امریکا کی زیر قیادت استعماری قوتوں نے پیہم حملوں کے ذریعہ مسلم ممالک بالخصوص افغانستان پر اپنا ناپاک تسلط جمانے کی بھر پور کوشش کی، ملک گیری کی یہی ابلیسی ہوس افغان سرزمین کے متعدد علاقوں کو کشت و خون میں نہلا چکی ہے، اس کے ہر بزدلانہ حملے میں اب تک ہزاروں نہتے شہری شہید اور زخمی، بڑے اور چھوٹے دیہات تباہ وبرباد اور، باغات و جنگلات بھسم ہوچکے ہیں ، جب کہ اس کا زرخرید عالمی میڈیا امریکہ کے جنگی جنون میں ہلاک شدہ افغانوں اور اُس برباد کی گئی قوم کو ’’دہشت گرد ‘‘جتلاکر ساری دنیا کے سامنےمظلوم کومجرم اور ظالم کو مسیحاکی حیثیت سے پیش کرنے کا رقص نیم بسمل کر رہاہے۔ قندوز کے مدرسہ پر ڈیڑھ سو کے قریب ننھےحفاظ قرآن پر امر یکی بمباری اسی سلسلے کی ایک تازہ مثال ہے جو امر یکہ کی آدم خور جنگ اور دہشت پسندانہ جنون کو از سرنو بے نقاب کر تی ہے ۔ حق یہ ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی، فسادانگیزی اور ستم رانی کی انتہاؤں کا دوسرا نام ’’امریکہ‘‘ ہے۔مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے خلاف ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کرنے والا یہ سفاک درندہ ملک مسلسل مسلم ممالک کو کچلتا روندتا جارہاہے ،ان کے لئے زمین تنگ کر تاجارہاہے ،اسلام کی قبولیت عامہ سے خائف ہوکر مسلمانوں کو ہر اعتبار سے بدنام کر تا جارہاہے اور عالمی دہشت گرد ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مہذب ترین قوم اور جمہوریت وحقوالبشر کا حامی ملک باور کرانے کی نامراد کوششوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہتا ہے ۔ ’’انسانیت کا تحفظ اور دہشت گردی کا انسداد ‘‘ کے خوش نما نام سےاپنا بہیمانہ ایجنڈا لے کر یہ دنیا کے طول وعرض میں جمہوریت پر بھاشن دیتاہے ،امن کانفرنسیں منعقد کرتا اور کرواتا ہے لیکن اس کی صلیبی سوچ، ناپاک عزائم ، اسلام دشمنی اور آدم خوری قندوز جیسے المیوں سے خود بخود آشکارا کرتی ہے کہ عالمی پولیس مین پہلے مسلم ممالک میں داخلی انتشار و اندرونی خلفشار کو جنم دیتا ہے، پھر منصوبہ بند سازش کے تحت یکے بعد دیگرے اُنہیں بہانے کر کے مسمار کرکے چھوڑتاہے۔ ا س حوالے سے افغانستان ، شام ، عراق ، فلسطین ، لیبیا ، مصر اور تیونس وغیرہ میںا س کے کالے کر توت عیاں وبیاں ہیں ۔ اور ملکوں کی چھوڑیئے انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کے مطابق صرف افغانستان میں گزشتہ سترہ برسوں کے دوران امر یکہ اور اس کے حربی حلیف ناٹو نے ڈھائی لاکھ سے زیادہ بے بس و نہتے شہری شہید کرڈالے، جب کہ ہزاروں کو ملک و بیرون ملک قید اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پرستم در ستم یہ کہ خود کو دنیا میں انسانیت نواز، ترقی پسند اور آزاد خیالی کہلوانے و کا دھنڈوا پیٹتا ہے ۔حقیقت حال یہ ہے کہ اس درندہ صفت ملک کی آمریت، جارحیت اور دہشت کا سلسلہ ساری مسلم دنیا میں کہیں براہ راست اور کہیں بلواسطہ جاری وساری ہے۔ امر یکہ نے گزشتہ چند سالوں میں یہ ا حسا س کر کے کہ ہم جنگ ہار چکے ہیں اور ہماری جنگجوئیت اور دہشت گردی ہمارے مادی وسائل کو ختم کر کے ہماری دمڑی دمڑی نچوڑ ے گی اور قوم کو مآل کار کنگال کر کے رکھ دے گی ۔ اسی احسا س کے دباؤ میں واشنگٹن نے اپنے میدان ہائے جنگ سکیڑنے اورشہری ہلاکتوں میں نسبتاً کمی لانےکے ارادے سے اعلان کیا تھا کہ ہم کابل چھوڑ رہے ہیں ، بغداد سے بوریا بسترہ گول کررہے ہیں ، لیکن ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک بار پھر یہ پالیسی ترک کر کے صلیبی جارحیت پسندی کی وحشیانہ مہم شدو مد سےشروع کر دی ۔اس حکومت نے اپنی نئی مسلم بیزار حکمت عملی پر عمل پیرا ہوکر زیر جنگ مسلم دیسوں میںفوجی کارروائیوں کا لا منتہا ئی سلسلہ شروع کیا جس کے چلتے اس نے بلا تکلف مسلم عوام کو تہ تیغ کر نے کی نیت سے گنجان آبادی والے علاقوں پر بمباریوں کا سلسلہ چھیڑ دیا ہے، میزائل اور ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا ہے اور اپنے خون تشنہ جبڑوں کو مظلوم انسانوں کے خون سے رنگ دیا ہے۔
کچھ دن قبل قندوز میںامر یکہ کی اخلاقی شکست، انسان دشمنی ،حواس باختگی اور جنگی جنون کاایک نیا منظر اس وقت دنیا کو رنج و غم اور سوگواری میں لے ڈوبا جب اس نے ایک مدرسہ پر بلاجواز فضائی حملہ کیا ۔ اطلاعات کے مطابق امر یکہ کی سر براہی میں نیٹو اور افغان فورسز نے یہاںبدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حفاظ قرآن اور علمائے اُمت خیرالانام ؐپر بے تحاشہ بمباری کر کے سینکڑوں کو شہیداوراَن گنت شرکائے مجلس کو زخمی کردیا۔ سینئر طالبان کمانڈر کے مطابق مدرسے میں کم سن حفاظ کی دستار بندی کی تقریب میں 2 ہزار افراد شریک تھے جس میں 750صرف طلبائے اسلام تھے۔ آناًفاناً امر یکہ گن شپ ہیلی کوارپٹر نے اس دینی مجلس پر بم پھینکنے کہ پلک جھپکتے ہی جائے وقوعہ پر شہیدوں اور زخمیوں کے انبار لگ گئے ۔ اس وقت سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان معصوم لاشوں پر آہ و فغاں اور ماتم و شیون کیا جائے یا اس قتل عام پر دنیائے بھر میں اختیار کی گئی مجرمانہ خاموشی پر بلک بلک کر رویا جائے؟ امریکہ سے کیا گلہ کہ اس کی تو تاریخ کے ورق ورق پر خون مسلم کی ارزانی جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے،سوال یہ ہے کہ وہ موم بتی لشکر کہا ں ہے جو یورپ یا دنیا کے کسی بھی گوشے میںکسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کو بغیر کسی تحقیق کے مسلمانو ں سے منسوب ہوتے ہی سڑکوں پر امڈ آتا ہے اور اسلام و مسلمانوں کو برا بھلا کہہ کر اپنی موم بتیوں سے سچائی کی راہ میں اندھیرا پیدا کرتے ہیں اور گلدستوں کو ہاتھ میں لے کر ظالموں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں؟ آج قندوز میں امر یکہ کی بدترین دہشت گردی پر یہ لشکر کہاں سویا پرا ہے ؟ وہ امن پسند حضرات نگاہوں سے گم کیوں ہیں جوآئے دن حقوق انسانی کا دم بھر کر اہل اسلام کو بدامنی کاذمہ دار قراردے کر انہیں کوستے رہتے ہیں؟روشن خیالی کے وہ مدہوش ملنگ کدھر ہیںجو گلا پھاڑ پھاڑ کر فرمایا کرتے ہیں کہ ہمارا تو مذہب ہی انسانیت ہے؟ شاید ان کے نزدیک انسانیت کا خون تب ہوتا ہے جب کوئی گورا مارا جاتاہے،کوئی گستاخ وشاتم اسلام اپنے انجام کو پہنچ جاتاہے! انسانیت کا درد تب پوری قوت کے ساتھ ان میں جوش مارتا ہے جب مرنے والا یہود و نصاریٰ میں سے ہو۔ ویسے یہ حضرات دعویٰ تو مذہب سے بڑھ کر صرف انسانیت کا کیا جاتا ہے، مگر کلمہ گو ؤں کو ہول سیل میں مارے جانے پر ان کی انسانیت اگرجاگتی تو قندوز بمباری میں شہید ہوئے ننھے منوں اور بزرگوں کا خون انہیں اتنی غیرت دلاتا کہ یہ امریکہ سے نرم لفظوں میں اتنا تو کہتے: اے کرہ ٔ ارض کےبے اصول ، بزدل اور بے بھروسہ دہشت گرد! کچھ لاج شرم تو کر ، کیا بگاڑ تھا ان کم عمر حفاظ قرآن نے تمہارا کہ تم نے شہادت کی خونین قبائیں پہنا کرانپی ’’بہادری ‘‘ کی دھاک بٹھائی، اپنی کمینہ خصلت کا مظاہرہ کیا ، اسلام سے خدا واسطے بیر کا اظہار کیا ؟ یہ حملہ تم نے آدمیت کے خلاف کیا ، امن اور انصاف کی عمارت ڈھانے کے لئے کیا ؟ دنیا میں جنگل راج کا بولا بالا کر نے کے لئے کیا لیکن نیند کے ان ماتو میں چونکہ نہ انسانیت ہے نہ اخلاقی جرأت کہ یہ حق گوئی کر سکیں اور امریکہ سے بتا سکے کہ تمہارا عالمی نظام تلوار سے شروع ہوتا ہےا ور خون پر ختم ہوتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کم ظرف اور خود غرض لوگوں کی’’ انسانیت‘‘ تب تب مکمل طور پر سو جاتی ہے جب جب عالمی غنڈے افغانستان ،شام ، عراق ، فلسطین وغیرہ کے نہتے اور بے قصور مسلمانوں پر جبر و قہر ڈھائیں، ان ملکوںکو اپنے قدرتی وسائل سمیت نگل جانے کی خاطر زہریلی گیسوں، کیمیائی ہتھیاروں اور نت نئے مہلک توپوں کا تجربہ کریں۔
اٖفسوس قندوز لہو لہو ہے مگر عالمی میڈیا اس المیہ کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہے۔ ذرا غور فرمایئےکیا خوب صورت سماں اور حسین ودلکش نظارہ ہوگا جب درجنوں ننھے حفاظ، پچاسوں علماء دستار باندھے آخری سبق کی تلاوت و تیاری کررہے ہوں گے، کیسےمسرت آمیز لمحات اور خوش کن گھڑیاں ہوتیں کہ اساتذہ اپنی روحانی اولاد کو تیار کرکے فرحت و شادمانی محسوس کر رہے ہوں گے،ان والدین کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوتا جو اپنے قرآن خوان لخت جگر اور نورنظر سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ ہائے افسوس !کہ یک بار یہ تمام خوب صورت کلیاں، ننھے غنچے،معصوم کلیاں جو کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئیں، پھول بننے سے پہلے ہی توڑ دئے گئے،بڑے ہونے سے پہلے ہی موت کے منہ انڈیلےگئے۔ تلاوت کلام پاک کی وہ پیاری پیاری خوش لحن آوازیں،نورِایمان سے تاباں وہ روشن و درخشاں چہرے،سفید لباس میں ملبوس وہ فرشتہ صفت بچے،آن کی آن میں خاک و خون میں غلطاں ہوگئے،لاشوں کے ڈھیر لگ گئے،ایک دو معصوم نہیں،درجن دو درجن بچےنہیں،پورے ایک سو ایک( یا ڈیڑھ سو ) طلبہ شہید کردیےگئے، وہ بھی ایسے طلبہ جو قرآن کی گراں قدر امانت اپنے سینوں میں سجائے ہوئے تھے،وہ طلبہ جو دستار فضیلت باندھے بخاری شریف کی آخری روایت پڑھ کر دعوت دین کےلیے پرعزم ہوچکے تھے،وہ طلبہ جو دنیوی و اخروی اس عظیم کامیابی پر جشن منارہے تھے مگر یہ کیا ہوا کہ ماں کی آنکھوں کے چراغ بجھ گئے ،باپ کی امیدوں کے دئیے گل ہو گئے،اساتذہ کےلگائے ہوئے سرسبز وشاداب باغ اُجڑ گئے،مستقبل کے روشن ستارے معدوم گئے،اُفق کے مہر و ماہ ہمیشہ کےلئے غروب ہوگئے۔ علامہ شبلی نعمانی نے شاید اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھاتھا ؎
یہی دس بیس اگر ہیں کشتگان خنجر اندازی
تو مجھ کو سستی بازوئے قاتل کی شکایت ہے
عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں کہ یہ بچے ہیں، اُن کو جلد سو جانے کی عادت ہے۔ ان کے لئےلفظ ’’ شہید ‘‘ بھی کتنا موزوں ہے نا ہر سانحے کی تصویر کشی کے لئے! کسی جہاز کا حادثہ ہو،کہیں اسکول پر حملہ ہو ،زلزلہ یا سیلاب ہو،معصوم بچوں کا قتل ِعام ہو، ہم یک زباں کہہ دیتے ہیں کیا کریں کہ سب شہید ہو گئے ، اللہ کی راہ میں قربان ہو گئے! کتنا سہل ہے، ایسے چند رٹے رٹائے جملے کہہ دینا،خواہ یہ فقرے اَرباب ِاقتدار ادا کریں یا ہم اور آپ ، ہمارے پاس سوائےحسرت وافسوس کے اور کچھ نہیں، کاش ہم ان ماؤں کے دُکھ کو محسوس کر سکتے ، ان باپوں کی تکلیف کا تصور کر سکتے جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے ایک اعلیٰ مقصد ِزندگی کےحصول کے لئےمدرسہ روانہ کیا ، اُن کے شاید وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مدرسہ جیسی محفوظ جگہ اور ختم قرآن مجید کا عظیم اجلاس بھی اعدائے دین مقتل میں تبدیل کر یں گے،وہ آج بھی شاید اولاد کے استقبال میں سراپا انتظار تھے،دیدہ و دل کو فرش ِراہ کئے ہوئے تھے،گھر بارسجائے جارہے تھےمگروالدین کو کہاں پتہ کہ ان کےنونہالوں کو تو سیدھےجنت النعیم جاناہے،وہاں کی دائمی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا ہے،وہاں فرشتے ان کا انتظار کررہے ہیں اور معصوم بچے زبان حال سے کہہ رہے ہیں ۔اس حوالےسےاستاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؔ مدظلہ محدث دارالعلوم دیوبند ارقام فرماتے ہیں:حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی، کا لیبل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کرنے کا کھیل عالمی سازش کا حصہ ہے جس کی خاکہ سازی اور انہیں برپا کرنے کی عملی تدابیر میں عالمی صہیونیت اور اسلام دشمن عناصر یہودیت کا پورا پورا ہاتھ ہے،جن کی چاپلوسی اور حکم برداری میں مسلم ممالک کے بعض اسلام بے زار حکمراں اور دیگر ممالک کی مسلم دشمن تنظیمیں پورے شدومد کے ساتھ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ اسلام کو ’’دہشت گرد‘‘مذہب اور مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ہم اس بات کو بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم ثابت کرنے کا اصل مقصد کیا ہے اور اس کے بہانے مسلم نوجوانوں، دینی اداروں، اسلامی تنظیموں، مسلم دانشوروں اورعلماء کرام کی مقدس ہستیوں کو دیدہ ودانستہ طور پر اس کا نشانہ بنانے کا مقصد کیا ہے؟ اسلام جو خدا تعالیٰ کا آخری اور پسندیدہ دین ومذہب ہے، جس کا ہر ہر احکام انسانی طبیعت اور تقاضائے فطرت کے عین مطابق اور نظام کائنات کی سلامتی و ترقی کے لیے بنیاد اور سرچشمہ ہیں، حیاتِ انسانی پر مشتمل سارے شعبوں میں رہ نمائی اور زندگی کی صحیح ڈگر سے ہٹے ہوئے لوگوں کی دستگیری کرتے ہیں، اس کی تعلیمات بڑی پاکیزہ، صاف و شفاف حقوق انسانی کی محافظ، امن وسلامتی کی ضامن اور مرضیٴ حق کے عین مطابق ہیں۔ نیز اسلام نے بڑی قلیل مدت میں اپنی صداقت و حقانیت پر صدہا ہزار مستحکم دلائل اور اپنی تلوار امن ومحبت اور مساوات وخوش اخلاقی کے ذریعہ پورے عالم کے حق پسند، حق جو اور حق شناس لوگوں کے قلوب میں جو غیرمعمولی اور بے پناہ مقبولیت اورعظمت حاصل کرلی ہے،( اسلام کی ان امن پرورانہ اور انسانیت نواز تعلیمات ) پر معاندین ِاسلام کی حیرانی اور بوکھلاہٹ بےجا نہیں ہے۔ گرچہ وہ اسلام دشمن، خبیث ذہنیت کے حامل، دل سے اس کی صداقت وسچائی اور حقانیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں، مگر ان کی ( بوجہلی سوچ ) بے جا دشمنی اور عناد نے انھیں حق کو تسلیم وقبول نہ کرنے اور اس کی مخالفت پر کمر کس لینے، نیز اسے دبانے اور مٹانے کیلئے آمادہ کردیا ہے۔(ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند) ۔ نام نہاد انسانیت کے علم برداروں سے سوال ہے کہ وقفے وقفے سے امریکہ کیوں مسلم ممالک پر چڑھ دوڑتاہے؟ اسلام دشمن طاقتوں یہود و نصاریٰ کو بار بار عالمی غنڈے کی جنگی کارروائیوں سے مسلم اقوام کے خلاف ناپاک جسارتیں کرنے کا حوصلہ مل رہا ہے؟ کیا اس قسم کی گھٹیا حرکات سے دنیا میں برداشت اورامن کو فروغ مل سکتا ہے؟ کیا قندوز اور غزہ جیسے فوجی ایکشن دنیائے انسانیت میں مزید انتشار وخلفشار، انتقام گیری اور عدم برداشت کی آگ کو بھڑ کانےکاباعث نہیں ثابت نہیں ہوسکتے؟ کیا اس سے تہذیبوں کے تصادم کا اندیشہ یقین میں نہیں بدل رہاہے ؟ ان سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ امر یکہ کمونزم کے بعد اسلام سے خائف ہے ،اس لئے کہ یہ ناقابل تردید حق ہے جس کا مقابلہ کر تے ہوئے وقت کا ہر ابوجہل بالآخر مات کھات ، امریکہ یہ حقیقت سمجھتا ہے،ا س لئے آنکھیں بند کر کے کبھی ایک شام پر چل دوڑتا ہے اور کبھی قندوز پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک اسلام دنیا میں بالا نشین ہو کر عالم کفر نیست ونابود نہیں ہوتا اور یہ و قت قریب تر ہو رہاہے ۔