مولانا نعمان نعیم
انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ زمین پر موجود تمام نعمتوں کو درست انداز میں استعمال کر کے ان سے بہرہ مند ہونا تھا۔ وہ اپنے ماحول کی دیکھ بھال کرتا، تاکہ وہ خود اور اس کی آنے والی نسلیں اس فطری قانون کے ذریعے حاصل ہونے والی نعمتوں سے سرفراز ہو، اور یہ عالم تمام انسانوں کےلیے گہوارۂ امن و سلامتی ہوتا، لیکن انسان ہی کی بداعمالیوں اور مفاد پرستی کی سوچ نے اس خدائی نظام میں رخنہ ڈال دیا ہے، انسانی کرتوتوں کے نتیجے میں دنیا کے اندر مختلف قسم کی آلودگیوں نے سر اٹھایا ہے، جس سے دنیا ایک عظیم فساد کی زد میں ہے، جس کو فساد عظیم ہی کہنا مناسب لگتا ہے۔ دراصل فساد، نظام فطرت میں تبدیلی لانے، بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی ماحول اور گردو پیش کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ نے جو انتظام و انصرام کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے کا نام ہے۔لہٰذا جو لوگ قوانین فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں یا بدل رہے ہیں اور نظام فطرت کو درہم برہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یا ایسے اسباب و عوامل پیدا کر رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے، ہوا کی کثافت، فضاء کی آلودگی اور پانی کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے انسانی وجود کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ماحول پر آلودگی کے مختلف اندازوں سے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہم صرف ماحول کی چار بنیادی ماحولیاتی آلودگیوں پر تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں بحث کریں گی جو کہ حسب ذیل ہیں:۱۔ فضائی آلودگی ۲۔ زمینی آلودگی ۳۔ آبی آلودگی ۴۔ صوتی آلودگی۔
’’فضاء‘‘ انسانی حیات کے بقا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ یکساں طور پر حیوانات، نباتات، انسانوں اورنظر نہ آنے والی کئی مخلوقات کےلیے زندگی کی ضمانت ہے۔جس کے تحت ہم اپنی چوبیس گھنٹوں کی زندگی کے دوران حرکات و سکنات بجا لانے، کام کاج کرنے اور زندہ رہنے کےلیے فضا ہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
فضا کی وسعتوں میں نرم و نازک ہوائیں چلتی ہیں، جن کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی منشاء و مراد سے کسی علاقے یا خطے کے لوگوں کو اس بارش رحمت سے سیراب فرماتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’ وہی ہے جس نے چلائیں ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے آگے اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاکی حاصل کرنے کا۔‘‘(سورۃ الفرقان: ۴۸) ’’اور وہی ہے کہ چلاتا ہے ہوائیں خوش خبری لانے والی اپنی رحمت سے۔‘‘ (سورۃ الاعراف:۵۷)
پھر اسی بارش سے زمین پر گل و گلستان، ہریالی اور خوشی بھرے ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور دیگر جانداروں کے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ فضا کے اندر یہ مختلف فطری قسم کی تبدیلیاں مثلاًہوا کے اندر آکسیجن کی کثرت، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، دھوپ،گرمی سردی کا اتار چڑھاؤ پھر موسمی تبدیلیاں یہ سب کچھ ایسا توازن بھرا نظام ہے جو کہ انسانی حیات اور دیگر جانداروں کی زندگی کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو جب مختلف طریقوں سے تبدیل کیا گیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی جس سے فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے، فضا کی اسی نوعیت کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ ؐنے ایسی تمام چیزوں سے منع فرمایا ہے جن سے آگ اور دھواں (فضائی آلودگی) پھیلتی ہو اور وہ انسانوں کےلیے ضرر رساں ہوں۔ ہوا ہو یا پانی یہ دونوں آب و ہوا کے نام سے ماحول کا حصہ ہیں، نبی کریمؐ نے ان کی حفاظت کی تعلیم دی ہے اور انہیں آلودہ کرنے سے منع کیا ہے۔ آب وہوا کو آلودہ کرنے کا ایک سبب کھلی جگہوں پربول وبراز کرنا بھی ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’بچو تم لعنت کے دو کاموں سے۔ (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا: وہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ایک تو راہ میں(جدھر سے لوگ جاتے ہوں) پائخانہ کرنا، دوسری سایہ دار جگہ میں(جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں)پائخانہ کرنا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ)فضائی آلودگی کوختم کرنے میں درختوں اور جنگلات کا اہم کردار ہے، آپؐنے ایک طرف شجرکاری کی ترغیب دی ہےاور ان کے کاٹنے اور ضایع کرنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:’’اگر تم میں سے کسی پر قیامت آجائے اور اس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اسے چاہیے کہ گاڑدے۔‘‘اس سے واضح ہوتا ہے کہ مؤمن زندگی کی کوئی امید نہ بھی دیکھے، تب بھی اسے فطرت (نیچر )کی حفاظت کرنی چاہیے، کیوں کہ اپنی ذات میں نیچر ایک حسن ہے، گرچہ کسی انسان کو اس سے فائدہ نہ بھی ملتا ہو۔
اس کرۂ ارض کا ایک تہائی خشکی جبکہ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ زمین کا جو ہر مٹی ہے اور وہی انسانیت کی ابتدا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:بنایاآدمی کوکھنکھناتی مٹی سےجیسے ٹھیکرا۔‘‘(سورۂ الرحمٰن:14) ارشاد پاک ہے:تونے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں۔‘‘(سورۃ الحج: ۶۵)
اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ہر طرح سے سنوارا اس کے اوپر درخت پیڑ پودے اُگائے۔ پانی کی نہریں اور چشمے جاری کئے۔ سرسبز شاداب کھیتیاں ہرے بھرے جنگلات بنائے، پھول پھل پیدا کئے،روشنی وتاریکی، آب و ہوا کے منظم انتظامات جاری کئے، تاکہ انسانوں کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہو۔تاہم حضرت انسان نے اپنی بے ترتیب طرز حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ وہ انسان ذات کے لئے امن و اطمینان کا باعث بننے کے بجائے وہ کسی طرح بھی انسان کو روند رکھنے کے در پے ہے۔ صنعتی ترقی جو درحقیقت ماحولیاتی تنزلی ہے، نے فطری ماحول کوابتر سے ابتر بنا لیا ہے۔
زمینی آلودگی کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ،جن میں کچھ وہ ہیں جو قدرتی ہیں جبکہ دوسری انسانی نقل و حرکت کے باعث بنتی ہیں۔ انسانی استعمال میں لائی ہوئی چیزیں، فضلہ جات، ٹھوس اور مادی چیزوں کے انبار،صفائی کے نتیجہ میں اکٹھے ہونے والی چیزیں، تعمیرات اور کارخانہ جات کے فالتو مٹیریل پرانی گلی سڑی چیزیں زرعی اور صنعتی فضلہ جات اور دیگر
چیزیں زمین کی آلودگی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔حضورؐنے نہ صرف زمین کے درست استعمال کی ترغیب دی ہے ،بلکہ غیر آباد زمین کو آباد رکھنے سے حاصل ہونے والے فوائد کےلیے بھی ترغیب دی ہے، اور کسی درخت کے لگانے، بیج بونے یا پیاسی زمین کو سیراب کرنے کے کاموں کو نیکی اور احسان والے اعمال قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:’ جو شخص کسی غیر آباد زمین کو آباد کرتا ہے تو وہ اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔‘‘ اس زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر اس پانی کا سب سے زیادہ ۹۷ فیصدحصہ سمندروں کی صورت میں موجود ہے۔ ۲ فیصدبرف کے پہاڑ ہیں، جن سےبرف باری اور بارش ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی درجہ حرارت بڑھنے کی بدولت یہ پانی دریاؤں اور نہروں کی صورت میں خشکی پر لانے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور پھر زیر زمین پانی ہی انسانوں کو سب سے زیادہ کام آتا ہے۔پانی کا فطری طور پر ایک خاص رنگ و بو اور ذائقہ ہے، جب مضر صحت مادہ کی بعض اشیاء پانی کے اس فطری خواص کو بدل دیں تو یہ ’’آلودہ پانی‘‘ کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مٹی، ریت اور کچرے کی وجہ سے قدرتی طور پر پانی آلودہ ہوتا ہے۔
اسی طرح انسانی کسب کے نتیجے میں بھی آبی آلودگی پھیلتی ہے مثلاً صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو آبی گزر گاہوں اور نہروں میں پمپ کیا جاتا ہے، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب ہے۔ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ سمندری آلودگی کا سبب خام تیل اور دیگر استعمال شدہ چیزوں کا سمندر میں پھینکنا ہے۔یہ تمام چیزیں مل کر پانی کے فطری خواص کوختم کردیتی ہیں ،نتیجے میں پانی صحت اور انسانی استعمال کےلیے بےحد مضر ہوجاتا ہے۔ آنحضرتؐ کی مبارک تعلیمات میں اس آبی آلودگی کا سدباب کرنے کا پورا سامان موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔
صوتی یا آواز کی آلودگی کا تعلق سننے اور انسانی سماعت سے ہے۔ سماعت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے کہ انسانی پیدائش کے بعد سب سے پہلے جسے شمار کیا گیا ہے، وہ سماعت ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:’’اور دیئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل، تاکہ تم احسان مانو۔‘‘(سورۃ النحل:78)
صوتی آلودگی کا پریشر اور تسلسل انسانی اعصاب اور اس کی جسمانی توانائیوں کو یک سر متاثر کرتا ہے۔ بسا اوقات انسان اس صوتی آلودگی کی بدولت معذور ہوجاتا ہے۔قرآن نے صوتی آلودگی کو ایک منفرد انداز میں نمایاں کیا ہے۔اسلام نے صوتی آلودگی کو کم کرنے کا کتنا اہتمام کیا ہے کہ اونچی آواز میں بولنے کے بجائے خود فضول بولنے کو بھی ناگوار تصور کیا گیا ہے اور سکوت و خاموشی کو پسندیدہ عمل شمار کیا گیا ہے،جس طرح آپ ؐنے فرمایا: ’’جو خاموش رہا، نجات پاگیا۔‘‘
ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے بولنا بھی ایذا رسانی کی ایک صورت ہے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی تلاوت جیسی عبادت کو بھی ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں ناپسندکیا گیا ہے جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل آئے یا تکلیف کا باعث ہو۔
نبی کریم ؐ نے آواز کو عام حالات میں بھی نیچا رکھنے کی تعلیم فرمائی ہے اور اس بات کی اس حد تک اہمیت مد نظر رہی ہے کہ وعظ و نصیحت میں بھی آواز کو پست رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں۔ایک مقام پر فرمایا گیا’’تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے، سورج ، چاند ، تارے، پہاڑ ، درخت ، جانور اور بہت آدمی اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا عذاب۔‘‘(سورۃ الحج:18)یہ آیات اس طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان چوں کہ اسی ماحول کا حصہ ہے، اس حیثیت سے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دوسرے ماحولیاتی عناصر کی حفاظت کرے اور انہیں تلف ہونے سے بچائے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماحولیات کے دوسرے عناصر کو بھی اس کے تابع بنا دیا ہے، جیسے: سورج، چاند اور حیوانات وغیرہ۔ انسان پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ان پر بے شمار نعمتوں کا شکرانہ ہوگا۔
آنحضرتؐ کی مبارک زندگی تمام انسانوں کی ابدی کامرانی کی ضامن ہے اور زندگی کے تمام مسائل میں آپؐ نے اپنی امت کو بہم ہدایت کا سامان مہیا کیا ہے۔اس لئےایک مسلمان اور حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے سچے امتی کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے قابل وثوق انداز میں آپؐکی تعلیمات کو جاننا اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اسلام نے جہاں ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کے اقدامات کئے ہیں، وہیں آلودہ ماحول سے انسانوں کی حفاظت کی خاطر پر حکمت اعمال کو انسانوں کی عبادات اور عادات میں شامل کردیا ہے جن کی وجہ سے انسان آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔بہرحال فضائی آلودگی ، زمین کی آلودگی اور آبی آلودگی کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں،جنہیں اختیار کرنے سے یقیناً ان آلودگیوں کی بحث ہی ختم ہوجائے گی۔اسلام تکلیف دہ ہنگاموں اور شوروغل کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور اس نے ماحول کو معتدل رکھنے کے لئے آواز میں اعتدال کی تعلیم دی ہے، تاکہ شور وہنگامے کی کیفیت پیدا نہ ہو، اور کسی کی آواز کسی کے لئے باعث اذیت نہ ہو ۔یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ان تمام ترآلودگیوں پر روک لگائی ہے، اور ایسے جامع احکام اور تعلیمات دیے ہیں ،جن سے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوتا اور پاک صاف ماحول اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)