یٰسین جنجوعہ
راجوری //خطہ پیر پنچال کے بیشتر سرحدی اور قریبی دیہات میں بینکروں کی عدم موجودگی نے عام شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات میں ڈال دیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد حد متارکہ پر کی جارہی شدید گولہ باری نے نہ صرف سرحدی علاقوں کو متاثر کیا ہے بلکہ کئی کلو میٹر اندرونی دیہات بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔مرکزی حکومت کی ہدایت پر کچھ سال قبل کچھ سرحدی دیہات میں بینکروں کی تعمیر کی گئی تھی، لیکن اندرونی دیہات میں اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ اب جب کہ پاکستان کی جانب سے توپوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے شدید گولہ باری کی جا رہی ہے، تو ایسے دیہات جو پہلے محفوظ سمجھے جاتے تھے، وہ بھی خطرے میں آ گئے ہیں۔ان دیہات میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کی زندگیاں اب براہِ راست خطرے میں ہیں۔ منجا کوٹ تحصیل، گھمبیر براہمنان، اور مینڈھر سب ڈویڑن کے مکینوں نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ حالات کا از سر نو جائزہ لے اور نئی صورتحال کے مطابق ان علاقوں میں بھی فوری طور پر بینکر تعمیر کیے جائیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ انتظامیہ نے کچھ ریلیف کیمپوں کی فہرستیں جاری کی ہیں تاکہ فائرنگ زون سے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے، لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کیمپوں میں سے کچھ بھی گولہ باری کی رینج میں آ سکتے ہیں۔مقامی لوگوںنے بتایاکہ ’ہم نے کئی بار تحصیل اور ضلع انتظامیہ سے اپیل کی کہ دھیری ریلیوٹ ،دبروٹ ،دریڑی ،منگلناڑ ،گھمبیر براہمنان ،کانڈی گلہوتہ،پتراڑہ کیساتھ ساتھ دیگر دیہات میں بینکر بنائے جائیں، لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ اب ہم ہر وقت خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔اسی طرح، ایک اسکولی طالبہ شازیہ کوثر نے کہاکہ ’فائرنگ کے وقت نہ ہم اسکول جا سکتے ہیں نہ محفوظ مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر بنکر ہوتا تو کم از کم ہم محفوظ ہو جاتے‘‘۔مقامی لیڈران نے بھی اس صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔اگر بروقت اور مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو فائرنگ کے دائرے میں آنے والے یہ دیہات کسی بڑے انسانی المیے کا شکار ہو سکتے ہیں۔