مثبت سوچ باعث ِسکون !

سبزار احمد بانڈے
ایک لاطینی کہاوت ہے کہ اگر تم اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تمہیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔

سوچ ۔۔۔۔۔انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔آپ ویسے ہی ہے جیسے آپ کی سوچ ہے۔لہٰذا سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔پیدایشی طور پر سوچ نہ مثبت ہوتی ہے اور نہ منفی ہوتی ۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر انسان فطری سوچ رکھتا ہے۔پھر اسکا ماحول( والدین، اساتذہ،رشتہ دار وغیرہ)اس کی فطری سوچ کو گہنا تے ہیں۔

اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جاسکتا ہے، جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا شخص سونے میں ہاتھ ڈالے تو وہ بھی مٹی بن جائے۔ اچھا سوچنے والے لوگ مسائل کو حل کرنے کی بہتر اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے، کہ اُن سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائےیا اُن کو دھوکا دے۔ جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے، ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتااور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے۔ 

 تاریخ کے مشہور آمر حکمران اڈولف ہٹلر نے کہا تھا: ہم جیسے حکمرانوں کو لوگوں پر حکومت کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس سوچ اور فکر نہیں ہوتی‘‘۔ہماری سوچ ہمارے اردگرد کے لوگوں پر اور معاشرے پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمارے اعمال ہماری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ سوچ دو طرح کی ہوتی ہے مثبت اورمنفی۔   ایک منفی سوچ معاشرے پر منفی اثرات چھوڑتی ہے جب کہ مثبت سوچ صحت مند اور مہذب معاشرے کی ضمانت ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ معاشرے کے تمام افراد میں خود اعتمادی کی فضاء قائم ہو۔

ہمارے ہاں سکول ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو کتابیں تو رٹائی جاتی ہیں مگر انہیں زندگی کے اصول اور انکا معاشرے کی ترقی میں کردار سےبالکل بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔ بچوں کو تعلیمی اداروں میں یہ تو بتایا جاتا کہ اگر پڑھو گے نہیں تو پچھلی کلاس میں واپس بھیج دیں گے لیکن اس بچے کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ آپ کو علم حاصل کرنا ہے کیونکہ علم آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے تا کہ آپ اس قوم کی ترقی میں اپنا کردار اداکر سکو۔ ہمارے ہاں تربیت کا نظام بہت ناقص ہے۔ جیسا کہ ہم جموں و کشمیر میں سڑکوں پر کوڑا پھنکنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جو چاہے کرو، جہاں چاہے کچرا پھینکو ،خاکروب کا کام ہے کہ وہ صفائی کرے، کیونکہ انہیں تنخواہ دی جاتی ہے اور اگر اس فضول قسم کی سوچ کو دوسروں تک پھیلانے کی بجائے مثبت پیغام دیا جائے کہ جموں و کشمیر ہمارا گھر ہے اور ہم سب کو اسکی صاف صفائی کا خیال رکھنا ہے، کوڑا کرکٹ کوڑے دان میں ڈالنا ہے نہ کہ سڑکوں پہ پھینک کر اپنی جہالت کا ثبوت دینا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ کوڑا کرکٹ پھیلا رہے ہوتے اور اَن پڑھ لوگ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم ڈگری یافتہ تو ہیں مگر تعلیم یافتہ نہیں ۔ہمارا معاشرہ اس طرح کے سینکڑوں واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ مثال کے طورپر ایک بچہ جو کہ اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑے سکول سے نکلتا ہے اور اس کی والدہ اسے ایک خاکروب کی طرف اشارہ کرتے ہوے بتاتی ہے کہ بیٹا دیکھو تم تعلیم حاصل کرو ورنہ اسکی طرح تم بھی خاکروب بن جائو گے اور بچہ اس طرح یہ تاثر لیتا ہے کہ یہ بہت ہی حقیر اور کم تر ہے جبکہ یہ لوگ بھی اس معاشرے میں وہی مقام رکھتے ہیں جو کہ ہمارا ہے بلکہ یہ تو زیادہ قابل احترام ہیں جو کہ ہمارا پھیلایا ہوا کوڑا کرکٹاور گند و غلاظت صاف کرتے ہیں اور اس طرح وہ اُس سے ناروا سلوک کرے گا جو کہ ایک مہذب معاشرے کے فرد کو زیب نہیں دیتا ۔لیکن اگر وہی ماں بچے سے یہ کہے کہ بیٹا تم دل لگا کر پڑھو تا کہ تم معاشرے کے ان افراد کی بہتری کے لیے کام کر سکو، جو سماج میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔اس طرح اس بچے کے اندر معاشرے کے ان افراد کے لیے محبت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گا اور دوسرے کااحساس جو کہ ماحول کوخوشگوار بناتا ہے۔آپ نے اپنے ارد گرد نہ جانے کتنے ایسے افراد کو دیکھا ہوگا جو آپکی ترقی دیکھکر کبھی خوش نہیں ہوتے ہوں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ بدل ڈالیں تاکہ وہ کسی دماغی مرض میں مبتلا نہ ہوں۔کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے۔

The surest weapon against bad idea is a good idea

ہمارا زندگی کا ایک تلخ تجربہ ہے کہ جب بچہ ہوتا ہے تو اسکی ویکسی نیشن چار پانچ سال میں مکمل کی جاتی ہے۔جسکا اثر اسکی پوری زندگی پر رہتا ہے۔سوچ کے حوالے سے پہلی ویکسی نیشن یہ ہے کہ ایسے اشخاص کو تلاش کیا جائے جو مثبت سوچ کے حامل ہوں۔پھر اسکی پیروی بھی کی جائے۔ہمیں شعوری طور پر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں سے بھی مثبت سوچ ملے ۔اس سے ضرور حاصل کیا جائے۔وہ کتاب کے ذریعے ہو سکتی ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے ہو سکتی ہے،کسی محفل میں ہو سکتی ہے۔چار دوستوں کا ایک ایسا گروپ بنا کر روزانہ بیٹھیے اور طے کیجیے کہ ہمیں ایک گھنٹہ صرف مثبت باتیں ہی کرنی ہیں۔جب یہ عمل روزانہ ہوگا تو پھر مثبت سونچنا ،مثبت کہنااور مثبت بولنا بہت آسان ہو جائےگا۔اس کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک مقصد بنایئے۔جو لوگ مقصد اور ہدف کے مطابق زندگی گزارتے ہیں وہ ذرا سی مشکل سے منفیت کا شکار ہوتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ لوگوں کے مجموعہ سے مل کر بنتا ہے چاہے اس میں کوئی خاکروب ہو یا کلرک ہو یا کسی ادارے کا آفیسر ہو، ہمیں ہر ایک کو عزت دینا ہو گی کیوں ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے چاہے وہ کوئی ریڑھی چلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ہمارے ہاں منفی سوچ اس قدر پروان چڑھ چکی ہے کہ ہم صحیح باتوں کا بھی غلط مطلب نکالنے  ہیں اور دوسروں کو عزت دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ناروا سلوک کرنا اور اخلاق و تہذیب کی حدوں کو پار کر دینا ہمارے معاشرے میں بے سکونی کی فضاء پیدا کر رہا ہے۔ہمیں اس منفی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا کیونکہ منفی سوچ ایک خطرناک زہر ہے جو معاشرے کے افراد کی تباہی کا سبب بنتی ہے ۔ جب ہماری سوچ منفی ہو گی تو ہمارا عمل بھی منفی ہو گا جس سے ہمارے ارد گرد کے لوگ متاثر ہونگے۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو بدلنا ہو گا ایک دوسرے کو حقیر پن کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اپنے اندر مثبت خیالات کو جگہ دینی ہو گی۔ بچے اس قوم کا روشن مستقبل ہیں ،اس لیے ایسے الفاظ کا چناو کریں جو انہیں معاشرے کے لیے اور اس کے افراد کے لیے سود مند بنا سکیں۔ مثبت سوچ کسی بھی کتاب میں نہیں پڑھائی جاتی بلکہ یہ تو ہمارے رویوں اور اخلاقیات سے پیدا ہوتی اور ان الفاظ سے ظاہر ہوتی، جن کا ہم انتخاب کرتے۔ ہمارے ہاں تو والدین بچوں کو یہ سکھاتے کہ پڑھو گے نہیں تو فیل ہو جائوگے ،لوگ مذاق بنائیں گے، اچھی جاب نہیں ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اور اس جیسی اور بہت سی دوسری دھمکیاں اوراس طرح بچہ پڑھائی کا مثبت تاثرلینے کی بجائےاسے کوئی بہت بڑا پہاڑ سمجھنے لگتا اور پھر آہستہ آہستہ پڑھائی کے متعلق اس کی سوچ منفی رَو اختیارکر جاتی ۔ان سب الفاظ کی بجائے اگر مثبت الفاظ کا چنائو کیا جائے، جیسے کہ بیٹا آپ اس قوم کا مستقبل ہو ،اگر آپ تعلیم حاصل کرتے ہو تو آنے والے دور میں آپ ملک کی فلاح و بہبود میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کر سکو گے اور معاشرے کےایک اچھے فرد ثابت ہو گے ۔ اس لئے اس قوم کےمستقبل کو اپنی منفی سوچ کی نذر نہ کریں۔ اچھا سوچیں اور اچھا عمل کریں اور معاشرے کے تمام فرد کو عزت کی نگاہ سےدیکھیں کیونکہ ہر فرد اس معاشرے کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ منفی سوچ پر قابو رکھنا اور مثبت سوچ کو اپنانا ہمارے اپنے اختیار میں ہیں مگر افسوس کہ ہم اس کے لیے کوشش نہیں کرتے ۔اگر ہمیں ایک ترقی یافتہ اورمہذب معاشرہ تشکیل دینا ہے تو ہمیں حقیقی معنوں میں اس کے لیے کوشش کرنا ہو گی، اپنی منفی سوچوں کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ اگرسوچ مثبت ہو گی تو ہمارا رویہ بھی مثبت ہو گا اور مثبت رویہ معاشرے پر اور اس کے افرادپر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

( ماندوجن شوپیان کشمیر)

<[email protected]