سرینگر //سرینگر کے لل دید اسپتال میں عملے کی لاپرواہی سے حاملہ خاتون کی موت کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ لل دید اسپتال میں شاہینہ زوجہ طارق احمد ساکنہ بمنہ سرینگر کو خون کی مخصوص خلیوں( Pallete lets) کی منتقلی کے دوران طبی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں گئی ہیں۔ رپوٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مذکورہ مریضہ کو خون کے خلیوں کی منتقلی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مریضہ کے خو ن میں palletelets کی تعداد 74000تھی۔ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ حالت خراب ہونے کے بائوجود بھی حاملہ خاتون کی سیکمز صورہ منتقلی کو روکا جاسکتا تھا جبکہ جراحی کے دوران ڈاکٹروں کو درپیش مشکلات کے بارے میں بھی مریضہ کے اہل خانہ کو کوئی جانکاری نہیں دی گئی ۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے تحت کام کرنے والے صدر اسپتال سرینگر میں عملے کی لاپرواہی کے نتیجے میں حاملہ خواتین اور انکے پیٹ میں پلنے والے بچوں کی موت کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں اور اسی طرح کے ایک واقعے میں سرینگر کے بمنہ علاقے سے تعلق رکھنے والی 27سالہ شاہینہ زوجہ طارق احمد ساکنہ بمنہ سرینگر کو 31مئی 2017کو رات کے 12بجکر 05منٹ پر ایم آر ڈی نمبر 5514کے تحت لل دید اسپتال سرینگر میں داخل کیا گیا جہاں خون کے مخصوص خلیوں(Palletelets)کی منتقلی کے دوران قواعد و ضوابط پر عمل در آمد نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں 27سالہ مریضہ کی موت واقعہ ہوگئی ہے۔شاہینہ کے لواحقین کی جانب سے اسپتال عملے پر لاپرواہی کے الزامات اور مظاہروں کے بعد پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سامیہ رشیدنے شعبہ زچگی کے ایچ او ڈی کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کیلئے ایک چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس میں میڈیکل سپر انٹنڈنٹ لل دید اسپتال ڈاکٹر نذیر احمد ملک، شعبہ اینستھیولاجی کی پروفیسر رخسانہ نجیب، گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ سرجری سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ممتاز الدین کو شامل کیا گیا تھا ۔چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے 3صفات پر مشتمل اپنی تحقیقاتی رپوٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مریضہ کو خون کے مخصوص خلیوں (Palletelets)کی منتقلی کے دوران طبی قوائد و ضوائط کی دھجیاؓں اڑائی گئیں ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نے رپوٹ میں اپنی رائے زنی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مریضہ میں خون کی کمی زیادہ نہیں تھی کیونکہ analyserپر خون کے خلیوں کی تعداد 56000تھی جبکہ ہاتھ سے کئے گئے ٹیسٹ میں یہ تعداد 74000تھی اور مریضہ کو خون کے خلیوں کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مریضہ میں خون کی کمی کے آثار موجود نہیں تھے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپوٹ زیرنمبر میں لکھا ہے کہ Pallete Concentrate کے بجائے مریضہ کو Plasma rich Pallete lets چڑھائے گئے ۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مخصوص خلیوں کی منتقلی کیلئے تیمارداروں سے اجازت نہیں لی گئی جبکہ مریضہ میں خون کے مخصوص خلیوں کی منتقلی کا کام اردلی نرس نے ڈیوٹی پر تعینات ڈاکٹر کو جانکاری دئے بغیر کیا جبکہ مریضہ کی ٹکٹ پر خون کے خلیوں کی منتقلی کا کہیں حکم نہیں دیا گیا ہے۔ رپوٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسپتال کے لیبر روم میں بھی ریسیسیٹیشن (Resuscitation) میں بھی بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ مریضہ کو سیکمز منتقل کرنے میں بھی جلدی کی گئی جبکہ مریضہ کو تیمارداروں کی درخواست پر سیکمز منتقل کیا گیا تاہم اس کے بعد سیکمز میں مریضہ کی حالات میں بہتری آئی تھی۔ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ مریضہ میں خون کی کمی اور خون میںمخصوص خلیوں کی تعداد میں کمی آنا جیسی بیماریوں میں مبتلاء رہی تھی تاہم مریضہ کے لواحقین کو جراحی کے دوران ڈاکٹروں کو درپیش مشکلات کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے تاہم چار رکنی کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی رپوٹ پر بات کرتے ہوئے پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سامیہ رشید نے کہا کہ مذکورہ لڑکی گردوں کی بیماری میں مبتلاء رہی تھی جسکی وجہ سے کئی اعضاء نے ایک ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے اور اسلئے ہم نے کمیٹی کو تحقیقات کیلئے مزید وقت دیا ہے۔‘‘