عبدالقیوم شاہ
امورِ صارفین کے نام پر فوْڈ اینڈ سپلائز ڈیپارٹمنٹ سالہاسال سے سرگرم ہے۔ اْس میں بھی ملاوٹ کا منڈیٹ آدھا ڈرگ اینڈفوڈ اور آدھا میونسپل کارپوریشن کے پاس ہے۔ لے دے کر امورِ صارفین کی دیکھ ریکھ روٹیوں کے وزن ، گوشت کی فی کلو قیمت، سبزیوں اور مرغ کے نرخ تک محدود ہوکر رہ گئی تھی لیکن وہ اختیار بھی اب اس کے پاس نہیں رہا ہے کیونکہ گوشت ڈی کنٹرول ہوچکا ہے۔ امورِ صارفین کے نام پر محکمہ خوراک و رسدات اور امور صارفین وعوامی تقسیم کاری کیا کچھ کررہا ہے، اس کے لئے تفصیلی تجزیہ کی ضرورت ہے۔
نانوائیوں کا مسئلہ لے لیجئے۔ تنور میں جلانے والی لکڑی فی کوئنٹل850روپے ہے، جبکہ آٹا فی کوئنٹل 1800روپے ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایک سو روٹیاں بنانے کے لئے ساڑھے پانچ کلو آٹا درکار ہے جسکی قیمت99 روپے ہے اور اسی تعداد کے لئے لکڑی پر دو سو روپے کا خرچہ ہے۔ کم ازکم چار افراد کی محنت بھی شامل ہوتی ہے۔ مطلب ایک نانوائی ایک سو روٹیاں فروخت کرکے صرف دو سو روپے منافع کماتا ہے۔ اگر کوئی نانوائی تین سو روٹیاں بھی فروخت کرتے تو کم از کم چار افراد کی یومیہ کمائی صرف 600 روپے ہے۔ محکمہ نے 55گرام روٹی کا وزن اور پانچ روپے قیمت مقرر کرکے اپنی طرف سے بہت بڑا تیر مارا ہے، لیکن یہ ایک پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلمِ عظیم ہے۔ ایک یومیہ مزدور صبح نوبجے سے صرف پانچ بجے تک کے کام کا 600روپے لیتا ہے جبکہ کنبے کے چار افراد چوبیس گھنٹے محنت کا فی کس صرف 200 روپے کماتے ہیں۔
اس طرح روٹیوں کے نرخ کی روایت تو برقرار رہی، لیکن روٹیوں کی کوالٹی اور معیار کو کون دیکھے گا؟ نانوائی فاقہ کشی تو نہیں کرے گا، اْسے پیٹ بھی پالنا ہے۔ جب آپ نے پچپن گرام کی روٹی کی قیمت پانچ روپے لگا دی ہے تو اْسے بیکنگ سوڈا کے استعمال سے روٹیوں کے وزن میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اصل میں محکمے کا فوکس نرخ ہے معیار نہیں۔ چِپس کے بیس روپے والے لفافے کا وزن 60گرام ہوتا ہے، اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک آلو کے چوتھے حصے کے چھلکے مشین میں فرائی کرکے اْس میں ہوتے ہیں، لیکن محکمے نے کبھی خیال نہ کیا کہ پچپن گرام کی روٹی جو صحت بخش بھی ہے، صرف پانچ روپے میں بیچنی ہے اور چِپس کا لفافہ ، جو مضر صحت بھی ہے، بیس روپے میں کیسے بکتا ہے؟ اسی ادراک سے دوسرے امور میں بھی محکمے نے خود کو ایک مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔
گوشت کا بھی ذرا تفصیلی تجزیہ کریں۔کوٹھدار جب باہر سے مال لاتا ہے، تو وہ تین اقسام کے بھیڑ خرید تا ہے، درجہ اول، درجہ دوم اور درجہ سوم۔ پچھلے چند سال سے جانوروں کے حقوق کے لئے سرگرم لابی نے بھیڑوں کی خریدوفروخت کو ازحد مشکل بنادیا ہے۔ کوٹھداروں کو ہر جگہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً فی الوقت کوٹھدار کو کم ازکم 350 روپے فی کلو کے حساب سے بھیڑ خریدنا پڑتے ہیں۔ اْس کے بعد رشوت کا پیسہ، ٹرانسپورٹ ، مزدوری وغیرہ۔ مطلب کوٹھدار کو سرینگر پہنچا کر کم ازکم 450روپے فی کلو خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پھر قصائی کو کس حساب سے فروخت کرے گا۔ اب اس کا علاج یہ نکالاگیا کہ کوٹھدار درجہ بندی کرتا ہے۔ بہت نچلے درجے کا مال کم نرخ جبکہ درمیانہ درجہ کا مال زیادہ نرخ پر بکتا ہے۔ مطلب اگر کوئی قصائی کم از کم دس بھیڑ خریدے گا تو اْسے 450روپے فی کلوملتا ہے لیکن جو ایک یا دو بھیڑ خریدتا ہے اْسے پانچ سو روپے فی کلو ملتا ہے۔ خود فیصلہ کریں کہ قصائی کس نرخ پر گوشت فروخت کرے گا؟ مطلب اگر درجہ اول مال خریدنے والا قصائی دن میں تین بھیڑ فروخت کرتا ہے تو اْسے 1500روپے کا منافع حاصل ہوسکتا ہے، جس میں سے دْکان کا کرایہ، بجلی فیس، مزدوری، ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی نکالنا۔ ظاہر ہے ہزار بارہ سو روپے کی یومیہ آمدنی کے لئے قصائی کو محکمہ امورِ صارفین کے چیکنگ سکارڈ کا کھٹکا بھی ہے، اور کوئی کوئی انسپکٹر مفت گوشت یا نقدی بھی اْڑا لیتا ہے۔ کیا یہی ریٹ کنٹرول ہے؟ محض نرخ طے کرنا محکمے کے ذمے نہیں ہے، اشیائے خوردنی کا معیار بھی قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔
جہاں تک مرغ کا تعلق ہے۔ دوطرح کے برائلر مرغ ہیں۔ ایک کشمیری فارم کا ،دوسرا بیرون کشمیر فارم کا۔ تیسری قسم لئیر کی ہے۔ مرغ کی قیمت کا دارومدار پیداوار اور ڈیمانڈ پر ہے۔ لیکن محکمہ کاغذ کے ٹکڑے پرقیمت چھپوا کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا یہ نرخ چلتا ہے۔ کیا محکمہ نے کبھی پروڈکشن اور مارکیٹ ریسرچ کیا ہے اور کبھی غور کیا ہے کہ روٹی، گوشت مرغ وغیرہ میں وہ نرخ اور معیار کس طرح مستحکم کرسکے۔ اب گاہک خود طے کرتا ہے کہ اْسے کون سی چیز کس معیار کی اور کس قیمت میں لینی ہے۔
موٹی موٹی تنخواہوں پر کام کرنے والے افسر جونیئر افسروں کی فوج لئے بیٹھے ہیں اور فائلوں میں کاغذات کے انبار لگا رہے ہیں، لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ غریب لوگ پریشان ہیں۔ نانوائی، قصائی ، مرغ فروش الگ پریشان ہے، اور عوام کو لگتا ہے کہ اْنہیں لوٹا جارہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اشیائے خوردنی کا معیار قائم نہیں رہا۔ نانوائی بھی بیکنگ سوڈا ملاتا ہے، قصائی نچلے درجے کا گوشت 650 روپے فی کلو فروخت کرتا ہے اور مرغ فروش بھی من مانی کرنے پر مجبور ہے۔
سبزی کو ہی لیجئے۔ ہر بار نرخ نامے چھپتے ہیں۔ کہیں کچھ نہیں ہوتا۔ نہ عمل نہ نفاذ۔ پیاز فی کلو تیس روپے سرکاری طور مقرر ہے، لیکن گاہک کو بیس روپے بھی ملتا ہے۔ کشمیری کدو کا سیزن شروع ہو تو ایک کدو80روپے بکتا ہے۔ اْس وقت وہ نرخ نامہ کدھر جاتا ہے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا محکمہ امور صارفین صرف گوشت ، مرغ ، روٹی اور سبزی کے لئے ہے۔ بازار میں بے شمار اشیا بکتی ہیں۔ اگر محکمہ خوراک صرف خوراک کا نرخ طے کرنے کا مجاز ہے تو باقی اشیائے ضروریہ کا نرخ اور معیار کون دیکھے گا؟ وہ محکمہ کہاں ہے۔ بازار میں جوتا 2000 روپے میں بکتا ہے، ایک قمیض 500میں بکتی ہے اور اسی طرح کاٹن سوٹ ہزار روپے میں بکتا ہے۔ کون طے کرے گا کہ کیا نرخ ہونا چاہیے۔ اسی طرح گفٹ آئٹم، مبارکبادی کے کارڈ، نکاح نامے، بجلی کا سامان، کاسمٹکس وغیرہ۔ گاہکوں کو دو دو ہاتھوں سے لْوٹا جارہا ہے۔
میں اس کالم کے ذریعہ لیفٹنٹ گورنر جی سی مْرمْو اور اْن کی مشاورتی کونسل کو تجویز دیتا ہوں کہ قوانین میں مناسب ترمیم کرکے جموں اور کشمیر میں الگ الگ دو کنزیومر ڈائریکٹوٹریٹ قائم کریں، اور اْن کے منڈیٹ میں نہ صرف غذائی اجناس، روزانہ خوراک، ادویات بلکہ سبھی ضروری اشیا کا ریٹ کنڑول اور کوالٹی کنٹرول بھی شامل کیا جائے۔ کیونکہ نرخ قائم کرکے افسر اپنے سر سے بلا تو ٹال دیتا ہے، لیکن بیوپاری من مانی بھی کرتا ہے اور ملاوٹ بھی کرتا ہے، اور گاہک بھی یقین کرتا ہے کہ محکمے نے بغیرسوچے سمجھے نرخ طے کیا ہے۔ ایک تو ہم مہنگے داموں چیز خرید رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں کہ چیز کا معیار بہتر ہے کہ گھٹیا۔ موجودہ محکمہ خوراک و رسدات کو صرف چاول کی تقسیم تک محدود کیا جائے، اسی طرح ڈرگ کنٹرول کو ادویات تک محدود کیا جائے، جبکہ میونسپلٹی کو صفائی تک۔ ایک نیا اور بااختیار محکمہ وجودمیں آئے جو نہ صرف نرخ کو کنٹرول کرے بلکہ کوالٹی بھی کنٹرول کرے۔
ای میل۔ [email protected]
فون نمبر۔9469679449
(نوٹ۔ یہ مضمون عوامی مفاد میں دوبارہ شائع کیاجارہا ہے۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)