بشیر اطہر
اکبر کا کا سارم گاؤں کا غریب کسان تھا۔ زندگی اس کےلئے بوجھ بن چکی تھی…….. ایک ایسا بوجھ جو وہ ہر روز اپنے کندھوں پر اٹھائے کھیتوں میں پسینہ بہاتا تھا۔ زمین خشک تھی، فصلیں کمزور، مگر قرضوں کا بوجھ ہمیشہ گھاس کی طرح بڑھتا جاتا۔
اس کی بیوی مختی بیگم کبھی گاؤں کی حسین لڑکی کہلاتی تھی مگر وقت نے اس کی آنکھوں کی چمک چرا لی تھی۔ اب اس کے ہونٹوں پر شکایت، چہرے پر تھکن اور دل میں خالی پن بسا ہوا تھا۔
وہ اکثر برتن دھوتے، کپڑے نچوڑتے نچوڑتے اپنے آپ سے باتیں کرتی —
’’خدا نے مجھے اسی دن کیوں نہ اٹھا لیا تھا جب میں پیدا ہوئی تھی… میری ہمسائی رفیقہ کو دیکھو، پانچ بچے ہیں مگر اب بھی ہنستی ہے، شوہر اس کے لئے بریانی لاتا ہے… اور میں؟ باسی روٹی پر زندہ ہوں۔‘‘
اکبر کا کا یہ سب سنتا رہتا، مگر چپ۔وہ جانتا تھا کہ غریبی صرف جسم کو نہیں، رشتوں کو بھی بھوکا رکھتی ہے۔
ایک دن مختی نے طیش میں کہا:
’’پتہ نہیں میرے باپ کو کیا سوجھی کہ مجھے تم جیسے نکمے کے حوالے کیا۔ ورنہ میں……. ‘‘
اکبر نے پلٹ کر پوچھا: ’’ورنہ کیا؟ بولو نا ورنہ کیا؟‘‘
’’ورنہ کسی عزت والے گھر میں ہوتی… سانڈ سے شوہر کے ساتھ نہیں!‘‘
یہ الفاظ اکبر کے دل پر نشتر کی طرح چلے۔پہلے تو اس نے ضبط کیا، پھر ضبط ٹوٹ گیا۔دو زوردار تھپڑوں کی گونج نے خاموشی چیر دی۔مختی کی چیخ فضا میں گونجی۔ان کے پانچ سالہ بیٹے نے جب ماں کی چیخ سنی، بھاگتا ہوا باہر آیا۔
’’ماں! بابا نے تمہیں کیوں مارا؟
بابا، آپ کیوں لڑتے ہیں روز؟
میرا دوست کہتا ہے کہ ہمارے گھر میں روز لڑائی ہوتی ہے…
بابا، یہ لڑائی کیا ہوتی ہے؟‘‘
اکبر کا کا جیسے پتھر کا مجسمہ بن گیا۔بیٹے کی آواز نے اس کے اندر کچھ پگھلا دیا۔وہ بنا کچھ کہے پھاوڑا کندھے پر رکھ کر گھر سے نکل گیا۔
شام ڈھل گئی۔
دھوپ کی آخری کرنیں گاؤں کے کھیتوں پر پھیل رہی تھیں۔اکبر چنار کے نیچے بیٹھا سوچتا رہا…….
’’میں نے آخر کیا پایا؟ غربت، گالی، اور اب ایک بچہ جو پوچھتا ہے کہ لڑائی کیا ہوتی ہے…‘‘
جب گھر لوٹا، تو مختی دروازے پر بیٹھی سڑک کی طرف تک رہی تھی۔
بیٹے نے خوشی سے کہا: ’’ماں، دیکھو بابا آ گئے!‘‘
اکبر نے کچھ نہیں کہا، پھاوڑا رکھ کر کھڑکی کے پاس جا بیٹھا۔مختی تھوڑی دیر بعد پلیٹ میں روٹیاں اور چائے لے آئی۔’’چائے پیو…‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’بھوک نہیں ہے…‘‘
’’پیو نا، تمہیں میری قسم…‘‘
اکبر نے دیکھا، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ’’پہلے یہ تھر تھراہٹ تو دور کرو…‘‘یہ سن کر مختی کے چہرے پر ہلکی سی ہنسی پھیل گئی۔چائے کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹا، فرش پر گرا، اور لمحے بھر کے لیے خاموشی چھا گئی۔پھر دونوں ہنس پڑے……. ایک ایسی ہنسی جس میں رونے کی تھکن بھی تھی اور جینے کی خواہش بھی۔
بیٹے نے حیرت سے پوچھا:
’’ماں، بابا، کیا اسی کو لڑائی کہتے ہیں؟‘‘
اکبر اور مختی نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر بیٹے کو گود میں اٹھا کر کہا:’’نہیں بیٹے، یہ لڑائی نہیں…… یہ زندگی ہے۔ کبھی روتی ہے، کبھی ہنستی ہے۔‘‘باہر بارش ہونے لگی تھی۔
چولہے پر روٹیاں پک رہی تھیں۔
اور اس رات، کئی دنوں بعد، اکبر کا کا اور مختی بیگم نے ایک ہی تھالی میں روٹی کھائی،ایک ہی پیالے سے چائے پی۔ان کے بیٹے نے مسکرا کر دیکھا……. اور اس کی مسکراہٹ میں ساری لڑائیاں گھل گئیں۔
���
خان پورہ کھاگ، بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛7006259067