ماہر القادریؔ۳۰ جولائی ۱۹۰۷ء کو بلند شہر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام منظور حسین تھا۔انہوں نے عملی زندگی کا آغاز حیدر آباد دکن سے کیا، پھر بجنور چلے گئے۔ جہاں’ مدینہ بجنور‘ اور’ غنچہ‘ کے مدیر رہے۔ زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد دکن، دہلی، بمبئی میں گزرا اور پھر مستقل قیام کراچی میں رہا۔ چند ماہ ملتان میں بھی گزارے۔ اس کے علاوہ سیر و سیاحت کا بارہا اتفاق ہوا۔ ۱۹۲۸ء میں ریاست حیدرآباد کے مختلف محکموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ قیام حیدرآباد کے دوران میں جب نواب بہادر یار جنگ کی تقاریر کا طوطی بولتا تھا، نواب صاحب نے قائد اعظم سے ان کا تعارف یوں کرایاکہ’ میری تقریروں اور ان (ماہرالقادریؔ) کی نظموں نے مسلمانانِ دکن میں بیداری پیدا کی ہے‘۔
۱۹۴۳ء میں حیدرآباد سے بمبئی منتقل ہوگئے۔ وہاں فلمی دنیا میں کچھ عرصہ گزارا۔ کئی فلموں کے گیت لکھے جو بڑے مقبول ہوئے۔ اپنے فلمی تعلق پر وہ کبھی نازاں نہ رہے۔اس پر ان کا تبصرہ ان کے الفاظ میں سنیے :’چند دن فلمی دنیا سے بھی تعلق رہا۔ فلمی دنیا میں میرے لیے شہرت اور جلب منفعت کے بعض زرّیں مواقع حاصل تھے، مگر اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ میں اس دلدل سے بہت جلد نکل آیا۔ اس چند روزہ فلمی تعلق پر آج تک متاسّف ہوں۔‘
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی اور علمی جریدے ’فاران‘ کا اجرا کیا جو ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد تک جاری رہا۔مولاناماہر القادریؔ کے شعری مجموعوں میں ظہورِ قدسی (نعتیہ مجموعہ)، طلسمِ حیات ، محسوساتِ ماہر، نغماتِ ماہر، نقشِ توحید اور جذباتِ ماہر شامل ہیں ۔ ۱۹۵۴ء میں ماہر القادریؔ نے حج کے مشاہدات و تاثرات پر’ کاروان حجاز‘ کے نام سے کتاب تحریر کی۔مولانا گوناگوںمصروفیات کے باوجودسیروسیاحت کے لئے وقت نکال لیتے تھے۔خودلکھتے ہیںکہ:
’’راقم الحروف سیرسپاٹے کارسیااورتفریحی وقدرتی مناظرکاانتہائی شوقین ہے۔‘‘(فاران،اپریل ۱۹۸۳ء)
چنانچہ اسی شوق کی تکمیل میںانھوںنے نہ صرف پاک وہند کے ہرقابل ذکرتاریخی وتفریحی مقام کی سیاحت کی بلکہ مشرق وسطٰی،افریقہ اوریورپ کے مختلف ممالک کی سیرکی۔اس سلسلے میںوہ پہلی بار۱۹۳۳ء میںمفتی عبدالقدیربدایونی کی ہمراہی میںعراق گئے تھے اوروہاںانھوںنے بغداد ، کربلا ، نجف،کوفہ،مسیب،ذولکفل کی زیارت کی اوربابل ومدائن کے آثاردیکھے تھے۔مارچ ۱۹۶۹ء کوماہرالقادریؔ جنوبی افریقہ گئے۔وہاں’جشن نزول قرآن ‘ کونسل پروگرام میںشرکت کرناتھی۔افریقہ کے مختلف شہروںکے علاوہ کینیا،اٹلی، اسپین،انگلستان، پیرس،جنیوا،استنبول،بیروت،دمشق اورحجازِمقدس کی سیاحت کی۔چارماہ کے اس سفرمیںجب وہ بیروت سے جدّہ پہنچتے ہیںتولکھتے ہیں:
’’وہاںپہنچ کرایسامحسوس ہواکہ اب تک تومیںمسافر کی حیثیت سے سفرمیںتھا،اب میںاپنے وطن اورگھرمیںہوں۔دین کارشتہ دنیاکے تمام رشتوںسے زیادہ قوی اور پائیدارہے۔اس نسبت اورتعلق کے اعتبارسے ایک مسلمان کوسب سے زیادہ ربط ارض حجازہی سے ہوناچاہئے۔‘‘
’دین خانقاہی‘ کے عنوان سے طنزکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تابکے یہ کھیل دنیا کو دکھایا جائے گا
مضحکہ توحید کا کب تک اڑایا جائے گا
ماہرالقادری نے تادمِ آخرترقی پسندادب اورتحریک کی شدیدمخالفت کی۔اس مخالفت کاسبب یہ ہے کہ ترقی پسندتحریک ادب کے لبادے میںدراصل ایک سیاسی تحریک تھی،جس کامقصداشتراکی انقلاب کے لئے فضاہموارکرناتھا۔ناقدین کامانناہے کہ اس تحریک سے وابستہ ادیبوں کی تخلیقات نے مشرقی واخلاقی قدروںکوتلپٹ کرنے میںکوئی کسراٹھانہ رکھی۔پروفیسررشیداحمدصدیقی لکھتے ہیں:
’’ترقی پسندادب کے عناصرترکیبی یہ ہیں:عورت‘سرمایہ ومزدور‘انقلاب‘زندگی کی دیرینہ قدروںکوزندگی کی موجودہ مصیبتوںکاذمہ دار قرار دینا ‘ اپنوں سے مایوسی ‘ دوسروںسے بیزاری‘نفس کی حیوانی خواہشوںکواصلِ حیات سمجھنااوران کوتسکین دینے میںانتہائی بے باکی سے کام لینا‘احترام اورحفظِ مراتب کوزندگی کی لغت سے خارج کردینا،جدیدادب کے بڑے اہم اورمقبول مضامین ہیں۔‘‘(نقش ہائے رنگ رنگ۔ص۱۳۸)
ڈاکٹروحیدقریشی اس’ مرحوم‘ تحریک کے بارے میں دلیل وبراہین سے ثابت کرتے ہیںکہ:
۱۔ اس تحریک کی قیادت کمیونسٹوںکے ہاتھ میںتھی۔وہی اس کی پالیسیاںمرتب کرتے تھے۔
۲۔ اس تحریک کی پالیسی متحدہ ہندوستان کے حق میںتھی۔
۳۔ ترقی پسندتحریک کے مطابق پاکستان انگریزوںکی سازش کے نتیجے میںوجودمیںآیاتھا۔
۴۔ قیامِ پاکستان کے بعدترقی پسندادباء وشعراء نے مسلسل ومتواترآزادی کو’فریبِ آزادی‘ اورسحرکو’شبِ تار‘کے نام سے یادکیا۔
(’ترقی پسدتحریک اپنے آئینے میں۔‘ہفت روزہ’زندگی ‘لاہور۔۹فروری ۱۹۷۰،ص۳۵)
ترقی پسندادیب پاکستان کے قیام کے حق میںنہیںتھے۔ڈاکٹرمحمدالدین تاثیرجوکہ اس تحریک کے بانیوںمیںتھے لیکن بعدازاںاس سے علٰیحدگی اختیارکی،کے بقول سجادظہیرنے لکھاکہ’’ہرایماندارشخص کافرض ہے کہ وہ کشمیرکوہندوستان سے ملانے کی کوشش کرے۔‘‘(مقالات تاثیر از ممتاز اختر مرزا ۔ ص۲۹۰)یہاںتک کہ احتشام حسین نے لکھاکہ ہم ہنداورپاکستان کوایک کرکے دم لیںگے۔(ایضََا،ص۲۹۴)
چنانچہ اس مزاج اوران کی پالیسی کوماہرالقادریؔ سمجھ گئے تھے ،اسلئے ان کاخوب تعاقب کیا۔ماہرجب بمبئی پہنچے توانہوںنے دیکھاکہ ہندوستان بھرکے کمیونسٹ وہاںجمع ہیں۔علی سردارجعفریؔ،کیفی اعظمیؔ،ساغرنظامیؔ اورجوش ملیح آبادی ؔجیسے لوگ وہاںموجودتھے۔جواپنی تحریروںمیںمذہبی اقدارکامذاق اڑاتے اوردینی شعارکے معاملے میں تضحیک کاکوئی موقع ضائع نہ کرتے۔ماہرؔنے بقول اسمٰعیل مینائی،ؔترقی پسندوںسے چومکھی جنگ لڑی اورضرورت پڑی تو’رفعِ یدین‘سے بھی گریزنہ کیا۔(فاران،مئی ۱۹۸۴ء۔ص۴۶)
ترقی پسندوںسے مقابلے کے لیے ماہرؔنے بمبئی میں’’حلقئہ فکرونظر‘‘(۱۹۴۵ء) قائم کیا۔جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت محمودآباد کے راجہ نے کی۔ماہرنے وہاں ترقی پسندوںکاتعاقب کیااوراس کے نتیجے میںعوام میںاس کی جس طرح ہوااکھڑی،اس پریہ لوگ بہت سٹپٹائے۔سجادظہیرؔنے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا:
’’رجعت پسندی بانجھ ہوتی ہے۔اس کی کوکھ سے فن وادب کی تخلیق نہیںبلکہ تحقیروبربادی ہی پیداہوتی ہے۔چنانچہ بعض کٹراورفرقہ پرست حلقے اورافرادترقی پسندادب کی تحریک پرحملے کرکے اوراس پربے بنیاداورلغوالزامات لگاکراس غلط فہمی میںمبتلاتھے کہ وہ اسلامی کلچراوراردوزبان کی خدمت کررہے ہیں۔‘‘(روشنائی،ص ۳۶۸)
ترقی پسندوںنے تحسینِ باہمی کاجواندازاختیارکیااورجانبداری کاجوماحول پیداکیاتھا،اس پرماہرؔیوںتبصرہ کرتے ہیں:
’’ان لوگوںنے دھڑے بندی قائم کررکھی ہے۔آپس میںایک دوسرے کی شاعری اورانشاپردازی پرمضامین لکھتے ہیں۔پروپیگنڈے کافن ان کوخوب آتاہے اوراسی پروپیگنڈے کے زورپرانھوںنے ان لوگوںکو’صدر‘میںبٹھارکھاہے،جوصفِ نعال میںبھی مشکل ہی سے بیٹھنے کے قابل ہیں۔۔۔۔اپنے ٹھیکروںکویہ لوگ مانجھ مانجھ کر بازار میںلاتے ہیںاوردوسروںکے لعل وگوہرکوچاہتے ہیںکہ گمنامی کے گردوغبارمیںدبے پڑے رہیںاوراس پردعوٰی یہ کہ ہم طبقوںاورفرقوںکے تعصب آمیزتقسیم کومٹادینا چاہتے ہیں۔حالانکہ یہ لوگ خودانتہادرجہ کے متعصب،فرقہ پرست اورگروہ سازواقع ہوئے ہیں۔‘‘(فاران،اگست ۱۹۵۱ء،ص۲۰)
ماہرالقادریؔ ایک منصف مزاج نقادتھے۔چنانچہ انھوںنے ترقی پسندوںکی جزوی خوبیوںکی تعریف بھی کی ہے۔لکھتے ہیں:’’ترقی پسندی نے شعروادب کوکوئی شک نہیںایک نیاآہنگ عطاکیاہے۔جہاںاس آہنگ کوسازکے پروںکی طرح مناسب ترتیب اور موزوں زیروبم میسرآجاتاہے، وہاںکیف ونغمہ کاسماںبندھ جاتاہے،لیکن اکثرمقامات پریہ جدیدآہنگ ذوق ووجدان کومتوحش بھی بناتاہے۔اس میںلطافت کم اورکرختگی زیادہ ہے ۔‘‘ (فاران،اکتوبر۱۹۶۵ء۔ص۳۵)
ماہرؔنے شاعری میںبھی اس تحریک پرتنقیدکی ہے۔’مزدورسے خطاب‘کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؎
تجھ کوکچھ لوگ ملیںگے،جوکہیںگے تجھ سے
آادھرآکہ ترے غم کا مداوا کر دیں
تیری قسمت کے ستاروںکوتجلی دے کر
تیری راتوں میں اجالاہی اجالا کر دیں
ان کی باتوںمیںنہ آنا کہ بہ نامِ تریاق
زہرکے جام مریضوں کو پلا دیتے ہیں
اور
یہی وہ لوگ ہیںجوسرخ سویرے کے لئے
خونِ مزدور شرابوں میں ملادیتے ہیں
ماہرالقادریؔ نے اردوزبان کی حمایت اورمدافعت میں’فاران‘کے صفحوںپر متعدداداریے قلم بندکئے۔ایک جگہ رقمطرازہیں:’’اردوزبان سچ مچ کوثروتسنیم میںدھلی ہوئی زبان ہے۔اس زبان میںکتنی شیرینی ،سلاست،سادگی،روانی اورنغمگی ہے۔اس کوعجم کاحسنِ طبیعت بھی میسرہے اورعرب کاسوزِدروںبھی۔یہ قلعہ معلٰی سے لے کرجھونپڑیوںتک کے تمدن وتہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔‘‘(فاران،ستمبر۱۹۶۷ء۔ص۸)
ماہر القادریؔکاایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوںنے تمثیل کے پیرائے میںقرآن کی فریادمسلمانوںکو سناکر واضح کیا ہے کہ عام مسلمانوںکی عملی دنیا میں قرآن کریم سے لا تعلقی کس نوعیت کی ہے۔’قرآن کی فریاد‘کے نام سے دلوںکودستک دینے والے وہ الفاظ دراصل قرآن کریم کامسلمانوںسے شکوہ ہے۔وہ مسلمان جنھوں نے اس کتابِ ہدایت کوطاقوںکی زینت،جُزدان کی رونق،تعویزکی شکل دے کرظاہری امراض کاتریاق،بس کار ثواب،قول وقسم تک ہی عقیدت اوراس کے حق کوصرف تلاوت و قرات تک ہی محدودرکھاہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کااظہاراس نظم میںماہرؔنے کیا ہے۔وہ نظم برِصغیرکے بچے بچے کی زبان پرہے۔بچپن میںاس نظم کوہم سبھی بے سوچے سمجھے گنگنایاکرتے تھے۔ماہرالقادری’قرآن کی فریاد‘کوزندہ دلوںتک یوںمنتقل کرتے ہیں،ؔ فرماتے ہیں ؎
طاقوںمیںسجایاجاتاہوں،آنکھوںسے لگایاجاتاہوں
تعویذبنایاجاتاہوں،دھودھوکے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریروریشم کے،اورپھول ستارے چاندی کے
پھرعطرکی بارش ہوتی ہے،خوشبومیںبسایاجاتاہوں
جس طرح سے طوطے میناکو،کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایاجاتاہوں،اس طرح سکھایاجاتاہوں
جب قول وقسم لینے کے لئے ،تکرارکی نوبت آتی ہے
پھرمیری ضرورت پڑتی ہے،ہاتھوںپہ اٹھایاجاتاہوں
قرآن کا شکوہ اس بندمیںعروج پرہے ؎
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے،قانون پہ راضی غیروںکے
یوںبھی مجھے رسواکرتے ہیں،ایسے بھی ستایاجاتاہوں
کس بزم میںمجھ کوبارنہیں،کس عُرس میںمیری دھوم نہیں
پھربھی میںاکیلارہتاہوں،مجھ سابھی کوئی مظلوم نہیں
ماہرالقادری ؔکی یہ نظم صاحب دل فردکیلئے واقعی ایک تازیانہ ہے۔حقیقت کی عکّاسی ہے۔مدرسہ ہو یاخانقاہ،کالج ہویا یونیورسٹی ، بازار ہوں یا دفاتر ، غرض قرآن کی اصل روح سے سب لاتعلق ہیں۔یہ نظم پڑھ کے پاکستان کے مشہورادیب ممتازمفتی مرحوم کی بات سے اتفاق کرناپڑتا ہے کہ’ہم لوگوںنے قرآن کوبہت ہی مقدّس شے جان کرخودسے دورکردیاہے۔طاق میںسجادیاہے۔صرف ثواب کی خاطریاکسی مقصدکی خاطرپڑھاجاتاہے۔حالانکہ یہ زندگی کی کتاب ہے۔اسے توہمارے ٹیبل پرہوناچاہئے کہ ہم اپنے مسائل اورروزمرہ کے اعمال کی جانکاری حاصل کرسکیں۔‘لیکن افسوس قرآن کے ساتھ مسلمانوں کی اکثریت کاایساتعلق نہیںہے۔
ماہرالقادری ؔنے تمام عمرادبی اوراخلاقی اقدارکوعزیزرکھا۔ان کی زندگی کے مختلف حوالے ہیںاورہرحوالہ معتبرہے۔مرحوم اپنی ذات میںایک تہذیبی ادارہ تھے۔اسلامی اقداروروایات سے ان کاگہراقلبی تعلق تھا۔شایداسی وجہ سے برصغیرمیں اردوادب کے اجارہ داروںنے اُن کی وہ قدرنہ کی جس کامرحوم حق رکھتے ہیں۔ماہرالقادریؔ کی تنقیدی بصیرت کوبھی نظراندازنہیںکیاجاسکتا۔انھوںنے اپنے اشعارمیںآرزوکی تھی کہ انھیں حرمِ شریف یامدینۃ الرّسولﷺ میںداعیِ اجل کابلاواآئے،اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کی اور۱۲مئی۱۹۷۸ء کوماہرالقادریؔ جدہ کے ایک مشاعرہ کے دوران انتقال کرگئے اور مکہ مکرمہ میں کعبہ سے جنوب مشرق کی جانب ’جنت المعلٰی‘ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ع
آں قدح بہ شکست و آںساقی نماند
رابطہ :ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو ،کشمیریونیورسٹی،سرینگر