۳ ؍ اپریل کو قندوز افغانستان میں قابض نیٹو فوج کے فضائی حملہ میں تقریباً 150سے زائد حفاظ قرآن کریم شہید ہو گئے اور سینکڑوں زخم زخم ہیں، شہداء میں زیادہ ترحفاظ قرآن شامل میں ۔ یہ منصوبہ بند دجالی حملہ اُس وقت کیا گیا جب مدرسے میں حفاظ کی دستار بندی کی تقریب جاری تھی ۔ کسی د ار العلوم میں عموماًد ستار بندی کی تقریب اس وقت منعقد ہوتی ہے جب مدرسے میں علمائے کرام کی نگرانی میں وہاں زیر تعلیم بچوں کی عزت افزائی اور تقسیم اسناد کا مرحلہ آئے۔ حفاظ کرام کی دستار بندی کامدعا ومقصد انہیں شاباشی دینا ہوتا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنے سینے میں محفوظ کر نے کا عمل پایہ ٔ تکمیل تک پہنچا ہو ۔ان خوش نصیب طلبہ کی آخر پرمد رسے میں اپنے والدین اور عزیز و اقرباء کی موجود گی میں حوصلہ افزائی کے طور پر دستاد بندی کی جاتی ہے ۔اس موقع پر علماء نہ صرف حفظ قرآن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں بلکہ نئے حفاظ کرام کو اپنی منصبی ذمہ داریاں سمجھاتے ہوئے ان کے آئندہ کے سماجی کردار سے باخبر کر تے ہیں اور یہ پُر مسرت لمحات دعاؤں اور پاکیزہ خوشیوں کے اظہار کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوتا۔ گویا دستار بندی خالصتاً ایک مذہبی تقریب ہوتی ہے جس کا لب لباب مسلم معاشرے کو مذہبی علماء کی کھیپ سپردکرنا ہوتا ہے۔ افغانستان کے قندوز علاقے راچی میں بھی دارالعلوم الہاشمیہ عمر یہ کی تقریب دستار بندی اسی ایک مقصد کے تحت مقامی انتظامیہ کی اجازت سے منعقد ہورہی تھی۔اس کے لئے مد رسے نے رسمی طو ایک ماہ تک تشہیری مہم چلائی جس کے ذریعے تمام لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اس مذہبی تقریب میں ذوق وشوق سے شروع کریں ۔ جب یہ تقریب پورے جوش وخروش سے ہورہی تھی تو دوگن شپ ہلی کواپٹروں نے اس پر اندھا دھند بمباری کر کے جن یمامہ کی خونین یاد تازہ کی ۔ ان معصوم حافظ قرآن بچوں کا قصور کیا تھا ، یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے ۔ حملے کی زد میں آنے والوں نے کلام اللہ کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا تھااور اب اسی خوشی میں جھوم رہے تھے کہ ہماری دستار بندی ہو ئی۔ ہر ایک ننھے حافظ کی یہ دلی خواہش ہوتی کہ قرآن کریم حفظ کا صلہ اُسے اور اس کے والدین کواپنی رضا کی صورت میں دے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ امریکہ جیساسفاک ملک ان کو حیاتِ ابدی کاجام پلانا چاہتا ہے اور شہادت کا کفن ان کے زیب تن کر نا چاہتے ہیں ۔ اس عالمی دہشت گرد ملک نے اپنے بمبار طیارے موقع ٔ واردات پر بھجواکر اپنے منہ پر پھر ایک انسان دشمنی کی کالک پوت دی ۔ان معصوم بچوں نے تین چار سال تک رات دن ایک کر کے قرآن کریم کو حفظ کر لیا ہوتا، اب انہیں یہ سوچ کر بڑی تکلیف ہوتی کہ ہم اپنے مدرسے ، اساتذہ اور ساتھیوں سے بچھڑ رہے ہیں لیکن ان کو کیا خبر تھی کہ وہ اب قیامت تک اپنے مدرسے کی خاک میں اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے ہمراہ قرآن کریم کادورہ ابدالآباد تک جنت کے باغات میں کر تے رہیں گے ۔ ظالم نے سوچا ہوگا ہم نے ان کی زندگیوں کے چراغ گل کئے لیکن چارسالہ محنت کی خوشیوں کو پل بھر میں ملیا میٹ کر کے درندگی اور ظلم کی ایسی تاریخ رقم کریں گے کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہو جائے گی ۔
مدرسے کے بچے ہنستے مسکراتے اور خوشی سے جھومتے اپنے والدین کے سامنے بس اسی انتظار میں تھے کہ اب ہم اس کامیابی کے بعد گھر جائیں گے کہ اس بیچ درندہ صفت افغان فوج نے اچانک مدرسہ پر بم اور بارود کی برسات کر دی، نتیجہ یہ کہ معصوم بچوں کے ا جسام ٹکرے ٹکڑے ہوکرہر طرف بکھرے گئے ۔اس واقعہ سے قبل بھی کئی بار نیٹو فوج نے افغانستان پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیا مگر آج افغان فوج نے خود نیٹو کی قیادت میں معصوم بچوں کی زندگیاں یہ جھوٹ گھڑ کر چھین لیں کہ اس مدرسے میں طالبان کے کمانڈر موجود تھے ۔دوسری جانب افغان طالبان نے دعویٰ کیا کہ کابل کی وحشی فوج نے بھارتی ہیلی کواپٹروں کے ذریعے مدرسہ پر بمباری کی اور اس میں کوئی صداقت نہیں کہ بمباری کے دوران مدرسے میں کوئی طالبان رہنما موجود تھا ۔طالبان نے اپنی ویب سائٹ پرخلاصہ کیا کہ جارح امریکی و کٹھ پتلی فوجیوں نے بھارتی ہیلی کواپٹروں کے ذریعے صوبہ قندوز ضلع دشت ارچی پٹھان بازار کے علاقے میں واقع ہاشمیہ عمریہ نامی دینی مدرسہ پر اُس وقت شدید بمباری کی جب وہاں معمول کے مطابق حفاظ کرام اور دینی علمائے کرام کی دستار بندی کی تقریب جاری تھی۔اس حملے میں 150علمائے کرام ،طلبہ ،حفاظِ کرام اور ان کے عزیز و اقارب شہید اور شدید زخمی ہوئے ۔
قندوز مدرسے پر بمباری پہلا موقع ہے جب کسی حملہ میں بھارتی طیارو ں کو اس ناپاک مقصد کے لئے استعمال میں لایا گیا ۔قندوز شہرکے مرکزی ہسپتال میں موجود عبدالخلیل نامی عینی شاہد جو فضائی حملے کے بعد جائے واردات پر سب سے پہلے پہنچنے والے افراد میں شامل تھا، کا کہنا تھا کہ اس نے مدرسے میں خود کم از کم 35؍لاشیں دیکھیں ۔ نہتوں پرحملے کے بعد مدرسہ کسی مذبخ کا منظر پیش کر رہا تھا ،جہاں ہر جانب خون ،انسانی اعضاء اور کٹی پھٹی لاشیں تھیں،ہر سو خون ہی خون تھا اور معصوم بچوں کے اَنگ اَنگ جیسے الگ الگ کاٹے گئے تھے ۔سوشل میڈیا پر ان شہید بچوں کی لاشیں دیکھنا ہر سلیم الفطرت کیلئے ناقابل برادشت ہے لیکن افسوس صد افسوس دنیا میں ’’امن اور انسانی حقوق ‘‘کے نام نہادعلمبرداروں اور خون ریزیاں بند کرنے والے ’’صلح پسندوں‘‘ پر جن کو فرانس۔ لندن اور امریکہ میں کسی ایک انسان کا مرنا نظر آتا ہے،جن کو دنیا میں کتوں اور بلیوں کی ہلاکت پر افسوس جتانا آتا ہے، جن کو ملالہ کا زخمی ہونا بھی یادہے لیکن قندوز میں معصوم وکم سن بچوں کے جسموں کی چیتھڑے اُڑتے نظر نہیں آتے! پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے ردعمل میں پاکستان میں مہینوں احتجاج ہوا،ان بچوں کے سوگ میں دن میں ہی شمعیں جلانے کی رسم ادا کی فکر رہی ،ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پر زور انداز میں اس وحشیانہ حملہ کی مذمت ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی لیکن قندوز میں قیامت صغریٰ بپا ہونے پر یہ ماتمین بے حس وحرکت ہوئے۔کالم نگاروں ، تجزیہ کاروں اور عالمی میڈیا کو فرانس یا پورپ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کو بریکنگ نیوز کے طور چلانا یا درہا لیکن قندوز کے قتل عام پر وہ خاموش کیوںرہے ؟ اسٹیفن ہاکنگ اور سری دیوی کی موت پہ خوب ماتم منایا گیا لیکن قندوز کے بچوں کے لئے ماتم تودورکسی نے بھولے سے بھی قلم اور کیمرے کو جنبش نہ دی۔کیوں کرتے وہ افسروں اور حکمرانوں کے بچے نہیں تھے، وہ تو غریب گھرانوں کے قرآن خوان تھے ،ان کے لئے آنسو کیوں ضائع کر یں ؟ جدید ذہن کے مالک ان گھٹیا سوچ رکھنے والے فرانس پر روتے ہیں، کسی انگریز بچے کو کانٹا چبھ جانے پر واویلا مچاتے ہیں انہیں دقیانوسی اور رجعت پسند کہلانے والوں کادرد محسوس کیوں ستائے؟یہ الگ بات ہے کہ قندوز میں امریکہ جیسے مکار و عیار اور انسان بیزار ملک کے ہاتھوں نہتے معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل عام عالمی ضمیر کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے ۔اس بلاجواز حملے سے عالمی امن پر تباہ کن اثرات مرتب ہو ناطے ہے کیونکہ ہر عمل کا فطری طور ایک ردعمل ہونا قانون قدرت ہے۔
دنیا کو اپنا یہ دو غلا پن چھوڑ دینا چاہیے اور غیر جانبداری سے دنیا میں نہتوں اور بے نواؤں پر ہو رہے مظالم کے خلاف متحد ہ طور منظم آواز بلند کرنی چاہیے ۔ٹھیک ہے موجودہ دنیا کی شیطانی قوتیں اور اسلام دشمن عناصر اسی لئے جی رہی ہیں کہ مسلمان مریں کیونکہ اس سے ان کے حقیر مفادات کو تقویت ملتی ہے مگر کیا ہم پر بحیثیت اُمت ِواحدہ باطل کی آفتوں اور شامتوں پر چپ سادھ لینا روا ہے ؟’’نبی مہربانﷺ نے فرمایا ہے:’’ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے یعنی آنکھ کو تکلیف ہو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے اور اگر پا ئوں کو درد ہو تو جسم کے ہر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے ‘‘۔ ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا کربلائے قندوز سے یا کشمیر ، فلسطین ، میانمار، مصر ، شام اور یمن کے قتل وخون سے ہمیں دلی تکلیف پہنچتی ہے؟کیا ہماری آنکھ سے ان مسلم خطوں کی غارت گریوں اورصدموں پر آنکھوں سے کوئی آنسو بہہ نکلتے ہیں ؟ کیا مظلومان ِ جہاں کاہموم وغموم سے آزادی کے لئے ہم دست بدعا ہوتے ہیں ؟ کیا ہماری ریاستیںاور مملکتیں اپنے دفاع جدید اسلحہ اور تیکنالوجی سے لیس ہیں؟گر جواب اثبات میں ہے تو ہمیں اللہ کی نصرت بہ طفیل معصوم حفاظ ِ قرآن اور شہدائے جہان ضرور ملے گی چاہے امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور ان کے حربی چیلے چانٹے کتنا بھی زور لگائیں ، باطل کا ذہوق ہونے والا ہے۔اللہ تعالی قندوز کے شہداء کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔آمین!
رابطہ نمبر9906664012