چاروں طرف فلک بوس پہاڑیوں سے گھرا ہواخطۂ لداخ یوں تو موسم ِگرما میں سیرو سیاحت کے لئے نہایت موزوںا ور سیاحوں کی پہلی پسند مانا جاتا ہے لیکن موسم ِسرما میں یہاں زندگی کھٹنائیوں سے عبارت ہوتی ہے ۔ اس لئے لداخیوں کی سرمائی زندگی کے بارے میں بہت ساری کہانیاں کہیں اور سنی جاتی ہیں۔ یہاں موسم سرما چھ مہینوں کو محیط ہوتا ہے ۔ اس دوران زندگی گویا تھم سی جاتی ہے ۔ شدید سردی اور برف کی آہٹ محسوس ہوتے ہی ماہ نومبر سے غیر مقامی لوگ اور ایک قلیل تعداد میں مقامی باشندے یہاں سے ہجرت شروع کردیتے ہیں ۔ مزید برآں وہ گرمائی چرند وپرند بھی یہاں سے رخصت ہوتے ہیں جو گرمیوں میں یہاں بسیرا کرتے ہیں ۔ لدا خیوں کے لئے شدید سرما ایک معمول کی بات ہو تی ہے، اس لیے وہ ان گھمبیر حا لا ت سے نپٹنے کے لئے ہمیشہ پیشگی تیاری کے ساتھ لیس رہتے ہیں ۔یہ تیا ر یا ں وسط اکتوبر سے ہی شروع ہو جا تی ہیں ۔لوگ بیس تا پچیس کو نٹل بالن خر ید کر رکھ لیتے ہیںاور گو بر گھر گھرسٹا ک کیا جا تا ہے تا کہ سردیوں میں گر می کامعقو ل ا نتظام ممکن ہو ۔نو مبر کے مہینے میں را شن ،مٹی کا تیل اور د یگر ا جناسِ ضر ور یہ کا ذخیرہ بھی کیا جاتا ہے۔ روایتاًنو مبر میں لو گ پیا زکی ایک دو بوریاں ، آلو ،گوبھی و غیرہ حسب ِضرورت سٹاک کرتے ہیں ۔ یہاںعمو ما ً لو گ سبزیاں سکھا کر سرما کے واسطے جمع کر کے رکھ لیتے ہیں ۔ نومبر کے اختتا م پر ’’لو سر‘‘ کی تیا ری شروع ہوتی ہے ۔ لداخ میں’’ لو سر ‘‘ ایک حساب سے خطے کی مجبوری ہے ۔ ’’لو سر‘‘ کے دوران ہر سا ل یہاں کر وڑ وں روپے کا لین دین ہوتا ہے۔ اصل میں’’لو سر‘‘ گو شت کے سٹاک کو کہتے ہیں ۔ ہر گھر اپنی ضرورت کے مطابق ایک یادوکوئنٹل گو شت خر ید لیتا ہے۔اس سلسلے میں یاک یازو مبا کاگوشت لوگوں کی پہلی پسند ہوتا ہے ۔اس جانور کو خرید کراس کی خوب خاطر ہوتی ہے ،پھر اسے ذبح کر کے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ایک کمر ے میں تر تیب سے ر کھے جا تے ہیں ،جو شدید ٹھنڈ کی وجہ سے یخ بستہ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس گوشت کو پھر مر ضی کے مطا بق سرما میں پکا کر کھا یا جا تاہے ۔ لدا خ میں ’’لو سر‘‘ کے نا م سے میلہ بھی لگتا ہے ۔ضلع کر گل میں میلہ تو نہیں لگتا لیکن جس دن کسی کے گھر میں ’’لو سر‘‘ کی تقریب ہو، وہاں کافی چہل پہل اوردھوم دھام ہوتی ہے ۔ صاحب ِ خانہ کے دوست و احباب اور اقرباء بہ حیثیت مہمان تشریف لاتے ہیں۔ غرض بھائی چارے کو فروغ دینے میں’’ لوسر ‘‘کا کردار قابل ستائش ہے ۔ فروری کے اختتام تک گھر میں سارا جمع شدہ گوشت ختم ہوجاتا ہے ۔مارچ اپریل میں اگر چہ دھوپ رہتی ہے لیکن ذخیرہ شدہ اشیاء کا چونکہ خاتمہ ہو چکاہوتا ہے ،اس لئے لوگوں کے پاس دالیں اور بچی کھچی سوکھی سبزیوں کے سوا کوئی اور خوردنی اشیاء نہیں ہوتیں ۔لہٰذا عام لوگ جلد از جلد زوجیلہ شاہراہ کھلنے کی دعائیں کرتے ہیں ۔ سرما کے دوران لداخ میں عمومی طورپچیس سے تیس فٹ برف عموماً گرتی ہے ۔درجہ حرارت منفی -50سے -55تک گر جاتا ہے اور منفی -30سے -35درجہ حرارت تو یہاں سردیوں میںمعمول کی بات ہے ۔شدید برف باری سے کشمیر سمیت ساری دنیا سے اہالیانِ لداخ کٹ کر رہ جاتے ہیں ۔زیادہ برف باری کے سبب لوگ اپنے گائوں دیہات سے بھی کئی دن کٹے رہتے ہیں۔ دسمبر کے آغاز سے یہاں ہر چیز منجمد ہونا شروع ہوتی ہے ۔دریا،جھیلیں ،جھرنے ،تالاب جم کر یخ بن جاتے ہیں کہ ان کے اُوپر سے لوگ آرام سے آمدورفت کرسکتے ہیں۔کھانے پینے کی چیزیں مثلاً سبزیاں ،گوشت ، انڈے وغیر ہ بھی جم جاتے ہیں ۔دسمبر ،جنوری اور فروری میں سردی اور برف چونکہ اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے،اس لئے ان دنوں ہر طرف برف کی سفید چادر دکھائی دیتی ہے ۔ لوگ بڑے بڑے جیکٹ ،اُونی ٹوپیاں ،موزے اور دستانے پہنتے ہیں اور اپنے منہ کو ایک موٹے مفلر سے باند ھے رہتے ہیں ۔ خواتین موٹے کپڑے ،پھرن ،اُونی کپڑے اور موٹے شال کا استعمال کر تی ہیں ۔ مرد و خواتین کے سرمائی جوتے الگ قسم کے ہوتے ہیں،ان سے خاص کر یہ بات ممکن بنائی جاتی ہے کہ جمی ہوئی برف پر گزرتے ہوئے جوتوں سے پھسلن نہ ہو، کیونکہ سڑکوں پر پھسلن کبھی کبھار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔ کانگڑی ہمارے یہاں کامیاب نہیں ہے، اس لئے سرما میں گھروں میں گرمی کے انتظام کے لئے لوگ انگیٹھی(بخاری) جلاتے ہیں ۔ یہ لوہے کا ایک چولہا ہوتی ہے جو شکل میں سلینڈر کی مانند ہوتی ہے ۔ اس کے اندر لکڑیاں جلائی جاتی ہیں اور یہ اتنی گرمی دیتی ہے کہ پورا کمرہ گرم ہوجاتا ہے ۔ بخاری رات دن حسب ِ ضرورت جلائی جاتی ہے ۔اسے گرمی کا سب سے بہترین آلہ مانا جاتا ہے ۔
مارچ اپریل دھوپ میں تپش کی وجہ سے دن تھوڑا گرم تور ہتا ہے ۔ ان دنوں زمین کے اندر حرارت جاتی ہے، اس لئے پہاڑ کی ڈھلان پر جما ہوا برف پگھلنا شروع ہوجاتا ہے جو کبھی کبھی لینڈ سلائڈ کی شکل اختیار کرکے نقصان دہ بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی رہائشی مکان،گائوں کی بستی اور مسافر گاڑیا ں بھی اس کی زد میں آجاتی ہیں۔ ان ایام میںیہاں اکثر دن میں زمینی حرارت سے برف پگھلتی ہے اور رات یخ بستہ ہوتی ہے۔ زمین پہ پڑی برف کی سفید چادر پوری طرح جمی ہوئی ہوتی ہے جس کے اُوپر لوگ چلت پھرت کر تے ہیں۔ خصوصاً چھوٹے بچوں کے لئے یہ بہت سہانا موقع ہوتا ہے کہ دن بھر اس پر سیکٹی کرتے ہیں یا کرکٹ کھیلتے رہتے ہیں ۔ لداخ کا سرما اپنے ا ندر حُسن وجمال کا اَتھاہ خزانہ بھی رکھتا ہے جس سے فطرت کے شایقین لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
رابطہ 8082713692