بلال فرقانی
سرینگر//یومِ تعلیم قومی کے موقع پر وادی میں والدین اور تعلیمی ماہرین نے نجی سکولوں کی مبینہ من مانی، فیسوں میں من چاہے اضافے اور عدمِ جواب دہی پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام دن بہ دن تجارتی شکل اختیار کر رہا ہے اور بیشتر ادارے قواعد و ضوابط کو نظرانداز کر رہے ہیں۔قومی یومِ تعلیم ِ مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمات کے اعتراف میں منایا جاتا ہے، جنہوں نے تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا تھا۔ تاہم والدین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں آج تعلیم محض استطاعتِ مالی کی بنیاد پر میسر ہے۔
محکمہ تعلیم کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر میں زیرِ تعلیم طلبہ میں سے تقریباً 46 فیصد یعنی 12 لاکھ سے زائد بچے نجی غیر امدادی نجی اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں، جو گذشتہ برسوں میں نجی اداروں پر بڑھتی ہوئی انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں نجی اسکولوں کی تعداد 2019-20میں 5,585 سے گھٹ کر 2023-24میں 5,452 رہ گئی ہے، تاہم ان اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب 77 فیصد تعلیمی ادارے سرکاری شعبے سے وابستہ ہیں لیکن ان میں مجموعی داخلے کا صرف 54 فیصد حصہ ہے، جو والدین کے رجحان میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔والدین کا الزام ہے کہ معروف نجی اسکول اپنی شہرت کا فائدہ اٹھا کر فیسوں میں از خود اضافہ کرتے ہیں، کتابیں اور وردی مخصوص دکانوں سے خریدنے پر مجبور کرتے ہیں اور والدین کی شکایات کو خاطر میں نہیں لاتے۔جاوید احمد خان نامی ایک والد نے کہا’’یہ اسکول تعلیمی ادارے نہیں بلکہ کاروباری مراکز بن چکے ہیں۔ فیسوں میں بلاجواز اضافہ کیا جاتا ہے اور کسی کو وضاحت نہیں دی جاتی۔‘‘تعلیمی حقوق کارکن شکیل ولی کا کہنا ہے کہ فیس کا تعین ضوابط طے کرنے والی کمیٹی (ایف ایف آر سی) کے قیام کے باوجود اس کے احکامات پر عمل آوری کمزور ہے۔ انہوںنے کہا’’زیادہ تر ادارے قواعد وں میں خامی کا فائدہ اٹھا کر نئی مدوں میں چارجز لگاتے ہیں۔ کوئی باقاعدہ آڈٹ یا عوامی رپورٹنگ نہیں ہوتی۔‘‘اساتذہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ نجی اسکولوں میں کم تنخواہیں اور غیر محفوظ ملازمتیں عام ہیں۔ ایک خاتون استاد غوثیہ بشیرنے بتایا’’نامور سکولوں میں بھی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ بعض اساتذہ مزدوروں سے بھی کم کماتے ہیں۔‘‘ماہرینِ تعلیم کے مطابق یہ رجحان تعلیمی نابرابری میں اضافہ کر رہا ہے۔ انہوںنے کہا’’مولانا آزاد نے تعلیم کو حق قرار دیا تھا، لیکن آج معیاری تعلیم صرف اْنہی کو دستیاب ہے جو ادا کر سکتے ہیں۔‘‘ادھر سرکاری اسکولوں کی حالت بھی تشویش ناک ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں 1,330 اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ہی استاد تعینات ہے، جو 31 ہزار سے زائد طلبہ کو پڑھا رہے ہیں۔ماہر تعلیم پروفیسر پیر خورشید کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اداروں کی نگرانی سخت کرے، فیسوں پر شفافیت لائے اور سرکاری اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنائے تاکہ معیاری تعلیم سب کے لیے یکساں طور پر دستیاب ہو۔