محمد شبیر احمد مصباحی
بے شک اچھے سکول اور اچھے مکاتیب تو ہر سماج و سوسائٹی کی ہمیشہ سے ضرورت رہے ہیں ۔آج دہلی جسے ملک کی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل ہے وہاں کی سرکار کی اگر کسی بات کےلیے ملک و بیرون ملک میں بھی تعریف ہوتی ہے تو وہ اس کے بہترین سکولوں و طالب علموں کو فراہم کیے جانے والی سہولیات کی ہوتی ہے۔دوسری طرف دہلی سرکار کے اس ماڈل کو اور بھی ریاستیں فروغ دے رہی ہیں خود مرکزی سرکار بھی2020 این ای پی لا کر تعلیم کو مزید مفید بنانے کےلیے بہت ہی سنجیدہ ہے ،اس کے علاؤہ مرکزی سرکار پورے ملک میں بہترین تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ایسے میں حکومت و ریاست کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم کو بہتر سے بہترین بنانے کو لے کر ایک مہم چل رہی ہے ،آج ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنا ایک بچے کا بنیادی حق ہے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایک بہترین قانون ہمارے درمیان اس بات کی ترجمانی کرتا ہے۔خطہ لداخ ملک کی دوسری ریاستوں سے جہاں بہت سارے معاملات میں ایک پسماندہ خطہ ہے وہی تعلیمی معیاری اداروں کی کمی بھی اس خطہ کی ایک اہم مجبوری ہے،ایک دور دراز وپہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کےلوگ جہاں بہت ساری سہولیات سے محروم ہیں وہیں یہاں کے لوگوں کی اکثریت چونکہ پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے ابھی روڈ اور نیٹورک جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں ۔ایسے میں تعلیم حاصل کےلئے ان کو دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے اور شہروں میں چونکہ مکانوں کا کرایہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور پرائیوٹ ہاسٹلس کی فیس سے تو آج ہر کوئی آشنا ہے تو یہ سب کچھ برداشت کرنے کے بعد چونکہ اپنی بچیوں کو دور ایک اجنبی شہر میں تنہا بھی نہیں چھوڑ سکتے ہیں تو ہر وقت کوئی ایک آدمی ان کے ساتھ وہاں رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لداخ کے لوگوں کےلیے یہ سب مراحل بہت کٹھن اور صبر طلب ہو جاتے ہیں مجبوراً ہماری بچیوں کو تعلیم سے کنارہ کشی کرکے گھر رہنا پڑتا ہے۔اب بات اگر دینی تعلیم کی جائے تو اس کی سہولت یہاں بالکل ہی نہ کے برابر ہے۔چھوٹے چھوٹے مکاتیب ضرور قائم ہوئے ہیں لیکن مکمل رہائش کے ساتھ ساتھ تعلیم کےلئے ہاسٹل سسٹم کے ادارے بالکل بھی نہیں ہیں ، ایسے میں تھوڑی بہت بچیاں سری نگر اور جموں کا رخ تو ضرور کرتی ہیں مگر یہ مرحلہ بچیوں اور ان کے والدین کےلئے ایک آزمائش سے کم نہیں ہوتا اور ہر کوئی اس کا سزاوار بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ایسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا ہماری بہت ساری بچیوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی کانچ کے شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا تھا۔مدرسہ فاطمتہ الزہرا دراس لداخ کی ایسی بہت ساری بچیوں کے خوابوں کی تعبیر لے کر جنم پایا ہے تو ایسی تمام بچیوں کےلیے یہ مدرسہ ایک جیون دان ہے جو تعلیم حاصل کرکے اپنے علاقہ و ملک کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی خواہش دل میں سجا رکھتی ہیں۔مدرسہ فاطمتہ الزہرا کو چونکہ مدارس عربیہ کی پرانی روش سے ہٹ کر بنانے کا عزم ہے اور طرز کہن سے کنارہ کشی کرتے ہوئےدرس نظامی کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی یہاں طالبات کو سنوارنے کا کام کیا جارہا ہے اور بھی بہت ساری دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔جیسے مدرسے کی سند کو حکومت سے تسلیم شدہ بنانا ،کمپیوٹر کی تعلیم اور ساتھ ہی بچیوں کو مختلف اسکیلز میں ٹریننگ فراہم کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔یہ مدرسہ غریب و یتیم بچیوں کو جہاں مفت تعلیم فراہم کرائے گا ،وہیں دوسری بچیوں کو بھی بالکل ہی مختصر فیس میں اعلیٰ تعلیم اور سہولت فراہم کرے گا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے اور تبدیلی کے ساتھ چلنے کی وجہ سے یہاں کی فارغات کو اپنی نوکری کو لے کر بھی کوئی مشکل نہ ہوگی تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ان کےخواب کو پورا کرنے میں یہ مدرسہ رکاوٹ نہیں بنے گا۔فی الحال یہ مدرسہ رینٹ پرچل رہا ہے اور 25سے 30 بچیاں زیر تعلیم بھی ہیں اور ان کےلیے فی الحال تین معلمات کو تعینات کیا گیاہےاور طعام و قیام کا انتظام بھی ہاسٹل میں ہی ہے۔دوسری طرف مدرسے کی بلڈنگ کا تعمیراتی کام بڑے زور و شور سے چل ہےابھی تک کی اطلاع کے مطابق چار کشیدہ کلاس روم ،ایک وسیع وعریض سمینار ہال اور چار واش روم اور سیڑھی پر مشتمل پہلی منزل کا کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ دوسری منزل کا کام بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ جاری وساری ہے۔اس مکمل بلڈنگ پر آرکٹیکٹ کے ایک تخمینے کے مطابق تقریباً دو سے ڈھائی کروڑ تک کا خرچ ہونے والا ہے۔اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ مدرسہ مستقبل میں چار سے پانچ سو بچیوں کو بیک وقت تعلیم فراہم کرنے کا حامل بن رہا ہے۔ یہ ادارہ ان تمام بچیوں کےلیے ایک منزل ہے جو معیاری و اعلیٰ تعلیم کو لے کر خواب دیکھ رہی ہیں۔فی الحال دراسی قوم اس ادارہ کے قیام کےلیے تن من دھن سے لگی ہوئی ہے اور آنے والے وقت میں دراس کرگل کا یہ ادارہ خطہ لداخ کی بچیوں کےلیے میل کا پتھر ثابت ہوتا ہوا نظر آرہاہے۔
رابطہ۔8082713692
[email protected]