سرخ مرا خون بھی لہو ہی تو ہے
دوست کا دشمن بھی عدو ہی تو ہے
فرش عزاپہ یہ رنگین قطرہ کیسا؟
درگذر کرنا بھی عفو ہی تو ہے
زخم دل نے کھائےاور وہ ظالم!
نہ سمجھا یہ بھی عضو ہی تو ہے
کھلے چہروں کو روند ڈالا کس نے؟
یہ صنف اک گھر کی بہو ہی تو ہے
چھڑک کر زخموں پہ نمک وہ بولا
اک مسافر کا یہی رفو ہی تو ہے
میر سے کوئی پوچھے حالت زار
مدح بھی کبھی ہجو ہی تو ہے
میر حسین
[email protected]