امتیاز خان
صحافت دنیا کا شائد وہ واحد شعبہ ہے جہاں ہر نومولودچند روز میںہی صحافی اور سینئر تجزیہ کاربن جاتا ہے۔صحافت دن بھر کے واقعات کو تحریر میں نکھار کر، آواز میں سجا کراور تصویروں میں سمو کر انسان کی اُس خواہش کی تکمیل کرتی ہے جس کے تحت وہ ہر نئی بات جاننے کیلئے بے چین رہتا ہے۔ تکنیکی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو شعبہ صحافت کے کئی معنی اور اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تغیرات سے کوئی بھی چیز اچھوتی نہیں لہٰذا صحافت بالخصوص اردو صحافت کی شکل بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے۔ ممکن ہے کہ چند سال بعد اس کی وہ شکل بھی نہ رہ جائے جو اس وقت ہے۔موجودہ دورآئی ٹی انقلاب سے عبارت ہے اور یہ بات بڑی حوصلہ بخش ہے کہ صحافیوں کی نئی پود انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پوری طرح لیس ہے۔ان کے پاس اس کی صلاحیت بھی ہے اور وسائل بھی کہ وہ اسپاٹ رپورٹنگ کر سکیں ۔
انٹرنیٹ نے اردو صحافت کے دامن کو بھی امکانات سے مالامال کر دیا ہے۔اِس سے اِس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ اردو صحافت ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری زبانوں کی صحافت سے شکست کھانے والی نہیں ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئی بھی انقلاب جہاں اپنے دامن میں بہت سی خوبیاں سمیٹے ہوتا ہے وہیں وہ کچھ خامیاں اور برائیاں بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صحافتی اصولوں کا کسی حد تک جنازہ نکل چکا ہے جس سے اردو صحافت مبرا نہیں۔پچھلے چند برسوں کی طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو یوٹیوبرزکی ایک بہت بڑی تعداد نظر آئے گی، جن کے پاس نہ تو صحافتی تربیت ہے اور نہ تجربہ۔ آپ یوٹیوب کھولیں تو آپ کو اردو زبان میں لال پیلے رنگوں میںکوئی نہ کوئی ’بڑی خبر ‘ دیکھنے کو ملے گی جسے پیش کرنے والے ’اینکر‘کو آپ چیختے چلاتے ہوئے پائیں گے اور ’بڑافیصلہ آگیا، تہلکہ مچ گیا،بڑا انکشاف ‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ ویڈیوز نظر آئیں گی۔
آج سے چندسال قبل اچھی ویڈیو بنانے اور اسے ایڈٹ کرنے کیلئے مہنگے کیمروں، مخصوص سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی ضرورت پڑتی تھی، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ویڈیو ایڈیٹنگ کے مختلف سافٹ ویئر سیکھنا بھی ایک مشکل کام تھامگر اب موبائل فون کے کیمروں کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اور انتہائی آسان سافٹ ویئر کی فراہمی نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔اب کوئی بھی شخص تھوڑی سی کوشش سے ویڈیو بنا کر اور اس میں میوزک یا ’وائس اوور‘ لگا کر اسے کسی بھی پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کر سکتا ہے۔کئی یوٹیوب چینلوں کے نام بھی مین سٹریم چینلوں سے ملتے جلتے ہیں، اسلئے بہت سے لوگ بھولے سے بھی کلک کر دیتے ہیں اور ان کے ویوز(Views) لاکھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔اس صورتحال میں مستند صحافی یا صحافتی اداروں سے وابستہ نامہ نگار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان لوگوں نے تکینکی صلاحیت تو حاصل کر لی مگر کیا ان کے پاس صحافت کا کوئی تجربہ ہے؟کیونکہ پچھلے چند برسوں میں ان ’صحافیوں ‘کی جو نئی قسم وجود میں آ گئی ہے، ان میں سے اکثر نوجوانوں کے پاس کسی صحافتی ادارے یا نیوز چینل میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیںہے۔
جیسے ہی کسی بھی نو آموز صحافی کے ہاتھ میں کسی ویب یا یو ٹیوب چینل کا مائیک اور Logoہاتھ آتا ہے وہ لفظ ’مبینہ‘ کا سہارا لے کر کسی بھی شریف آدمی کی نہ صرف عزت اچھال سکتا ہے بلکہ کسی بھی کاروباری شخص کے کاروبار کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اسی بنا پر اکثر کاروباری شخصیات نے بھی یا تو میڈیا کارڈ لے رکھے ہیں یا پھر اپنے میڈیا ہائوس کھول کر خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
بیشتر صحافیوں کا موقف ہے کہ عوام مائیک تھامے ہر شخص کو صحافی تصور کرتی ہے اور جب بھی صحافتی اقدار سے ہٹ کر کوئی ویڈیو وائرل ہو تو تنقید کی زد میں سبھی صحافی آتے ہیں۔ بڈگام ضلع کے سویہ بگ نامی گائوں میں رواں سال پیش آنے والا دل دہلانے والا واقعہ ہی لے لیجئے جس نے عوام کو ششدر کرکے رکھ دیا ۔اس سانحہ کو یاد کرکے ہی انسان لرز جاتا ہے ۔بستی کی ایک دوشیزہ کو ایک درندہ صفت شہری نے نہ صرف موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ جسم کے مختلف اعضاء بھی کاٹ کر مختلف مقامات پر چھپا دئے تھے ۔یہ دردناک واقعہ کئی روز تک اخباروں اور نیوز چینلوں پر چھایا رہا لیکن عوام نے صحافتی عمل کے دوران کئی یوٹیوبرز کی بعض حرکات پر اعتراض کیا ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی دنوں تک یوٹیوبرزاس واقعہ پر انٹرویواورتبصرے کرتے دکھائی دئے اورکئی یوٹیوبر مائک ہاتھ میں لیکروہاں سے براہ راست عوام کو صحافت کی بلندیوں کی طرف ہانک رہے تھے۔ کئی ایک نے توکمال مستعدی سے دوشیزہ کی ماں کو ڈھونڈکر سوال پوچھ لیا کہ آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں۔ایک بے بس ماں یہ سوال سن کر رو دیتی ہے۔معلوم نہیں اس ماں پر کیا گزری ہو گی!اس پر طرّہ یہ کہ اس دردناک واقعہ کے دوران رپورٹر حضرات نے شدت جذبات سے کانپتے لہجے میں اپنے ناظرین کو یہ بھی بتایا کہ یہ اہم منا ظر صرف ہم آپ تک اس وقت براہ راست پہنچا رہے ہیں۔
اس طرح کے روئے سے جہاں صحافت کے شعبے میں نئے آنے والے نوجوان صحافیوں کی دل شکنی ہورہی ہے وہیں اس شعبے میں کام کرنے والے پروفیشنل اور سینئر صحافی بھی تنگ آگئے ہیں کہ وہ لوگ’کدھر پھنس گئے‘ ہیں ۔آج کل آپ جس ایونٹ یا نیوز کانفرنس پر جائیںگے ، آپ کوزیادہ یوٹیوبرز ہی دکھائی دیں گے جو موبائل اٹھائے ذمہ داریاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔بات یہاں تک ٹھیک تھی تاہم مستند رپورٹر اور صحافی یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر کام کرنے والے نوجوانوں کی صحافتی تربیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ان کے خدشات کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب کسی یوٹیوبر کی مائیک کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت یا غیراخلاقی گفتگو وائرل ہوتی ہے۔
اس اہم سوال کا جواب جاننے کیلئے ایک ٹی وی چینل میں بطور رپورٹر کام کررہے صحافی نے کہا کہ ’کسی بھی رپورٹر کیلئے صحافتی اصولوں سے آشنا ہونا لازمی ہے۔ رپورٹر کے سوال، الفاظ کے چناؤ اور لفظوں کی کاٹ سے ہی اس کے پروفیشنل تجربے کا اندازہ ہو جاتا ہے‘۔صرف ویوز کی بنیاد پر کبھی بھی درست صحافت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔صحافت کو اپنا پیشہ اختیار کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ مائیک تھامنے سے پہلے قلم تھامیںتاکہ ان کو زبان اور حدود و قیود کا ادراک ہو سکے ۔
یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں جموں کشمیر کے تقریباً ہر محلے میں صحافی موجود ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں اور مائک ہاتھ میں پکڑ کر اپنے آپ کو صحافی سمجھتے ہیں۔ یہ ’صحافی‘ سوشل میڈیا پہ بیٹھ کے ہر مسئلہ پر باتیں کرتے ہیںبلکہ بین الاقوامی معاملات پربھی تجزیہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔وادی کے ایک مؤقراخبار میں پچھلے بیس برسوں سے صحافتی خدمات انجام دے رہے ایک رپورٹرنے اس ساری صورتحال کو یوں سمیٹا ’’ بس اب میر انیس ہی آئیں اور صحافت کا مرثیہ کہیں‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبے میں مخصوص مقاصد کیلئے آنے والے افراد کی تعلیمی قابلیت بس اتنی ہی رہ گئی ہے کہ انہیں ’یس سر‘کہنا آتا ہے ۔ اخبارات میں چھپنے والی تصاویر اور سرکاری اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں اور پھر تصاویر کے ذریعے کیش کرنا بھی انہیںاچھی طریقے سے آتا ہے یہی وجہ ہے کہ عام لوگ انہی تصاویر کے ذریعے انہیں ’ بڑی چیز‘سمجھتے ہیں اور پھر یہی ’بڑی چیزیں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں کے کاروبار سے لیکر ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے انہیں پیسے ملیں لیکن ان کا کام پوری صحافی برادری کو بدنام کرتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرا سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہے اور انہیں سارے صحافی’ لفافے والے‘ ہی نظر آتے ہیں ۔