2022میںکووڈ 19 معاملات میں کمی کے آنے کے نتیجہ میں ڈی آر ڈی او کی جانب سے ہندوستان بھر میں کووڈ 19ہسپتالوں سے دستبرداری کے بعدجموں و کشمیر حکومت کی جانب سے کھنموہ سرینگرمیں 500بستروں کی سہولت والے ایمرجنسی ہسپتال کو اپنی تحویل میں لینے اور اسے ایک مکمل متعدی امراض کے ہسپتال میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لینے کی خبر سامنے آئی تھی اور یہ کہاگیاتھا کہ جموںوکشمیر یونین ٹریٹری میں اس نوعیت کایہ پہلا ہسپتال ہوگا۔ اس ضمن میں انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں محکمہ صحت و طبی تعلیم کے اعلیٰ حکام کا حوالہ دیکر یہ خوش خبری دی گئی تھی جس کا وسیع پیمانے پر خیر مقد م کیاگیا تھا کیونکہ عرصہ دراز سے یہاں ایسے مخصوص ہسپتال کے قیام کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔یہ بھی سچ ہے کہ جموںوکشمیر ،خاص کر کشمیر میں متعدد متعدی امراض وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں تو ایسے میں اس طرح کے ہسپتال کا قیام خوش آئندتھا اور ویسے بھی ہم کووڈ وبا سے نمٹنے کیلئے ڈی آر ڈی او کی جانب سے قائم کئے گئے ایمر جنسی ہسپتال میں دستیاب سہولیات کو یوں ضائع ہونے دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ایک نجی عمارت میں محض دو ہفتوں کے ریکارڈ وقت میں جس طرح ڈی آر ڈی او نے عارضی ڈھانچہ تیار کرکے اُس ہسپتال کو چالو کیاتھا ،وہ اپنے آپ میں ایک مثالی کام تھا اورہم قطعی اُس ڈھانچہ کو منہدم کرنے یا لپیٹنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ وہ محض ایک ڈھانچہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ جدید ترین انفراسٹرکچر سے لیس تھا جہاں نہ صرف سینکڑوں وینٹی لیٹروں کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے یونٹ تھے، جن میں بچوں اور شیر خوار بچوں کے لئے انتہائی نگہداشت والے یونٹ شامل تھے۔اس کے علاوہ اس ہسپتال میں بستروںکی گنجائش بہت زیادہ تھی اور بیک وقت پانچ سو مریض داخل کرسکتے تھے جس کیلئے ہر بستر ہائی فلو آکسیجن سپلائی سے لیس تھا اور اس طرح کی سہولت کا ضائع کرنا دانشمندی نہیں تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتال اپنے محل وقوع اور انفراسٹرکچر کو دیکھتے ہوئے متعدی بیماریوں کے لئے انتہائی موزوں جگہ تھی تاہم تین سال گزرجانے کے باوجود بھی وہ منصوبہ دھرے کا دھرے کا رہ گیا اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پانچ سو بستروں کے ہسپتال کو چلانے کیلئے بہت زیادہ افرادی قوت درکارتھی۔نہ ہی عارضی بنیادوںپر عملہ تعینات کرکے اس ہسپتال کو چالو کیاگیا اور نہ ہی مستقبل بنیادوںپر عملہ کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ متعدی امراض کیلئے مخصوص ہسپتال کا قیام بہت اچھا منصوبہ تھالیکن تاخیر سے خدشات نے جنم لیا ہے ۔وقت کا تقاضاہے کہ تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر اس ہسپتال کو حقیقت کا رو پ دیاجائے ۔بلاشبہ یہ ہسپتال وقت کی ضرورت ہے اور اسکا قیام عمل میں لایا جاناچاہئے کیونکہ مستقبل میں کسی وبائی بیماری یا وبا کی صورت میں، یا کسی متعدی بیماری کی صورت میں اس ہسپتال کا استعمال ایسی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ خصوصی خدمات کو یقینی بنانے کیلئے کیا جاسکتاہے۔ کئی قسم کی متعدی بیماریاں جیسے کہ تپ دق، ہپاٹائٹس، انفلوئنزا، مختلف قسم کے اسہال، ڈینگی، ملیریاوغیر ہ کے معاملات جموں و کشمیر میں بعض اوقات بڑی تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیںاور ویسے بھی تپ دق اور ہپاٹائٹس جیسے وبائی امراض کے معاملات پہلے سے ہی جہاں بڑ ی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے مریضوں کا دوسرے ہسپتالوں میں علاج کرنے کے بجائے ہم اس ہسپتال میں ان کا علاج کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور محکمہ صحت و طبی تعلیم دیگر متعلقہ محکموں کو اعتماد میں لیکر اس ہسپتال کو فعال کرنے کا سلسلہ شروع کرے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ہسپتال میں دستیاب سہولیات سے بھرپور استفادہ کیاجائے جس کیلئے ہسپتال میں دیگر عمومی امراض کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ اثاثہ ضائع ہونے اور بے کار رہنے سے بچایاجاسکے۔