رشید پروینؔ سوپور
’’ ھوالاول، ھوالآخر، ھو ا لظاہر ،ھوالباطن ‘‘ اگر آپ نہ ہوتے تونہ لوح ہوتی نہ قلم ہوتا اور نہ کتاب،بلکہ زیادہ کہنا یہ مناسب ہوگا کہ یہ ساری چیزیں لوح، قلم اور کتاب کے علاوہ یہ کل کائنات اور اس کی تما م کہکشائیں اور جو کچھ بھی ان کے درمیان موجود ہے ،آ پ کے محیط وجود میں ایک بلبلے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ہےاور اسی ازلی نورِ محمدی سے وجود پاچکی ہیں جس سے سائنسی طور پر ’’اکائی‘‘ یا singulartiy سے پہچانا جارہا ہے۔ آپ ؐ تمام موجودات کی اصل ہیں، اس کا ثبوت قرآن کی آیت کریمہ سے ملتا ہے ۔اللہ کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے کہتا ہے’’ہوجا‘‘ ۔پس وہ ہوجاتی ہے۔ اللہ ہر شئے کو امر ’’کن ‘‘سے خلعت وجود عطا کرتا ہے اور ظاہر ہے پہلا امر کن وجود مصطفیٰ کی صورت میں وقوع پذیر ہوا، اس پر لگ بھگ تمام مفسرین اور محدثین اتفاق کرتے ہیں اور یہ حدیث قدسی کے الفاظ ہیں اَن عرف،’’میں نے چاہا کہ پہچانا جائوں،اس سے مراد ہے میرے حسن و جمال اور عظمت و کمال کو سراہا جائے اور میری تعریف کی جائے ‘‘یہ اللہ کا ارادہ ہوا اور ارادے کی تشکیل اور تعمیل کے لئے حکم ’کُن ‘ صادر ہوا تو ’نورِ من اللہ‘ سے ہی یہ ارادہ کن کی صورت متشکل ہوکر عالم وحدت میں وجود پاگیا ، نور من اللہ سے اس لئے کہ اس میں منطق ہی یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کچھ موجود ہی نہیں تھا جس سے اس اولین وجود کی تخلیق مکمل ہوجاتی ۔جب حقیقت محمدیؐ وجو د میں آئی، کس صورت میں آئی اور کس شکل میں متشکل ہوئی، اللہ کے بغیر حقیقت محمدیؐ کسی پر منکشف نہیں ہوئی، جس طرح اللہ ربّ العالمین نے اپنے وجود باری کے بارے میں مختصر سی بات کہہ کر قصہ ہی ختم کردیا ، کہ ’ لیس کمثلہ ،’’اللہ جیسی کوئی چیز نہیں اور اس جیسا کوئی نہیں ‘‘ ظاہر ہے اللہ کو کائناتوں کی کسی بھی شئے سے کوئی مشابہت نہیں اور صرف وہی باری تعالیٰ اپنے اوراپنے اولین شاہکار حقیقت محمدیؐ سے واقف ہے اور کوئی نہیں ۔ اور جو تخلیق ہی اس لئے ہوئی تھی کہ اللہ کی حمد کرتا رہے ،’’حمد سے پہلے صرف وحدت تھی پھر حمد سے کثرت وجود میں آئی اور یہ کثرت حقیقت محمدیؐ سے وجود میں آئی، ا س طرح حقیقت محمدیؐ خالق (وحدت)اور مخلوق (کثرت ) کے درمیان واسطہ بنی ۔حضورؐ کی خلقت ہوئی تو حمد تھے ، عالمِ نورانیت و روحانیت میں آئے تو احمد کہلائے عالم بشریت و انسانیت میں آئے تو محمدؐ کہلائے اور عالم آخرت میں جلوہ گر ہوں تو ’’محمود ‘‘ہوں گے۔ مختصر یہ کہ آپؐ نے اللہ کی حمد کی تواحمد قرار پائے اور جب اللہ نے آپ کی حمد کی تو آپ محمد قرار پائے ۔( ڈاکٹر قادری )۔ اللہ اور اس کے فرشتے رسول ِ محترمؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ،اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو ‘‘ (الاحزاب) رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پید کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔حضورؐنے ایک بار حضرت جبرئیل سے ان کی عمر کے بارے میں استفسار کیا تھا تو جبرئیل نے جواب دیا تھا کہ مجھے عمر یاد نہیں لیکن اتنا یا دہے کہ میں ایک روشن تارے کو ستر ہزار برس بعد محو سفر دیکھا کرتا تھا اور میں نے اس تارے کو ستر ہزار بار دیکھا ہے،تو آپؐ نے تبسم کرکے فرمایا تھا کہ ’’ جبرئیل ربّ کی قسم میں ہی وہ تارا ہوں جس سے تم دیکھا کرتے تھے ۔‘‘ اب اس سے پہلے کہ آپ کے اس دنیا میں ،مکہ ’’امو القرا‘ یعنی شہروں کی ماں میں تشریف آور ہونے کی بات کریں ، آئے ذرا دیکھیں کہ اس کائنات کی تخلیق میں سائنس کیا کہتی ہے اور کیا کہیں ان آیت کریمہ میں سائنسی حقائق بھی بیان ہوئے ہیں ؟’’ کیا وہ لوگ جنہوں نے نبی کی بات کا انکار کیا، غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسماں اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی کے ذریعے ہر زندہ چیز پیداکی۔‘‘(الانبیاء)ان آیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام آسمان اور زمین آپسمیں ملی ہوئیں تھیں۔ سائنسی طور پر کائنات کی تخلیق کوسب سے بہتر طور پر big .bang یعنی عظیم دھماکہ سے سمجھا جاسکتا ہے ،اس تھیوری کے لحاظ سے کائنات ایک ناقابل یقین کثیف دھویں دار نکتے یا مقام سے پھٹ کر وجود میں آئی ہے جس کے لئے قرآن میں لفظ دُخان استعمال ہوا ہے ،اس مقام یا نکتے کو اکائی singulariTy سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب ہے واحد ، یا اکائی ، آسمانوں اور زمینوں کا دھماکے سے علحیدہ ہونا (فتق ) وقوع پزیر ہوا ، کائنات کی تشکیل کے پہلے مرحلے میںیہ اکائی اتنی شدید گرم تھی کی اس کی حدت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور ایک سیکنڈ کے سولویں حصے میں یہ اکائی پھیل گئی ، اس تھیوری کو تفصیل کے ساتھ اس مختصر مضمون میں نہیں سمویا جاسکتا ، بس میں نے صرف یہ سائنسی حقائق اس لئے گوش گذار کئے ہیں کہ اللہ کے سوا صرف ایک نور تھا ، ایک گیسی گولہ تھا ، جس میں فتق ہوا ، یہ کائناتیں اور اربوں کہکشائیں وجود پا گئیں اور اس کے ساتھ ہی اس تمام عالم وجود کو وہ کمپیوٹرائزد پروگرام بھی عطا ہوا یا اس کی تقدیر بھی اس کے حوالے ہوئی ، جس پر اور جہاں ان ساری کائناتوں کا اپنے اپنے آسمانوں میں تیرنا ، گردش کرنا اور اپنے محور پر گھومنا تھا ، ایک دوسرے سے مناسب فاصلوں پر ٹکنااور نئی صورتوں میں متشکل ہونا تھا ۔ سو اللہ’ ’رب العالمین‘‘ہے اور جو کچھ بھی فتق سے وجود میں لایا گیا اور اس کے اندر جو تقدیر انہیں تھامے ہوئے ہے یہ رحمت بن کر تمام عالمین پر محیط بھی ہے اور اس کی محتاج بھی ہیں۔ سو آپ رحمت اللعالمین ہیں ۔غور و فکر کی دعوت قرآن حکیم میں جابجا ملتی ہے تاکہ انسان سائنسی طور بھی اللہ کی عظمتوں کا ادراک کر سکے ،سائنس ہمیں اللہ کے بہت سارے رازوں سے آشنا کرتی ہے اور آگے بھی کرتی رہے گی ۔’ ’ ہم نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زباں میں تبلیغ دین کرنے والا تاکہ ان کو ہمارے احکام بآسانی سمجھا سکے۔‘‘(ابراہیم ۴)اور اس کے بر عکس ’’ ہم نے آپؐ کوتمام کائنات اور تمام بنی نوع انسان کے لئے خوشخبری اور ڈرانے والا بناکر بھیج دیا ہے۔ ‘‘(سورۃ سبا )آپؐ نے عبداللہ بن عباس سے فرمایا ’’جب آدم جنت میں تھے تو میں ان کی صلب میں تھا، مجھے اپنے باپ نوح کے صلب میں کشتی پر سوار کیا گیا اور مجھے اپنے باپ ابراہیم کی پشت میں آگ میں ڈالا گیااور میرے والدین کبھی برائی پر نہیں چلے ،میں پاک و طاہر پشتوں سے پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانور عبدالمطلب میں منتقل ہوا ، عبدالمطلب کے بدن سے خوشبو آتی تھی اور نورِ رسول ان کی پیشانی میں چمکتا تھا ، یہی نور عبدالمطلب کے فرزند عبداللہ میں منتقل ہوا ، جس سے ایک کاہنہ نے جوان عبداللہ کی پیشانی میں پہچان لیا اور شادی کی درخواست کی ، لیکن عبداللہ کی شادی آمنہ بنت وہاب سے کردی گئی۔ جس رات یہ نور منتقل ہونا تھا اللہ نے اس رات جنت کے دروازے کھول دئے اورآسمانوں اور زمینوں میں ایک ندا دینے والے کو مامور فرمایا،منادی کرائی کہ وہ نور جو مخفی تھا اور جو تخلیق اول ہے آج کی رات اپنی والدہ کے بطن میں منتقل ہوگیا ۔ یہ اللہ کی طرف سے نبی آخر الزماں کا پہلا میلاد تھا ۔حضرت آمنہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میرے پاس کوئی آیا اور مجھ سے کہا ’’ آمنہ تو خیرالعالمین سے حاملہ ہے ‘‘ولادت کی شب شیاطین قید کئے گئے ،سارے جہاں کے بت سر بسجود ہوئے ، فارس کے آتش کدے بجھ گئے ، ماہر نجوم نے اطلاعات دیں کہ نبی آخر الزماں تشریف لا چکے ہیں ،بادشاہوں کے محلات گر گئے ، پورا اہل عرب قحط سالی سے جھوج رہا تھا اس ولادت باسعادت سے کایا ہی پلٹ گئی ، قحط سالی ختم ہوئی اور سب سے بڑی بات یہ کہ عرب قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے تھے ، سو اپنے محبوب کی تشریف آوری میں ربّ نے اس برس پورے سال لڑکیوں کی پیدائش روک دی ، یہ میلاد کا جشن اللہ کی طرف سے تھا تاکہ شانِ رسالت کا ادراک آنے والے آخری زمانے تک مخلوق کو ہوتا رہے۔ ’’ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ زمین پر میرا نام محمد اور آسمان پر احمد ہے۔‘‘زمین و آسمان میں سب سے زیادہ تعریف وثناء حضوؐ کے حصے میں آئی ہے ، اسی لئے آپ کا اسم مبار ک محمدؐ ہے ۔ حضورؐ کے حسن ظاہری اور حسن باطنی میںدونوں میں کوئی ثانی نہیں تھا اور ’’آپ سے حسین تر چہرہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا آپ تمام جسمانی و روحانی عیوب سے پاک اور آپؐ کو اللہ نے ایسے تخلیق فرمایا ہے جیسا آپ چاہتے تھے۔ ‘‘(حسان بن ثابت)۔’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔‘‘(الانشرح)جبرئیل نے ایک دفعہ اس آیت کریمہ کے بارے میں رسول پاکؐ سے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ’’جب میرا (اللہ )کا ذکر ہوگا تو آپ کا بھی ذکر ہوگا۔ ‘‘ٹھیک چالیس برس مکی ماحول میں گذارنے کے باوجود آپ کی زندگی ، اٹھنا بیٹھنا ، آپ کا پاکیزہ کردار آپ کی امانت داری اور صدق سارے مکہ میں تسلیم کی جاتی تھی اور آپ کو صادق و امین کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا ، گوشہ نشینیوں اور حق کی تلاش میں آخر جبرئیل وہ پیغام لے کر آتے ہیں جس کے لئے آپ مبعوث ہوچکے تھے ۔ ’’اقراء پڑھ اپنے رب کے نام سے‘‘یہاں مضمون کے آخری حصے میں مختصراً معراج کا ذکر لازمی سمجھتا ہوں کیونکہ سفر معراج آپ کی انتہائوں ، عظمتوں اور رفعتوں کی تحریر ہے اور آنے والے ادوار میں سائنس آسٹرو فیزکس کی روشنی میںغیر معمولی انکشافات سے اس معجزے کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرے گی ، پہلی بات وثوق کے ساتھ یہ کہ سفر معراج عالم ِ بیداری میں تھا۔ مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر آج ہم سائنسی اکتشافات سے سمجھ سکتے ہیں ، (ہر نقص سے پاک ہے وہ رب جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے )چونکہ یہ سفر براق پر طئے ہوا تھا اور براق برق سے نکلا ہے جس کا مطلب بجلی کی رفتار ہی سے لیا جاسکتا ہے ۔ دوسرا مرحلہ مسجد اقصیٰ سے سدر ۃالمنتیٰ تک ہے ،یہ سفر ایک اور سواری رف رف پر طئے ہوا ، جس کی ابھی انسانی ذہن میں کوئی توضیح نہیں ۔یہاں اس سفر کے دوران تمام فرشتوں نے آپ کا دیدار کیا ،( جب سایہ میں چھپالیا سدرہ کو جس نے چھپالیا ملائکہ کی کثرت نے ، یہاں جبرئیل امین رک گئے اور کہا کہ اس مقام سے ذرہ بھر بھی آگے چلوں تو تجلیات الٰہی سے جل جاؤں ،، سدرہ سے آگے یکہ و تنہا آپ کا سفر شروع ہوا ، یہاں سے ایک ملکوتی اور نورانی تخت آپ ؐکی سواری تھی جس کا نام زخرف تھا ،اس کے بعد سوائے اللہ کی وحدانیت کے سوا کچھ نہ تھا اور اس نور کی ماہیت اور کیفیت کیا تھی ؟ صرف اللہ اور اللہ کا رسول جانتا ہے اور یہ اس باکمال و جمال سفر کا تیسرا مرحلہ قاب قوسین اور اس سے بھی آگے کا ہے ۔’’ آپ قریب ہوئے، پھر یہاں تک بڑھے کہ صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم ‘‘پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کی۔ (النجم )۔ معبود اور عبد کس قدر قریب ہوئے ۔ لیکن معبودیت اور عبدیت موجود رہی ، مائیکل ہاٹ کی شہرہ آفاق کتاب کا حوالہ اس لئے ناگزیر ہے کہ اس نے ہزاروں مختلف شعبوں سے چوبیس ہزارتاریخی شخصیات پر غورو فکر کے بعد صرف ایسی سو شخصیات کا انتخاب کیا جنہوں نے تاریخ انسانی پر اپنے گہرے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے ادوار کے معاشروں میں انقلا بات پیدا کئےاور جب ان سو میں سے اکمل ترین ، عظیم ترین اور بلند ترین شخصیت کے چناؤ کی باری آئی تو مائیکل ہاٹ کی نگاہوں اور دل و دماغ نے حقائق ، اثر پزیری، کامیاب معاشرے کی تشکیل اور دیرپا انقلابی اور انسانی تبدیلی کی بنیادوں پر نبی برحقؐ، خاتم المرسلین ہی کا نتخاب کیا اور مددلل اس بات کی وضاحت بھی کی کہ کیوں یہی ایک شخصیت ہے جو ماضی ، حال اور مستقبل تمام زمانوں کے رہبروں ، رہنماوں اور داعیوںاور دوسرے تمام شعبوںسے تعلق رکھنے والوں میں سب سے اول، کامل ترین اور آخری ہیں۔
’’گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب‘‘
[email protected]