مضروبین میں 22پولیس اہلکار بھی شامل،کرگل میں آج سے ہڑتال کرنیکا اعلان
غلام نبی رینہ
کرگل//لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کا مطالبہ کرنے والے احتجاج نے پر تشدد مظاہروں کی شکل اختیار کی جس کے دوران مظاہرین نے فورسز گاڑی، ہل ڈیولپمنٹ کونسل دفتر اور بھاجپا کا آفس پھونک ڈالا ۔ مظاہرین کو قابو میں کرنے کیلئے گولی چلائی گئی جس کے نتیجے میں 4افراد ہلاک اور 50سے زائد زخمی ہوئے، جن میں 22پولیس اہلکار بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔پر تشدد مظاہروں کے بعد لیہہ میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور انتظامیہ نے کئی افراد کی گرفتاری عمل میں لائی نیز لیہہ ہل ترقیاتی کونسل کے ایک کونسلر کو لوگوں کو اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔لیہہ اپیکس باڈی چیئرمین چیرنگ دورجے نے 4 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قصبے میں شدید فائرنگ ہوئی جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے اور چار افراد ہلاک ہو گئے۔
صورتحال کیسے بدلی
لداخ میں بدھ کے روز اپیکس باڈی کی اپیل پر ہزاروں افراد بھوک ہڑتال میں شریک مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینر اٹھائے تھے اور اپنے مطالبات کے حق میں زوردار نعرے لگاتے ہوئے ہل کونسل سکریٹریٹ کی طرف مارچ کیا ۔لیہہ اپیکس باڈی کے یوتھ ونگ کی طرف سے بلایا گیا یہ احتجاج اس وقت پر تشدد صورتحال اختیار کر گیا جب بھوک ہڑتال میں شریک دو افراد 72 سالہ چھرینگ انگچوگ اور60 سالہ انچھگ ڈولما کی حالت بگڑ گئی، جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ موسمیاتی کارکن سونم وانگچک، جو 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال پر تھے، نے منگل کو اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔مرکز اور لداخ کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا ایک تازہ دور 6 اکتوبر کو طے شدہ ہے، جس میں لیہہ اپیکس باڈیاور کارگل ڈیموکریٹک الائنس کے ارکان شامل ہیں۔5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے لداخ میں ریاستی حیثیت اور آئینی تحفظات کے مطالبات ایک دیرینہ مسئلہ ہیں۔ جب کہ لداخ کو براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں نے بار بار دلیل دی ہے کہ اس خطے کو اپنی نازک ثقافتی آبادی، منفرد ثقافتی اور قبائلی ماحول کے تحفظ کے لیے خصوصی تحفظات کی ضرورت ہے۔اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے سونم وانگچک نے پرسکون رہنے اور تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔انہوں نے کہا “میں نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آتش زنی اور جھڑپیں بند کریں، ہم اپنا روزہ ختم کر رہے ہیں، اور میں انتظامیہ سے آنسو گیس کا استعمال بند کرنے کی درخواست کرتا ہوں، اگر تشدد میں جانیں ضائع ہو جائیں تو کوئی بھوک ہڑتال کامیاب نہیں ہو سکتی،” ۔
پر تشدد جھڑپیں
حکام نے بتایا کہ پہلے پر امن احتجاج شروع کیا گیا لیکن بعد میں نوجوانوں کے ایک گروپ کے پتھرا ئوسے کشیدگی بڑھ گئی، جس سے پولیس کی کارروائی شروع ہوئی۔ مظاہرین نے شدید پتھرائو اور آتش زنی کا سہارا لیا۔ انہوں نے مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے دفتر کو نذر آتش کر دیا اور باہر کھڑی ایک سکیورٹی فورسز( سی آر پی ایف) کی گاڑی کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ لیہہ ایپکس باڈی کے زیر اہتمام بند کے دوران مظاہرین اور سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان دن بھر جاری رہنے والی شدید جھڑپوں میں 4 افراد ہلاک اور 22 پولیس اہلکاروں سمیت 45 سے زائد دیگر زخمی ہو گئے۔ لیہہ کے ہسپتالوں میں دن بھر درجنوں زخمیوں کی اطلاع ملی۔ اپیکس باڈی کے کو چیئرمین ژیرنگ درجے نے کشمیر عظمیٰ کو فون پر بتایا کہ فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 70 کے قریب زخمی ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ کئی افراد کی حالت نازک ہے، جن کو خون کی ضرورت ہے ۔ درجے نے کہا کہ سونم واگچو نے بھوک ہڑتال ختم کی ہے اور ان کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
کرفیو نافذ
لیہہ میں مزید بدامنی روکنے کے لیے حساس علاقوں میں اضافی سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ۔ یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے لیہہ میں مظاہروں اور اجتماعات پر فوری پابندی عائد کرتے ہوئے بھارتی شہری تحفظ سنہتا کی دفعہ 163 کے ساتھ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے نافذ کیا گیا۔
مطالبات
لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس، جو سیاسی، مذہبی اور سماجی گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ان مطالبات پر متحد ہیں۔ دونوں تنظیمیں 6 اکتوبر کو نئی دہلی میں مرکزی حکومت سے بات چیت کے نئے دور کے لیے ملاقات کرنے والی ہیں۔اموات اور بڑی تعداد میں زخمیوں نے یونین ٹیریٹری میں امن و امان کی نازک صورتحال پر تشویش کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مقامی آوازوں نے انتظامیہ اور احتجاجی گروپوں دونوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ مظاہرے پرامن رہیں۔کرگل ڈیمو کریٹک الائنس نے لیہہ کی صورتحال پر آج یعنی جمعرات کو پورے کرگل میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے عہدیدار اور سماجی کارکن سجاد کرگلی نے بتایا کہ جمعرات کو کرگل میں ہڑتال رہے گی۔
لداخ فیسٹول
تشدد کی وجہ سے دو روزہ سالانہ لداخ فیسٹیول درمیان میں ہی روک دیا گیا ۔ انتظامیہ نے “ناگزیر حالات” کا حوالہ دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور اس تقریب کے لیے جمع ہونے والے مقامی فنکاروں، ثقافتی گروہوں اور سیاحوں سے معذرت کی۔
وزارت داخلہ کا موقف
مرکزی وزارت داخلہ نے لداخ کشیدگی کیلئے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کی اشتعال انگیز بیان بازی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئےمرکزی حکومت مناسب آئینی تحفظات فراہم کرکے لداخ کے لوگوں کی امنگوں کیلئے پُرعزم ہے۔وزارت داخلہ کی جانب سے جار ی کئے بیان کے مطابق سونم وانگچک نے 10ستمبرکو لداخ کو چھٹے شیڈول اور ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔وزارت داخلہ کے مطابق یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکومت ہند لیہہ اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے رسمی چینل کے ساتھ ساتھ ذیلی کمیٹی اور رہنماؤں کے ساتھ متعدد غیر رسمی ملاقاتوں کے ذریعے ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔اس طریقہ کار کے ذریعے بات چیت کے عمل نے لداخ کے درج فہرست قبائل کے تحفظات کو 45فیصد سے بڑھا کر 84فیصدکرنے، کونسلوں میں خواتین کو ایک تہائی تحفظات فراہم کرنے اور بھوٹی اور پورگی کو سرکاری زبانیں قرار دے کر غیر معمولی نتائج برآمد کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 1800 اسامیوں پر بھرتی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ کا مزید کہناہے کہ تاہم، بعض سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کرنے والے افراد اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے تحت ہونے والی پیش رفت سے خوش نہیں تھے اور وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بیان کے مطابق اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی اگلی میٹنگ 6 اکتوبر کو مقرر کی گئی ہے جبکہ 25اور 26ستمبر کو لداخ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی طے ہیں۔بیان میں مزید کہاگیا ہے کہ جن مطالبات پر وانگچک بھوک ہڑتال پر تھے وہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی میں بحث کا لازمی حصہ ہیں۔ بہت سے رہنماؤں کے بھوک ہڑتال ختم کرنے پر زور دینے کے باوجود انہوںنے بھوک ہڑتال جاری رکھی اور عرب سپرنگ طرز کے احتجاج کے اشتعال انگیز ذکر اور نیپال میں جین ذی کے مظاہروں کے حوالے دیکر لوگوں کو گمراہ کیا۔کشیدگی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے بیان میں کہاگیا کہ ’’24 ستمبر کو تقریباً 11.30 بجے ان کی اشتعال انگیز تقریروں سے متاثر ایک ہجوم نے بھوک ہڑتال کی جگہ چھوڑ دی اورایک سیاسی پارٹی کے دفتر کے ساتھ ساتھ سی ای سی لیہہ کے سرکاری دفتر پر حملہ کیا۔ انہوں نے ان دفاتر کو بھی آگ لگا دی، سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ بے قابو ہجوم نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جس میں 30 سےزیادہ پولیس/سی آر پی ایف اہلکار زخمی ہوئے۔ ہجوم نے عوامی املاک کو تباہ کرنے اور پولیس اہلکاروں پر حملے جاری رکھے۔ اپنے دفاع میں پولیس کو فائرنگ کا سہارا لینا پڑا جس میں بدقسمتی سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں‘‘۔وزارت داخلہ کے مطابق دن کے اوائل میں پیش آنے والے چند بدقسمت واقعات کو چھوڑ کر شام 4 بجے تک صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔بیان کے مطابق ہجوم کی رہنمائی سونم وانگچک نے اپنے اشتعال انگیز بیانات سے کی تھی، اتفاق سے، ان پیش رفتوں کے درمیان انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی۔بیان میںمزید کہاگیا ہے کہ مرکزی حکومت مناسب آئینی تحفظات فراہم کرکے لداخ کے لوگوں کی امنگوں کے لیے پرعزم ہے۔