اللہ رب العزت نے ہر چیز پیدا فرمائی ہے۔ اس میں دن، ہفتہ، مہینہ، سال سب شامل ہیں اور سب کا ذکر اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا۔ سال کا ذکر اور مہینوں کی تعداد کا ذکر بھی فرمایا۔ ترجمہ:بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہیں۔ اللہ کی کتاب میں اس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا۔(سورہ توبہ )۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے قمری سال کے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے اور آگے یہ بھی فرمایا: ترجمہ:یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔۔۔ یعنی پورے سال اللہ کے بتائے راستوں پر چلو۔ طرح طرح کے رسم و خرافات میں پڑ کر اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔آج مسلم معاشرے میں اَن گنت خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ایک دو ہوں تو گنوایا جائے، دوچار ہوں تو رونا رویاجائے۔ حالانکہ اسلام رسم ورواج کو مٹانے آیاہے۔ افسوس آج اسی اسلام کے ماننے والے بعض لوگ بے ہودہ رسم ورواج کو پکڑے ہیں۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاؤں کے ساتھ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ نشاندہی فرماتے رہیں۔ صفرالمظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اور ان کا گمان اور واہمہ ہے کہ اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت مصطفویہؐ نے معین تاریخوں یا اوقات کے ہیر پھیر سے نزولِ آفات سے انکار کیاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔(مسلم)دوسری حدیث پاک یوں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:چھوت لگنا، بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں۔ البتہ جذامی(کوڑھی)شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتاہے۔ (بخاری شریف ۵۷۰۷)بخاری شریف میں یہ حدیث بھی مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:چھوت(بیماری) لگ جانا، بدشگونی، شیطانی گرفت(بھوت چڑھنا) یا صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں (بخاری۵۷۵۷)
اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام صفر ہے۔ محبوبِ خدا ﷺ کی بعثت سے پہلے ماہِ محرم میں جنگ حرام تھی۔ جب صفر کا مہینہ آتا تو عرب جنگ کے لئے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے۔ اس لئے اس کو صفر کہا جانے لگا۔ ماہ صفر کو بعض کندہ ٔ ناتراش خواہ مخواہ منحوس مانتے ہیں۔ اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی بہت سے اچھے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور صفر کو منحوس سمجھ کر سفر نہیں کرتے، خصوصاً صفر کی شروع کی تیرہ(۱۳) تاریخیں بہت منحوس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔
صفرکے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ اس روز حضور ﷺ نے مرض سے صحت پائی اور آپ ﷺ نے غسل صحت فرمایا اور مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ مرض جس میں آپ نے وصال فرمایا اس کی شروعات اس دن سے ہی بتائی جاتی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے ماہ صفر کے آخری بدھ سے آپ ﷺ کا تکلیف شروع ہوئی اور آگے وصال ہوا۔ یہ غلط بات مشہور ہے کہ آپ ؐنے اس دن غسل صحت فرمایا۔ سیرت طیبہ ؐکی مستند کتابوں میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کہیں کہیں آں حضور ؐ کی صحت یابی کی خوشی میں کچھ لوگ اپنے اہل وعیال کے ساتھ نہاتے دھوتے ہیں اور خوب اچھے اچھے کھانے بناتے کھاتے ہیں، اہل وعیال کے ساتھ تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں اور طرح طرح کی خرافات کرتے ہیں جو شرعاً ممنوع ہیں۔ کچھ لوگ اس کو نحس مان کر گھر کے مٹی کے پرانے برتن گھڑا وغیرہ توڑ دیتے ہیں ،یہ بھی غلط ہے اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ کسی دن کو خوشی منانا یا اسےمنحوس سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرواورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے صفر سے رنگے ہوئے دو کپڑوں کو پہنے دیکھا تو فرمایا: تجھے تیری ماں نے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے۔ میں نے عرض کیا میں اس رنگ کو دھو ڈالوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا(نہیں ) بلکہ اسے جلا ڈالو(مسلم جلد ۳، حدیث ۵۳۳۵) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مرض کے متعدی ہونے اور صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں تو ایک دیہاتی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیاوجہ ہے کہ اونٹ ریت میں ہرنوں کی طرح صاف ہوتے ہیں پھر ان میں کوئی خارش (کھجلی)زدہ اونٹ آتا ہے جو ان اونٹوں کوبھی خارش زدہ کر دیتا ہے آپ ﷺ نے فرمایاپہلے ا ونٹ کو بیماری لگانے والا کون ہے؟ (مسلم ۵۶۸۷)
آپ ﷺ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ماہ صفر میں کوئی نحوست نہیں۔ اس ماہ میں ہجرت کے پہلے سال مقامِ ابواء پر غزوہ ہوا جس میں آپ ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے۔ تیسری ہجری ماہ صفر قبیلہ عضل اور وقارہ کے لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔ اس ماہ صفر نو ہجری میں بنی عذرہ کے بارہ لوگوں نے دربارِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوکر بسروچشم اسلام قبول کیا۔اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جمشید پور پن کوڈ 831020 جھاڑ کھنڈ
09386379632