محمد عبدالمتعالی نعمان
رمضان المبارک ہزاروں رحمتوں، برکتوں، سعادتوں، مغفرتوں اور روحانی مسرتوں کو اپنے دامن میں لیے ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ خالق کائنات کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان تحفہ اور بہت بڑا انعام ہے جس کا ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہر گھڑی نہایت قیمتی اور بابرکت ہے۔اسی رمضان الکریم کی مبارک راتوں میں ایک مبارک اور قدرومنزلت والی رات ایسی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ’’لیلۃ القدر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے،یہ اس ماہ مقدس کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک، ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کرنا شروع کیا اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں روح (الامینؑ) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے لیے) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوع صبح تک (امان) سلامتی ہے۔
باری تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں لیلۃ القدر (شب قدر) کی عظمت کی چار بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں۔(1) نزول قرآن،(2) نزول ملائکہ،(3) ہزار مہینوں سے افضل رات، (4) پوری شب سلامتی اور رحمت۔واضح رہے کہ یہ شب مبارک اس قدر اہمیت وفضیلت والی ہے کہ اس کی ایک رات کی اخلاص کے ساتھ عبادت اہل ایمان کے لیے83 برس چار ماہ کی عبادتوں سے بھی افضل ہے۔ یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے۔ ہزاروں مہینوں سے کس قدر افضل ہے اس کی مقدار اللہ تبارک وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔’’لیلۃ القدر‘‘ عربی زبان کے لفظ ہیں۔ لیل کے معنی ’’رات‘‘ اور قدر کے معنی ’’بزرگی اور بڑائی‘‘ کے ہیں۔ لیلۃ القدر (شب قدر) یعنی بڑائی اور بزرگی والی رات۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’قدر کے معنی مرتبے کے ہیں، چوںکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف ومرتبے کے لحاظ سے بہت بلند ہے، اسی لیے اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔اس رات کو شب قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نہایت قابل قدر کتاب (قرآن مجید)، قابل قدر امت کے لیے صاحب قدر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ القدر میں لفظ ’’قدر‘‘ تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر)
شب قدر کیوں عطا ہوئی:۔شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب رحمۃ للعالمین،خاتم النبیین،سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا جو کہ بہت طویل تھیں ،آپﷺ نےسوچا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، جب کہ میری امت کے لوگوں کی عمریں بہت تھوڑی،اگر وہ نیک اعمال میں ان (پہلی امتوں) کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے،تو اسی کی تلافی میں یہ رات عطا کی گئی۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےصحابۂ کرامؓ کے سامنے بنی اسرائیل کے چار انبیاء حضرت ایوبؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت حزقیلؑ اور حضرت یوشعؑ کا ذکر کرتے فرمایا کہ یہ حضرات80/80 سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو ان برگزیدہ ہستیوں پر بہت رشک آیا۔امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اس وقت جبرائیل علیہ السلام آپؐ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔’’اے نبی محترم ؐ! آپؐ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپؐ کے رب نے آپؐ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر تلاوت کی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔ (تفسیر قرطبی)یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل امت محمدی پر کرم فرما کر امت کو لیلۃ القدر جیسا تحفہ عنایت فرمایا اور اس میں عبادت کو اسّی نہیں تراسی سال چار ماہ سے بھی بڑھ کر قرار دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور بے حساب ہے۔
احادیث نبویؐ میں ’’لیلۃ القدر‘‘ کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم آیا ہے۔ البتہ 27ویں شب، شب قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لیلۃ القدر‘‘ کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، جب کہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں طلب کرو۔ (تفسیر مظہری)
حضرت عبادہ بن صامتؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔ 21، 23، 25، 27، 29 یا رمضان کی آخری رات میں جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس رات میں عبادت کرے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس رات کی منجملہ اور علامات یہ ہیں کہ وہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے۔ صاف وشفاف، نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی، بلکہ معتدل گویا اس میں (انوارات کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے۔ اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے،نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے،بالکل ہموار ہوتا ہے۔ جیسا کہ چودہویں رات کا چاند، اللہ تعالیٰ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا۔(در منثور)لیلۃ القدر کی فضیلت حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی آخری عشرے میں عبادت میں اعتکاف میں بیٹھ جائے، کیوںکہ اعتکاف خود مستقل عبادت ہے۔اس طرح آخری عشرے کا کوئی بھی لمحہ عبادت کے بغیر نہیں گزرے گا اور انشاء اللہ لیلۃ القدر کی فضیلت یقینی طور پر میسر آجائے گی۔
شب قدر جہاں انتہائی قدرومنزلت، رحمتوں، برکتوں، بخشش، مغفرت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بے پناہ فضل وکرم اور انعامات کی رات ہے وہیں اس مبارک شب میں بے شمار افراد اللہ کے فضل اور اس کی بخشش ومغفرت سے محروم رہتے ہیں اور ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظر عنایت نہیں ہوتی۔ احادیث مبارکہ کے مطابق کبیرہ گناہوں میں ملوث /مبتلا افراد جیسے مشرک، عادی شرابی،ماں باپ کا نافرمان، کینہ پرور، رشتے داروں اور اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض وعداوت رکھنے والا اور ناحق قطع تعلق رکھنے والا۔الا یہ کہ وہ ’’توبۃ النصوح‘‘ یعنی سچی توبہ کر لیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا عہد اور کوشش کریں۔