عظمیٰ نیوز سروس
ارنیا (جموں)// پاکستان رینجرز کی بلا اشتعال فائرنگ نے جموں میں بین الاقوامی سرحد کے ساتھ واقع دیہاتوں میں درجنوں شادیوں کو درہم برہم کردیا ہے اور بہت سے لوگوں کو کچھ رسومات میں آخری لمحات میں تبدیلیاں کرنے پر مجبو رکردیا۔ایشانت سینی اور سنگیتا کی شادی کے معاملے میں، مہمانوں کی اکثریت نے آر ایس پورہ سیکٹر میں پاکستان کی طرف سے شدید گولہ باری کے درمیان دعوت چھوڑ دی۔پاکستان رینجرز کی طرف سے سرحد پار سے گولہ باری اور فائرنگ، 2021 کے بعد پہلی بڑی جنگ بندی کی خلاف ورزی میںارنیا کے علاقے میں جمعرات کی رات 8 بجے کے قریب شروع ہوئی اور تقریباً سات گھنٹے تک جاری رہی۔اس نے 25 فروری 2021 کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نئی جنگ بندی سے پہلے بار بار اور شدید سرحد پار فائرنگ کی یادیں تازہ کر دیں ۔ایشانت سینی کے بھائی دیپک نے بتایا “ہمیں ان مہمانوں کاافسوس ہے جو ہمارے گاؤں میں پاکستانی گولہ باری کی اطلاع ملنے کے بعد دعوت کا لطف اٹھائے بغیر گھبراہٹ میں چلے گئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ انہیں شادی کی کچھ رسومات میں بھی آخری لمحات میں تبدیلیاں کرنی پڑیں۔دیپک نے بتایا’’ہماری روایت کے مطابق دلہن کے گھر ’پھیرے‘ کا مظاہرہ کیا جانا تھا۔ لیکن چونکہ یہ زیرو لائن کے قریب واقع ہے، اس لیے ہم نے اس مقام پر بھی اس اہم رسم کو انجام نہ دینے کا فیصلہ کیا‘‘۔نئی بستی گاؤں کے ایک مقامی شہری دیپک چودھری نے کہا’’یہ وقت دھان کی کٹائی کا ہے۔ لیکن پاکستانی فائرنگ سے مزدور بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ چار سے پانچ سال کے وقفے کے بعد ہے کہ ہمارا گاؤں پاکستان کی طرف سے گولہ باری کی زد میں آیا‘‘۔انہوںنے بتایا کہ گاؤں میں کم از کم نصف درجن گولے گرے جس سے اس کی رشتہ دار رجنی بالا زخمی ہوگئی۔ وہ اب جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال میں زیر علاج ہے۔زیرو لائن کے قریب بلے چیک گاؤں کے پون کمار کے گھر کو بھی مارٹر گولہ پھٹنے سے نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا’’ہم سرحد پار سے گولہ باری کے بارے میں بھول گئے تھے۔اب ہم خوف میں ہیں کیونکہ زیر زمین بنکرصحیح حالت میں نہیں ہیں‘‘۔ چھٹی پر اپنے گاؤں آئے ایک سپاہی وجے کمار نے کہا ’’ہمیں اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا کیونکہ ہم زیر زمین بنکروں میں پناہ نہیں لے سکتے جو طویل عرصے سے استعمال نہیں ہوئے تھے۔ ہم کب تک پاکستان کی گولہ باری برداشت کریں گے؟‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ شادیوں کا سیزن ہے، اسلئے لوگوں نے شروع میں فائرنگ کی آواز کو پٹاخے کے پھٹنے کے طور پر لیا لیکن جیسے جیسے شدت بڑھی، وہ حفاظت کیلئے بھاگ گئے۔زیر زمین بنکروں کی دیکھ بھال کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے وجے کمار نے کہا کہ یہ سانپوں اور زہریلے کیڑوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان پناہ گاہوں کو فوری طور پر صاف کیا جانا چاہیے اور ان میں بجلی کی فراہمی ہونی چاہئے۔روپالی دیوی، جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ اپنا گاؤں بھی چھوڑا،نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کو زیر زمین بنکروں تک رسائی نہیں ہے۔ایک اور مقامی شہری سوہن نے کہا’’ہم نے ایسی صورتحال کے بارے میں نہیں سوچا ہے کہ ہمیں دوبارہ اپنے گھر چھوڑنا پڑینگے۔ جب میں گاؤں سے باہر ہوں، میرے خاندان کے بہت سے لوگ وہاں موجود ہیں۔ شکر ہے کہ وہ محفوظ ہیں‘‘۔
لوگ جان کی امان پانے کیلئے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے
