مجید مسرور کو بہت قریب اور ایک لمبے عرصہ سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بعض دوسرے شعراء اور ادباء جن میں معروف شاعر استاد اور نقادپروفیسر شاد رمضان، کالم نویس عرفان بشیر ،کالم نویس نقاد اور استادبشیر اطہر اورمعروف قلم کار ماگرے سمیر وغیرہ شامل ہیں ،نے بھی مجید مسرور کی شاعرانہ اور ذاتی زندگی پر جو مختصر الفاظ میں اپنی آرائیں پیش کیں ہیں ان آراوئوں کو شاعر موصوف کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ کتابوں کے آخری صفحات پر جگہ دی جاچکی ہے۔ جن دوستوں اور ہمدردوں نے مسرور صاحب کے کلام کو کتابی شکل دینے اور منظر عام پر لانے میں اپنا تعاون پیش خدمت رکھا ہے ،شاعر موصوف ان تمام خیر خواہوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے ہیں۔بطور خاص جمیل انصاری صاحب جو ان کتابوں کے سرورق اپنی مہارت سے خوبصورت انداز میں ڈیزائن کرچکے ہیں، کا شکریہ بھی صاحب کتاب نے دل کی عمیق گہرائیوں سے کیا ہے۔
(خانصاحب بڈگام ۔رابطہ۔7051223329)