انجینئر تعظیم کشمیری
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشاد فرمایا،’’شَعْبَانُ شَھْرِیْ وَ رَمَضَانُ شَھْرُ اللّٰہ‘‘ یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، یہ وہی قابلِ احترام مہینہ ہے کہ جب رجب المرجب کا چاند نظر آتا توحضور علیہ الصلوۃ و السلام یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔’’ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَانَ ‘‘(مشکوۃ المصابیح:رقم الحدیث 1396) ’’اِلٰہی رجب اور شعبان میں ہمیں برکت دے اور ہم کو خیریت کے ساتھ رمضان تک پہنچادے‘‘یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا،تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا،تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ غزوۂ بنو المصطلق اسی ماہ میں پیش آیا، اسی مہینے میں آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے حضرت حفصہؓ اور جویریہ ؓ سے نکاح فرمایا،چنانچہ اسلامی سال کا یہ آٹھواں مہینہ اپنی رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے اعتبار سے مہتم بالشان اور ماہ رمضان کیلئے پیش خیمہ ہوتا ہے، اس مہینہ میں رمضان المبارک کے استقبال اور اس میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کے متعلق امت مسلمہ متفق ہے۔شعبان کے مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ صحابہ کرامؓ کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے، جس میں انہیں رمضان کے فضائل ومسائل بیان کرتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے۔اسی لئے ہم ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام، اس کی عظمت، اس کی فضیلت، اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس ماہ کی قدر دانی کی توفیق مرحمت فرمائے اور رمضان المبارک میں ہمیں اپنے اعمال کے ساتھ مساجد میں جمع فرمائے ۔ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کو’’شب برأت‘‘کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے برّی کردیاجاتاہے۔تقریباًدس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے،’’میں نے حُضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔‘‘(ترمذی شریف 127)۔ آپ ؓمزید فرماتی ہیں،’’ایک رات میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا،میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی تو آپؐ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا،’’بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں15ویں رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘(ترمذی حدیث: 739 )معلوم ہوا کہ شبِ برات میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہےلیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شعبان کی پندرہویں شب، شبِ برات کہلاتی ہے یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بّری کردیاجاتاہےتقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔دوسری حدیث میں ہے،’’اس رات میںاس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیںاورتمہارارزق اتاراجاتاہے،اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ’’ اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور ،شرابی، قاتل، شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہےجوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرےکون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو۔ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں، قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائےلیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے،اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہےلیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوےاورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برات کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔
جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے، اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے، اس کانام اتباع اوردین ہے۔اس رات میں نوافل، تلاوت، ذکرواذکار کااہتمام کرنااس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے ۔یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہٰذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیںبلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں، دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے۔لہٰذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں شیطا ن کے شر سے محفوظ رکھےاور اس شب برات کی فضیلت سے فیض یاب عطا فرمائے اور یہ شب ہمارے گناہوں کے مغفرت کاباعث بن جائے۔آمین
(رابطہ ۔9797995330)
[email protected]