فاضل شفیع بٹ
“آج پھر اماں جی نے پڑوسن کے سامنے مجھے بانجھ کہہ کر پکارا۔ بھلا بے اولاد ہونے میں میری کیا غلطی ہے؟ کیوں مجھے بار بار ذلیل ہونا پڑ تا ہے” عالمہ اپنے شوہر کاشف کے سامنے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنا دُکھڑا سنارہی تھی۔
” آپ بے فکر رہیں۔ میں اماں جی کو سمجھاتا ہوں اور انشاءاللہ ہم کل ہی شہر کے کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس معائنہ کرانے کے لیے چلے جائیں گے” کاشف نے قدرے اطمینان سے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا۔
تین سال پہلے کاشف کی شادی عالمہ سے ہوئی تھی اور وہ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور اس بات کو لیکر عالمہ کی ساس نے اُس کا جینا حرام کر کے رکھا تھا۔
اگلے دن کاشف اپنی بیوی عالمہ کے ہمراہ شہر کے مشہور ڈاکٹر انور کے کلینک پر چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول کچھ ٹیسٹ کروائے اور ادویات دے کر دونوں کو رخصت کیا۔ ادویات کے استعمال کے بعد بھی عالمہ کو پھر سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ گویا یہ مایوسی اُس کا مقدر بن چکی تھی۔ مایوسی اور نا امیدی نے اُس کو ہر سمت سے گھیرا تھا۔ ایک روز اسی مایوسی کے عالم میں وہ اپنے کمرے میں رو رہی تھی کہ اچانک اس کے بچپن کی سہیلی نورین کا فون آیا۔
نورین: ہیلو عالمہ تمہاری بہت یاد آرہی تھی۔ کیسی ہو تم؟
عالمہ:میں ٹھیک ہوں نورین۔ بس وہی مایوسی اور نا امیدی۔۔۔۔۔۔۔
عالمہ:ارے پگلی اب بہت جلد تمہاری گود میں بھی ایک پیارا سا بچہ کھیل رہا ہوگا۔ اسی لیے تم کو فون کیا۔
عالمہ پرجوش انداز میں: وہ کیسے نورین۔۔۔۔؟! جلدی بتا۔۔۔!
نورین:پیرِہ گنڈ میں ایک پیر بابا ہیں۔۔ غفور الدین صدیقی، جن کو لوگ پیار سے صدِہ بابا بلاتے ہیں۔ صدِہ بابا کے پاس ہر چیز کا علاج ہے۔ مان لو بچہ دینا تو اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے اس کے دربار میں چلی جاؤ۔
عالمہ:شکریہ میری بہن نورین۔ شکریہ۔ تم نے میری زندگی میں ایک نئی امید کا سورج روشن کر دیا۔
دفتر سے لوٹتے ہی عالمہ نے نورین کی ساری باتوں کا خلاصہ اپنے شوہر کے سامنے کر دیا اور صدِہ بابا کے دربار میں جانے کی ضد پر اُڑ گئی۔ کاشف نے بیوی کو سمجھانے کی بے سود کوشش کی،مگر عالمہ کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔ اتوار کے دن کاشف اور عالمہ صدِہ بابا کے دربار میں حاضری دینے کو پہنچ گئے۔
صدِہ بابا پیرِہ گنڈ کے ایک مشہور و معروف پیر بابا تھے۔ ہفتے میں تین دن اُن کا دربار لگتا تھا اور دربار میں اس کے پیروکاروں کی کافی بھیڑ بھاڑ رہتی تھی۔ دربار میں مرد، بچے، عورتیں اور بوڑھے سب ایک ساتھ اپنی اپنی باری کے منتظر رہتے۔ کاشف نے اتنی بھیڑ بچپن میں عید کے میلے میں دیکھی تھی اور آج صدِہ بابا کی بدولت اس کے بچپن کی یاد تازہ ہو گئی تھی۔ بابا کے خاص پیروکار اس کے ہاتھ پاؤں دبانے میں مصروف تھے، کچھ بابا کے لیے حقہ بنا رہے تھے، کچھ آتے ہی بابا کے دربار میں سر بہ سجود ہو جاتے اور کچھ بابا کے لیے طرح طرح کے قیمتی ہدیے لے کر بابا کے دربار میں حاضری دینے پہنچ جاتے۔ بابا کے دربار میں پورے دن اندھے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا۔
یہ سارا سماں دیکھ کر عالمہ اور کاشف کافی حد تک متاثر ہوئے اور وہ بھی بابا کو ایک خدا دوست سمجھ بیٹھے۔ سارا دن انتظار کرنے کے بعد عالمہ کی باری آگئی۔ بابا نے پیار سے عالمہ کی پیٹھ تھپتھپائی، اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر جھاڑ پھونک کرنے لگا۔ کاشف سے یہ سب دیکھا نہ گیا، لیکن دربار میں محض ایک تماشائی بن کر چپ چاپ بابا کا کھیل دیکھتا گیا۔
” بہت جلد آپ کی کوکھ میں ایک خوبصورت بچہ ہوگا۔ میں نے اپنے مرشد کے پاس آپ کی عرضی ڈال دی ہے۔ اگلے دربار میں گیارہ ہزار روپے نقد اور درباریوں کے لیے کھانے کا انتظام آپ کی ذمہ داری ہے کاشف” بابا آنکھیں بند کرتے ہوئے بلند آواز میں بولا
” نعرہ تکبیر۔۔۔ صدِہ بابا زندہ باد” ۔۔ دربار کی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔
دیر رات کاشف اور عالمہ بابا کے دربار سے بڑی امیدوں کے ساتھ رخصت ہوئے۔ عالمہ پہلی ملاقات میں ہی بابا سے کافی متاثر ہوئی تھی لیکن کاشف کے ذہن میں بہت ساری پہیلیاں کھٹک رہی تھیں۔
وعدے کے عین مطابق دوسری ملاقات پر دربار میں کاشف نے بابا کے ہاتھ میں گیارہ ہزار روپے تھما دیئے اور ساتھ ہی دربار کے لنگر کے لئے سارے اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ بابا کاشف کی اس دریا دلی سے خوش ہو کر اس کو دعائیں دینے لگے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ مرشد نے ایک سال انتظار کرنے کو بولا ہے اور ایک سال تک آپ کو مسلسل دربار میں حاضری دینے کا حکم بھی دیا ہے۔
آج دربار میں عبداللہ بھی آیا ہوا تھا۔ عبداللہ بابا کا چہیتا پیروکار تھا جو بابا کے ہر حکم کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ عبداللہ نے پچھلے سال بابا کی خالی اراضی پرچار سو سیب کے پیڑ لگانے کا کام انجام دیا تھا اور سیب کے پیڑوں کی قیمت عبداللہ نے اپنے جیب سے ادا کی تھی۔ عبداللہ پچھلے ایک سال سے اپنے تعلیم یافتہ بیٹے کی نوکری کے سلسلے میں بابا کے دربار سے وابستہ تھے۔ بابا کے دربار میں سماج کے ہر طبقے سے وابستہ لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ کسی محنت اور مشقت کے بغیر، بابا آرام سے مہینے کے تین لاکھ روپے کماتا تھا۔ بابا کے پاس کروڑوں کی ملکیت تو تھی، لیکن وہ زکوٰۃ ادا کرنےسے ہمیشہ قاصر رہا۔ بابا کا ایک ہی بیٹا تھا نعیم صدیقی، جس نے ایک دلی کے مرید کے گھر میں رہ کر دلّی ہی کی ایک یونیورسٹی سے ایم ۔بی ۔اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ اپنے باپ کی جمع پونجی سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ گویا بابا کا یہ کھیل اس کے لیے ایک جنت سے کم نہ تھا۔ وہ دنیا کی ہر سہولیت سے لطف اندوز ہوتا رہا اور آج بابا اس کی شادی کو لے کر دربار میں اپنے پیروکاروں سے رائے طلب کر رہا تھا۔
عبداللہ نے وعدہ کیا کہ وہ نعیم صاحب کے لیے دین دار اور خوبصورت لڑکی ڈھونڈنے میں بابا کی مدد کرے گا۔ بابا نے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا،’’ لڑکی بھلے دیندار نہ ہو تو چلے گا، لیکن خوبصورت اور مالدار گھر کی ہونی چاہیے‘‘۔
چند روز بعد ہی عبداللہ نے نعیم صدیقی کے لیے ایک خوبصورت، یتیم لڑکی کا انتخاب کیا۔ خوشی کے اس موقع پردربار میں مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں۔ مٹھائیوں کا انتظام شہر کے ایک اعلی افسر کے سپرد تھا۔ کاشف اور عالمہ نے بھی اپنا منہ میٹھا کیا اور بابا کو نعیم صاحب کی منگنی پر مبارکباد پیش کی۔ اپنے بیٹے کے لیے یتیم لڑکی کا انتخاب کرنا بابا کے لیے گویا لوگوں کے دلوں میں ایک الگ مقام پیدا کرنے کے مترادف تھا، جس میں کاشف بھی شامل تھا۔ لیکن صدِہ بب نے اگلے ہفتے ہی منگنی توڑ دی۔ لڑکی یتیم تھی، خوبصورت تھی لیکن ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ کم پڑھی لکھی بھی تھی اور انہی وجوہات کی بنا پر بابا جی نے منگنی توڑنے کے ساتھ ساتھ عبداللہ پر قہر برپا کیا اور اس کی زیر التواء عرضی مسترد کر دی۔
ایک سال بیت گیا لیکن عالمہ کی کوکھ ابھی بھی ویران تھی حالانکہ بابا کے دربار سے ابھی بھی عالمہ کی امیدیں وابستہ تھیں۔
کاشف محض اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ یتیم اور غریب لڑکی ٹھکرانے کے بعد بابا کا در پردہ چہرہ کاشف کے سامنے صاف صاف عیاں ہو چکا تھا۔ کاشف کی نظر میں یہ ڈھونگی بابا پیرِہ گنڈ اور گرد و نواح کے اندھ بھگتوں کو مذہب اور عقیدت کے گہرے سمندر میں ڈبونے میں کامیاب ہوا تھا اور یہ اندھ بھگت بابا کے اشاروں پر ناچنے والے بندروں سے کم نہ تھے۔
یتیم لڑکی کو ٹھکرانے کے بعد نعیم صاحب کی شادی ایک امیر گھرانے کی خوبصورت اور ماڈرن لڑکی سے طے ہوئی ۔ اس کو دین کے بارے میں زیادہ علمیت تو نہ تھی لیکن فیشن پرستی اور دنیاداری میں بے مثال تھی۔ شادی کے موقع پر کاشف اور عالمہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بابا کا گھر رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا گیا، شادی کے لیے گوشت، چاول اور دیگر اشیاء کی ذمہ داری بہت سے نادان مریدوں نے اپنے سر لی تھی۔ شادی پر کم از کم بیس لاکھ روپے کا خرچہ آیا حالانکہ بابا جی نےاپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہیں کی۔ نعیم صاحب کے سسرال والوں نے ایک شاندار گاڑی بطور تحفہ شادی سے پہلے ہی روانہ کی تھی۔ دھوم دھام سے شادی کی تقریب تکمیل کو پہنچی اور عالمہ مسلسل اپنی امیدوں کا چراغ روشن ہونے کے لیے بابا جی کے دربار سے وابستہ رہی کیونکہ اندھی عقیدت کا بھوت اس کی روح پر قابض ہو چکا تھا اور عالمہ بھی اندھے عقیدت مندوں کی دوڑ میں شامل ہو چکی تھی اور کاشف چپ چاپ یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
ایک دن بابا دربار سے کچھ دیر کے لیے غائب رہے۔ حسب معمول دربار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کاشف اور عالمہ بھی اس دربار کا حصہ تھے۔ سارا دن انتظار کرنے کے بعد بھی اس دن عالمہ کی باری نہیں آئی اور وہ مایوسی کی حالت میں کاشف کے ہمراہ گھر کی جانب چل پڑی۔ راستے میں عالمہ نے اپنے شوہر سے سر میں درد ہونے کی شکایت کی۔ کاشف نے راستے میں واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال کے سامنے اپنی گاڑی کو روکا اور عالمہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ اتفاقاً ڈاکٹر صاحب کاشف کا ہم جماعت نکلا۔
جب ڈاکٹر صاحب نے دیر رات آنے کی وجہ دریافت تک کی، تو کاشف نے اول سے آخر تک سارا ماجرا ڈاکٹر صاحب کے گوشوں میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگا تے ہوئے کہا،
” اچھا غفور الدین صدیقی۔۔ وہ تو خود مائیگرین اور السر کا مریض ہےاور آج بھی میرے پاس اپنا معائینہ کرانے آیا تھا۔میں پچھلے دو سال سے اس کی بیماری کا علاج کر رہا ہوں۔ اگر وہ اتنا ہی بڑا خدا دوست ہے، تو پھر اپنے علاج و معالجہ کے لیے در در کی ٹھوکریں کیوں کھاتا پھر رہا ہے؟۔ کاشف آپ سماج کے ایک ذمہ دار فرد ہیں۔ کیا آپ بھی اندھی عقیدت کے ویسے ہی بندر ہیں جو بابا کے اشاروں پر ناچتا ہے؟”
عالمہ کے سامنے اب حقیقت کے پردے تقریباََ کھل چکے تھے۔ وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گئی کہ جو پیر بابا اپنی بیماری کا علاج کرنے سے قاصر ہے، وہ بھلا اس کی کوکھ میں اولاد کہاں سے لا کر دے سکتا ہے؟ یہ نادانی اور بے دینی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور یہ بابا کی کمائی کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی ہے۔ بابا جی کروڑوں کی ملکیت کا مالک تھا لیکن کبھی کسی غریب کے سر پر ہاتھ رکھنا تو دور کی بات، بابا تو اپنے پیرو کاروں کو بھی دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔
عالمہ کو اپنی غلطی کا پورا احساس تھا۔ وہ پھر سے مایوسی اور نا امیدی کے قفس میں قید ہو چکی تھی۔ عالمہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب امنڈ آیا اور وہ کاشف کو گلے لگاتے ہوئے زار و قطار رونے لگی۔ کاشف نے قدرےپیار سے عالمہ کو سمجھایا اور کہا کہ اس دنیا میں اللہ کے حکم کے بغیر درخت کا ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا پھر بھلا غفور الدین کس کھیت کی مولی ہے۔ وہ بھی تمہاری اور میری طرح اللہ کے سامنے ایک محتاج کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مشورے سے کاشف نے شہر کے ایک ماہر ڈاکٹر سے اپنی بیوی کا علاج کروایا۔ دو سال بعد عالمہ کی گود میں ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم اور ڈاکٹر صاحب کے علاج کی بدولت عالمہ کی زندگی سے بانجھ پن کا کلنک ہمیشہ کے لیے مٹ چکا تھا۔
کاشف اور عالمہ اپنی ننھی سی گڑیا کے ہمراہ ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اور ادھر پیرِہ گنڈ میں بابا غفور الدین صدیقی کا دربار آج بھی اندھ سادہ لوحوں اور بے دین لوگوں کی زینت بنا ہوا ہے حالانکہ بابا خود السر کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے اور اپنے ہی دربار میں اپنی زندگی کے آخری لمحات دین بے زار لوگوں کے ہمراہ کاٹ رہا ہے, جن کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ بابا ایک امتحان سے گذر رہا ہے اور اس امتحان کے بعد اس کی روح امر ہوگی۔ اب نعیم صدیقی ماڈرن اور نئے طرز کی پیری مریدی کے گُر سیکھ رہا ہے،اور اس کے مریدوں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک خاص تعداد شامل ہو رہی ہے۔ اس کی ماڈرن بیوی بھی اس کھیل کا حصہ ہے اور اس ماڈرن قسم کی پیری مریدی میں سیاست دانوں اور بیروکریٹوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی ہے۔فقط صدِہ بابا کی موت کا انتظار ہے۔
���
اکنگام، انت ناگ
موبائل نمبر؛9971444589