اب یہ بات دن بہ دن عیاں و بیان ہوتی جارہی ہے کہ انسان کی لالچ ،ہوس اور غلط طرز عمل سے دنیا بھر میں جہاںقدرتی ماحول میں زبردست بگاڑ پیدا ہوچکا ہےوہیں تواتر کے ساتھ بڑھ رہی آلودگی بھی ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے،جس کے نتیجے میںنہ صرف خود انسان کی اپنی زندگی مختلف قسم کی بیماریوں کی آماج گاہ بن گئی ہے بلکہ بحر و بر میں موجود دوسرے کئی مخلوق کی حیات بھی تنگ ہوگئی ہے۔جس کی ایک چھوٹی سی تازہ مثال گزشتہ روز اُس وقت ہمارے سرینگر شہر میںبھی سامنے آئی ہے، جب جھیل ڈل سے نکلنے والی ژونٹھ کوہل جوکہ بربر شاہ اور گائوکدل علاقے سے گذر کر دریائے جہلم میں سمو جاتی ہے،میں ہزاروں مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اگرچہ اس سے چند سال قبل بھی چھتہ بل اور دانامزار علاقوں میں دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر لاکھوں کی تعداد میں مُردہ مچھلیاں پائی گئی تھیں۔جس پر حکام یہی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ پانیوں میںآکسیجن کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ،مگر دریائوں اور ندی نالوں کے پانیوں میںآکسیجن کی کمی کا سبب کیا ہے،اس پر شائد غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ظاہر ہے کہ آلودگی کے باعث موسمی تغیرات نے زمین کی پیداواری صلاحیت پر بھی بُرا اثر ڈالا ہےاور کرۂ ارض میں موجودہر مخلوق کی زندگی کو نقصان پہنچائی ہے۔جس کے نتیجے میںاب کہیں نہ کہیں جہاںسیلا ب،آندھی ،طوفان ،بگولےآنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے،وہیں پہاڑیاں کھسکنے،چٹانیں گر آنے ،زمین و سڑکیں دُھنسنےکے واقعات ہوتے رہتے ہیں،جن سےبڑے پیمانے پر رہائشی مکانات اور دوسرےاملاک کا نقصان ہورہا ہےاور انسانی جانیں بھی تلف ہورہی ہیں۔ اگرچہ اس معاملے میںہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سےہورہا ہے، مگر اس حقیقت کو فراموش کر تے جارہے ہیں کہ ہم بھی تو اِس بگاڑ میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔اکیسویں صدی کی دو دہائیوں میں کی جانے والی تحقیق اور اس ضمن میں ہونے والی عالمی کانفرنسیں بھی یہ ثابت کرچکی ہیں کہ کوئلے اور تیل کے بڑھتے ہوئے استعمال، مضر گیسز کے زبردست اخراج، دُھوئیں اور آلودگی سے فضائی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے اوریہ آلودگی ہمارے لئےروز مرہ استعمال ہونے والے غذائی اَجناس کو بھی مضرِ صحت بنارہی ہے۔ جن سے انسانی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ظاہر ہے کہ اگر ماحول میں بگاڑ قدرتی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر اس کا سدّباب بھی قدرتی طور پر ہوناچاہیے۔لیکن کرئہ اَرض پر قدرتی ماحول میں بگاڑ اور اس پر موجود حیاتیات کو درپیش مسائل انسانی عمل اور غیرقدرتی عوامل کا ہی نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے فضا ،پانی اور زمین میں زہریلے اور کیمیائی مادّے شامل ہوتے جا رہے ہیں،جس سے زمین کے فطری ماحول پر منفی بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے توماحولیات میں بگاڑ میں جدید سرمایہ داری اور اجارہ دار نظام کا بھی ہاتھ ہے۔اگرچہ دُنیا کے زیادہ تر امیر ممالک تمام حقایق سے آگاہ ہیںلیکن اپنی زرگری اور دولت میں اضافے کی حرص کی وجہ سے ماحول میں سدھارلانے اور آلودگی میں کمی لانے پر توجہ نہیں دے رہےہیں۔اپنی اس وادیٔ کشمیر میںشہر اور دیہات پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو، ذرائع نقل و حمل اور ٹریفک کے ہجوم کا بڑھتا ہوا مسئلہ بھی ہمارے یہاں آلودگی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ شہری آبادی میں اضافے کا دبائوجس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اُس کے لیے شہر کے وسائل قطعی ناکافی ہیں۔ شہر اور دیہات کے کوڑے کرکٹ ،کچرے اور غلاظت کا بہت بڑا حصہ دریائےجہلم،ڈل ،و ولر اوردیگر جھیلوں کے علاوہ یہاں کے ندی نالوں اور چشموں میں ہی ڈالاجارہا ہے، ہمارے اس طرزِ عمل سے نہ صرف ان میں موجود آبی حیات کا ستیا ناس ہورہا ہے، بلکہ اس سے آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دیگر سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔یہاں کی سرکاری انتظامیہ مسائل حل کرنے اور آلودگی میں اضافے کی روک تھام سے قاصر نظر آرہی ہےتو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطۂ زمین کی سلامتی اور آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے آج کی نسل کو ضرور سوچنا چاہئے اور یہاں کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔