میں اپنے رشتہ داروں سے اس حد تک تنگ آچکا ہوں کہ کل باتھ روم میں۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالوں ،پھر نقصان کا اندازہ کرکے اپنے ہاتھ روک لئے مگر میرے منہ سے بے اختیار ایک ٹھنڈی ٹھنڈی سی دہائی نکلی۔۔۔’’مجھے میرے رشتہ داروں سے بچائو‘‘۔اتفاقات سے قطع نظر رشتہ داروں کے بغیر دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔سبھوں کے رشتہ دار ہوتے ہیں جس طرح ہم بھی کسی کے رشتہ دار ہیںمگر رشتہ دار سب اچھے نہیں ہوتے ، مطلب یہ کہ تناسب ہوتا ہے،کچھ رشتہ دار اچھے اور کچھ برے ،کچھ کھٹے کچھ میٹھے،کچھ خود غرض کچھ ہمدرد،کچھ احسان کرنے والے کچھ لالچی ،کچھ محب اور کچھ حاسد ،کچھ نفع پہنچانے والے اور کچھ نقصان ہونے پر خوش ہونے والے ،مگر میں سمجھتا ہوں کہ مجھے آج تک اپنی ماں کے علاوہ کسی سے ٹھیٹ اور سچا پیار ،بے غرض احسان اور بے مطلب محبت نہیں ملی ۔البتہ اُس کے بعد کچھ تڑپ بیوی بچوں اور خاص طور پر بیٹی میں دیکھی مگر دونوں اپنا یتوں اور اُلفتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔مجھے گرچہ بیوی بے حد مخلص ،سکھڑ اور شریف ملی مگر فطرتاً ٹیڑھی ہونے کے سبب وہ بھی کبھی کبھی پٹری سے اُتر جاتی ہے۔
میری ایک رشتہ دار ہے ،اس کے بیٹے اور بہوویں نکمے ،ناقابل اورنااہل ہیں مگر ٹرمپ کارڈ یعنی سفارشات ہونے کی وجہ سے کچھ ڈاکٹر ،کچھ انجینئر اور کچھ دیگر سرکاری افسر ہیں ۔گھر میں لکشمی کا راج ہے مگر سرسوتی ناراض ہے۔پیسے کی ریل پیل ہے ، پر علم کا کنواں بے ڈول ہے ۔جب تک میں غربت کی پٹری پر اپنی لوکل ٹرین چلایا کرتا تھا ،اُس وقت تک وہ مجھ سے بہت پیار اور ہمدردی جتایا کرتی تھی اور از راہ عنایت کبھی کبھی باسی رروٹیاں ،ہدی نما کلچے اور انگوٹھوں کے پاس پھٹے ہوئے موزے دیا کرتی تھی مگر جس دن سے میں نے اپنے بچوں کے سروں پر ایک چھت تان دی یعنی ایک نیا جھونپڑا بنایا اور ہاک ساگ کے علاوہ کبھی کبھی سری کا گوشت کھانا شروع کیا کیونکہ گرانی کے باعث میں ریڈمیٹ یا وائٹ میٹ خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہوں۔۔۔تب سے وہ میرے ساتھ بے حد نالاں ہیں اور بول چال بھی بند کردی ہے۔
میرے ایک نزدیکی رشتہ دار گھر بار والے ہیں مگر از راہِ عنایت وہ مہینے میں ایک دو بار میرے غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماکر رات بھرٹھہرتے ہیں۔اس ہفتے اگر وہ تشریف فرما ہوئے تو اگلے ہفتے اُن کے برادر ’’اسلام علیکم پتہ چُھم بیاکھ‘‘کے مصداق جلوہ افروز ہوجاتے ہیں، حالانکہ یہ ایک معمولی بات ہے مگر گرمیوں میں کرتہ پاجامہ اور گرم پانی ،کیونکہ وہ سال بھر گرم پانی سے ہی غسل فرماتے ہیں ،دستیاب رکھنا پڑتا ہے۔ٹوتھ پیسٹ ،شیو کا سامان جب کہ سردیوں میں ان تمام چیزوں کے علاوہ فرن،کانگڑی ،واٹر بوتل اور ایک عدد کنٹوپ بھی فراہم کرنا پڑتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب میں نے یہ ساری چیزیں اُس کے لئے الگ سے رکھ دی ہیں ۔کیا کریں رشتہ دار جو ہے۔
ہمارے ہاں ایک رشتہ دار خاتون کبھی کبھی آتی ہیں ۔ہم چائے کے ساتھ مقدور بھر میٹھا نمکین پیش رکھتے ہیں مگر جونہی ہماری نظر اِدھر اُدھر ہوگئی ،وہ جھٹ سے چار بسکٹ یا دو باقر خانی اٹھاکر جیب میں ڈال لیتی ہیں ۔ایک رشتہ دار کے صاحبزادے جس دن بِراجتے ہیں اُس کے دوسرے دن مجھے بجلی ٹھیک کرنے والے کو بلانا پڑتا ہے اور دسیوں چیزیں ٹھیک کرانا یا نئی لگوانا پڑتی ہیں کیونکہ پُلگوں اور سؤیچوں کو توڑنا اُن کا شغل ہے اور جب یہ ’’بازیچہ ٔ اطفال ‘‘اُن کے والد صاحب کی نوٹس میں لائی جاتی ہے تو وہ ہنس کر ’’بچہ شرارت کرتا ہی ہے ‘‘کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور ہمیں چپ سادھ لینے کے بغیر چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے ۔شکر ہے کہ وہ سال میں دو ایک بار ہی تشریف لاتے ہیں، اگر زیادہ تشریف آوری ہوتی تو پھر میرا نقل مکانی کرنے کے سوا اور کیا چارہ تھا ؟؟؟
ایک لاڈلے جب تشریف لاتے ہیں تو صبح ناشتے کے وقت وہ جیم طلب کرتے ہیں ،روکھی سوکھی کھانے والے کے گھر میں جیم کہاں مل سکتا ہے مگر کیا کریں،اُس کی ماں ناراض ہوجاتی ہے اور اکثر کہا کرتی ہے ۔۔۔۔’’ارے وہ تو ازلی’’ شکس لد‘‘ (بدبخت)ہیں۔‘‘سٹ پڑتی ہے مگر کیا کریں بوتل خرید کر گھر میں رکھنا پڑجاتا ہے کیونکہ صاحب زادے سنگل روٹی تناول نہیں کرتے ۔اسی طرح ایک محترمہ چھوٹتے ہی مکھن طلب کرتی ہے ۔مکھن کھانے کے اعتبار سے تو اُسے ٹُن ٹُن ہونا چاہئے تھا مگر ہے وہ دھان پان پنسل کی طرح اوپر سے نیچے تک ایک جیسی۔ویسے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ صرف ہمارے ہی گھر میں مکھن کا استعمال فرماتی ہوں کیونکہ ’’مفت ہاتھ آئے تو کیا بُرا ہے۔‘‘
کسی دن اگر دوچار لاڈلے اور لاڈلیاں کسی وجہ سے ایک ساتھ غریب خانے میں جلوہ افروز ہوجائیں تو نامعلوم بندوق برداروں کا ریڈ لگتا ہے ۔وہ آتے ہی گھر میں اُچھل کود شروع کردیتے ہیں ۔لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں اور مختلف اشیاء کا ناش کردیتے ہیں ،جس میں شیشے زیادہ تر ماترا میں زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔لڑکیاں مختلف چیزیں خاص کر تکیے پھاڑتی ہیں ،پردے نوچتی ہیںاور کراکری توڑتی ہیں ۔وہ اپنی مختلف وناش کاری کھیلوں کو گو گو کہتی ہیں ۔یقین مانئے اس کھیل یا اُن کھیلوں میں ہمارا بہت کچھ گو گو ہوجاتا ہے ۔ابھی پرسوں ہی کی بات ہے جب میں دفتر سے گھر لوٹا تو ٹوٹے ہوئے واش بیسن اور کراکری کے ٹکڑے دیکھ کر ایک طرف تو دل کے اُس سے زیادہ ٹکڑے ہوئے مگر دوسری طرف خون کھول اٹھا کہ پکڑ کر ان بد تمیزوں کی تکا بوٹی کروں مگر جب تک میں اپنے ناکام تمنا کو عملی جامہ پہناتا ، یا کچھ اور کرتا ،کچھ کہتا ،غصہ کرتا ،وہ ستم گر اونچی ایڑیوں والی سینڈل پہننے والی مائوں کے ساتھ تشریف لے جاچکے تھے اور میں ہکا بکا رہ گیا ۔بقول کسے ع
کارواں گذر گیا غبار دیکھتے رہے
البتہ میں اُن خوشبوئوں کو ضرور سونگتا رہا جو بادِ بہاری کی طرح اُن کی مائیں اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھیں اور کراکری کے اُن ٹکڑوں کو نہارتا رہا جو بزبان حال نوحہ خواں تھیں اور اپنی لاچار گی کی دہائیاں دے رہی تھیں۔میرے گھر کی حالت چچا جان مرحوم کے اس شعر کی سیاق و سباق تشریح تھی ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
غالبؔ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995