سرینگر //ہند پاک بات چیت کو یقینی بنانے کیلئے کسی’’دوست ملک‘‘ کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پانچویں جنگ کشمیر میں قیام امن کا حل نہیں ہے بلکہ دونوں ملکوں کو کسی بھی صورت میں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو کے دوران یہ بات زور دیکر کہی کہ ریاست جموں کشمیر میں امن کا قیام صرف اور صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تشدد سے متاثرہ ریاست میں امن قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہونے کے باوجود صرف بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔اس ضمن میں انہوں نے کہا’’ہم نے پاکستان کے ساتھ چار جنگیں لڑی ہیں، کیا پانچویں جنگ آگے بڑھنے کا ایک اور طریقہ ہے؟ہم بات چیت کرنا بند نہیں کرسکتے ، ہمیں آگے کا راستہ ڈھونڈ نکالنا ہوگا اور اسی سے ہم کسی حل پر پہنچ سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’میرا خیال ہے کہ اگر ہم سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو ہم کوئی حل تلاش کرسکتے ہیں، ہمیں دلی میں وزیر اعظم کی سربراہی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہئے ، کوئی ایک پارٹی اس کا حل نہیں نکال سکتی، تمام سیاسی پارٹیوں کو کانفرنس میں بلایا جانا چاہئے‘‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ بات چیت کا آغاز خود وزیر اعظم ہی کریں۔اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خود وزیر اعظم کو بات کرنی چاہئے، دیگر کئی طریقے اختیارکئے جاسکتے ہیں، ایسے ممالک کا استعمال کیا جائے جو بھارت اور پاکستان دونوں کے دوست ہیں‘‘۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہم سب(ریاستی عوام) تشدد سے تنگ آگئے ہیں، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کا خاتمہ ہوجائے، بہت خون بہہ چکا ، اب وقت آگیا ہے کہ ہم نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پورے ملک میں قیام امن کے بارے میں سوچیں‘‘۔ڈاکٹر فاروق کا مزید کہنا تھاکہ وہ علیحدگی پسندوں سمیت کسی سے بھی بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے اس بارے میں کہا’’میں کسی کے ساتھ بھی بات کرنے کیلئے تیار ہوں ، اگر اس سے امن کا قیام ممکن ہوتا ہے، میں جنگ کی وکالت نہیں کرتا بلکہ امن چاہتا ہوں‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ فوج کی بھاری موجودگی کے بیچ کشمیریوں کے دلوں کو کس طرح سے جیتا جاسکتا ہے؟نیشنل کانفرنس کے صدر نے کہا’’لوگوں سے پیا رکیجئے اور پر بھروسہ کیجئے،ہم ہندوستانی ہیں، پاکستانی نہیں!کشمیری اتنا ہی بھارت کا حصہ ہیں جتنا کہ ملک کے دیگر لوگ‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیری جو کچھ بھی کہتا ہے ، اسے ملک دشمن اور پاکستان نواز سمجھا جاتا ہے ۔