سبدر شبیر۔ اہربل
بچے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور والدین کے لیے مسرت و راحت کا باعث ہوتے ہیں، لیکن یہ خوشی تبھی حقیقی معنوں میں مکمل ہوتی ہے جب ان کی پرورش اعلیٰ اخلاقی اور دینی اقدار کے تحت کی جائے۔ ایک بچہ ایک بے تراشیدہ ہیرا ہوتا ہے، جس کی اصل چمک محنت، توجہ اور رہنمائی سے نکھرتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک ننھا سا پودا مناسب آبیاری کے بغیر تروتازہ نہیں رہ سکتا۔
بچہ۔ ایک خالی تختی: بچہ فطری طور پر ایک معصوم دل اور غیر تراشیدہ ذہن کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ اس کی شخصیت اور نظریات کا خمیر اس ماحول سے اٹھتا ہے جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی تربیت اس کی زندگی کا پہلا اور سب سے اہم سبق ہوتی ہے۔ ماہرین ِ نفسیات بچے کے ذہن کو Tabula Rasa یعنی ایک خالی تختی قرار دیتے ہیں، جس پر ابتدائی نقوش ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔
گھر۔ پہلی درسگاہ:تعلیم صرف اسکول اور مدرسے کی حد تک محدود نہیں، بلکہ بچے کا پہلا مدرسہ اس کا اپنا گھر ہوتا ہے اور اس کے پہلے استاد اس کے والدین ہوتے ہیں۔ بچے اپنے ارد گرد کے ماحول کو ایسے جذب کرتے ہیں جیسے زمین بارش کے پانی کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اگر وہ محبت، عزت، شائستگی اور نظم و ضبط کے سائے میں پلیں گے تو یہی خوبیاں ان کی فطرت کا حصہ بن جائیں گی، لیکن اگر وہ تلخی، غصے، بے راہ روی اور غفلت کے ماحول میں پروان چڑھیں گے تو ان کی شخصیت میں یہ منفی اثرات جھلکنے لگیں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔‘‘
والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کو ایسا ماحول فراہم کریں جہاں سچائی، دیانت، عزت و احترام اور دینی شعور کی آبیاری کی جائے۔ اگر والدین بچوں کو ایمانداری، صبر، شکرگزاری اور عجز و انکساری کا درس دیں گے، تو وہ نہ صرف ایک باکردار فرد بنیں گے بلکہ معاشرے کے لیے بھی باعثِ رحمت ثابت ہوں گے۔
اخلاق و ایمان کی آبیاری:والدین کا فرض صرف بچوں کے جسمانی ضروریات پوری کرنا نہیں، بلکہ ان کی روحانی و اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ صرف تعلیمی قابلیت کافی نہیں، بلکہ اچھے اخلاق، نرم گفتاری، دوسروں کے حقوق کا احترام، اور زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنا بھی ایک کامیاب انسان کی پہچان ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو نرمی سے گفتگو کرنے، دوسروں کی چیزیں بغیر اجازت استعمال نہ کرنے، بڑوں کا ادب کرنے اور ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دیں۔ انہیں سکھایا جائے کہ یہ دنیا فانی ہے، اور ہماری اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے۔ اگر ہم نے اپنی زندگی دین کے اصولوں کے مطابق گزاری، تو دنیا بھی سنورے گی اور آخرت بھی۔
برائیوں سے بچانے کی ذمہ داری: بچوں کو غرور، حسد، جھوٹ اور دھوکہ دہی جیسے مہلک رویوں سے محفوظ رکھنا والدین کی سب سے بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ بچہ فطری طور پر
ایک پاکیزہ دل لے کر آتا ہے، لیکن اگر اسے بچپن ہی سے غلط راستے پر ڈال دیا جائے تو اس کی معصومیت آلودہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں نرمی، محبت اور شفقت کو جگہ دیں اور سخت الفاظ، بے جا تنقید اور بدکلامی سے گریز کریں۔
ماہرین ِ نفسیات کے مطابق بچوں کے ابتدائی سال ان کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے ایک کم عمر پودے کو آسانی سے سیدھا کیا جا سکتا ہے، ویسے ہی بچوں کو ابتدائی عمر میں بہترین تربیت دے کر ان کی شخصیت کو مثبت سمت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، تو بعد میں سدھار لانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔
غفلت۔ ایک خاموش زہر:بدقسمتی سے بعض والدین اپنے معاشی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسا بچہ جسے صحیح رہنمائی نہ ملے، وہ آسانی سے گمراہی کا شکار ہو سکتا ہے۔ والدین کی لاپرواہی بچے کی شخصیت پر زہر آلود اثر ڈالتی ہے، جو آہستہ آہستہ اس کے کردار کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔والدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف اچھا کھانا، عمدہ لباس اور بہترین سہولیات فراہم کر دینا کافی نہیں، بلکہ بچوں کو نیک سیرت اور باکردار بنانے کے لیے عملی نمونہ پیش کرنا سب سے اہم ہے۔ اگر بچے کی تربیت میں کوتاہی برتی گئی، تو وہ مستقبل میں خود کے لیے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
والدین کے لیے دعا: اللہ تعالیٰ تمام والدین کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش نیک نیتی، دانائی اور بہترین اصولوں کے مطابق کریں۔ ہمیں یہ شعور اور ہمت دے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں سچائی، دیانت، رحم دلی اور دینی بصیرت کو جگہ دے سکیں، تاکہ وہ دنیا میں روشنی کا مینار بنیں اور آخرت میں ہمارے لیے باعثِ اجر ثابت ہوں۔
رابطہ۔9797008660
[email protected]