قندوز کا المیہ۔۔۔ ہائے یہ کس جرم میں انکل سام نے معصوم بچوں کو زندہ درگور کیا؟مورخ ضرورلکھے گاکہ اکیسویں صدی میں اُمت مسلمہ اطراف واکناف میں لہو لہوتھی۔ مسلمان باطل کے آسان ٹارگٹ تھے ،اُن کے دینی شعائرکی توہین کرنا آسان اور انہیں قتل کرنا آسان ترتھا۔ وہ لکھے گاکہ اکیسویں صدی کے فرعون اور نمردو کی سربراہی میں شام کے الغوطہ ،فلسطین کے غزہ ،کشمیرکے شوپیان اورافغانستان کے قندوزمیں ایسے عظیم ترین خونی سانحات پیش آرہے تھے کہ زمین کانپ رہی تھی اور آسمان لرز رہاتھا۔ شام سے لے کر کشمیر اور فلسطین سے افغانستان تک ہر طرف خواتین ،پیروجوان اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ وقائع نگار لکھے گاکہ یہ سب مسلمانوں کے ’’رہبروں‘‘ کی رہزنوں سے سانٹھ گانٹھ سے ممکن ہوا تھا ،وہ لکھے گاکہ مسلمان ممالک پر مسلط موروثی بادشاہ اور سول و ملٹری ڈکٹیٹر تھے جو امریکہ کے ڈکٹیشن پر کہیںاپنوں کا خون خود کر تے پھرتے تھے اور کہیں غیروں کو یہ شوق پورا کر نے میں ممد ومعاون بن رہے تھے تاکہ ان کی کرسیٌ اقتدار اور تاج وتخت صحیح سلامت رہیں۔مورخ لکھے گاکہ مسلم لکھے گاکہ مصر میں جنرل سیسی نے اخوان المسلمون پر ٹینک چڑھائے اور چار ہزار افراد کو کچل کر شہیدکرڈالا، بنگلہ دیش میں حسینہ واجدنے نوے برس کے دین داروں کو پھانسی پرچڑھادیا اولکھے گا کہ عین اس موقع پرجب روئے زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار تھی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اہل عرب امہ کی لاش پرتاش کھیلنے کے لئے’’کیسینو‘‘کاافتتاح ایک معروف عالم دین کرارہے تھے، سعودی شہزادہ سلمان امریکہ میںیہودی میڈیاکے سامنے ببانگ دہل اعلان کررہے تھے کہ اسرائیل کو’’اپنی زمین‘‘ پرحق حاصل ہے اورہمارے اوراسرائیل کے دشمن( مطلب ایران ) یکساں ہیں۔مورخ لازماًلکھے گاکہ امریکہ نیو ورلڈ آرڈر ( یا جیو ورلڈ آرڈر ) کی آڑ میں اُمہ کوخون میں نہلارہاتھا اور امریکہ کہ تمام جرائم میں شریک ِجرم یا سہولت کار کے طور پر مغربی ممالک اس کے شریک و سہیم تھے ، جب کہ روس،بھارت اور میانمار وغیرہ انفرادی طور پر بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے خون بہانے میں اپنابھرپور حصہ ڈال رہے تھے ۔
امہ کے دردوکرب کی تازہ خونریزی کی داستان الم کی شروعات کہاں سے کریں۔سچ پوچھیں توسمجھ نہیں آتا کہ یکے بعد دیگرے ہمیں اتنے سارے دلدوزواقعات اور المیوں سے سابقہ پڑے گا ۔ اس داستان کاکہاں سے آغازکریں ؟ کیا کشمیرکے سرفروش اعتماداحمد ملک کاتذکرہ کریں کہ جس نے اپنی جان قربان کر تے وقت دیوارپراپنے خون جگرسے کلمہ شہادت لکھاتاکہ ا س کارب گواہ رہے کہ اس کلمے کی سربلندی کے لئے اپنی جان نچھاور کی؟یاپھران کے والدگرامی ملک فیاض کی فیاضی سے بات شروع کریں جس نے اُس صاحبِ خانہ کے ہاتھ نقدآٹھ لاکھ روپیہ تھمادئے جس کاگھر میںان کے فرزندکی موجودگی کے باعث یہ گھر زمین بوس کردیا گیا؟یا وہ داستان رقم کریں کہ جب کشمیرکے ایک محصور سرفروش اور اُن کے باپ کے مابین ایک ایمان افروز آخری گفتگو ہوئی جس میں باپ نے اپنے بیٹے کو نہایت بلندحوصلوں کے ساتھ بیٹے کو سینے پہ گولی کھانے کی نصیحت کی اور بیٹااپنے والدگرامی سے خطائیں لغزشیں معاف کر دینے کی استدعا کی؟ یاپھرقندوز افغانستان ک ننھے منے حفاظ قرآن پر امریکی دہشت گردانہ بمباری کے نابل برداشت صدمے پر قلم کو جنبش دیں جن سے اب عرش پر فرشتے قرآن کی تلاوت سنتے ہیں؟ یا اس ننھے حافظ شہیدبچے کی کرامت بتائیں جس نے لحدمیں اُترتے ہوئے اپنے والدگرامی کے ساتھ مصافحہ کیا اور دیر تک ہاتھ نہ چھوڑا؟ یاغٖزہ میں اسرائیل کی جارحیت میں پچیس سے زائد نوجوانوں کا حیات ِجاودانی حال احوال بیان کریں؟
ابھی غوطہ ،غزہ اورشوپیان کی سڑکوںپربے گوروکفن لا شیں پڑی ہوئی تھیں کہ ایک مرتبہ پھر امریکی وافغان بمبار طیاروں نے قندوز میں ایک دارالعلوم میں ننھے منے حفاظ قرآن کی دستار بندی اورعطائے سندفراغت کے لئے منعقدہ روح پرور نشست پر قیامت خیزفضائی بمباری کی جس میںتقریباََ 150 حفاظ کرام و اساتذہ کرام اور فضلاء شہیدہوگئے ۔معصوموں نے سفید دستاروں کی بجائے سفید کفن اوڑھ لئے۔خبروں کے مطابق کچھ دن پہلے صوبہ فراہ میں اسی طرح کے ایک پروگرام کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور آج ان ظالموں نے پھر سفاکیت کاروح فرسا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم لوگوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے ۔قندوزکے دینی مدرسے کے بچوں پربمباری کرکے ان کے نازک اجسام کے چیتھڑے بکھیردینے سے ایک بارپھراس امرپرمہرتصدیق ثبت ہوئی کہ مغرب ومشرق کی سفاک قوتوں کا اصل نشانہ اسلام اور اہل اسلام ہے ۔قندوزکے ان ننھے منوں کاجرم ہی ہے ان کا مسلمان ہوناورنہ ایسے پھول توجنگلوں میں بھی مسلے نہیں جاتے ۔بلاشبہ ان حفاظ کرام کی شہادت عصر تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے ۔ان حفاظ بچوں جومحفل آرااورزینت محفل بنے ہوئے تھے، کاگروپ فوٹو دیکھئے،آپ ان میں سے ہربچے کا منورچہرہ رنگ ونور ، حسن و جمال اور ایسی معصومیت و وقارپا سکتے ہیں کہ شایدکبھی نہ دیکھی ہوگی ۔ یکایک کتاب اللہ حفظ کرنے کی خوشی ابھی تکمیل کو پہنچی ہی نہ تھی کہ فضا سے بارود کی بارش ہوئی اورقرآن کے حاملین کوپیوندخاک کر گئی۔ان پاک طینت شہدائے بچوں میں سے کرامت کے طورپر ایک بچے نے عین اس موقعے پراپنے پدرکاہاتھ پکڑلیاکہ جب اسے لحدمیں اتاراجارہاتھا،شایداس لئے یہ دلاسہ دینے کے لئے کہ اباغم نہ کر،امی کوبھی بتادیناکہ خلدبریںمیں ہمرقاب ہوں گے۔
تف!کہاں ہیں فنونِ لطیفہ کے پالنہار؟موم بتی مافیا والی آنٹیاں،کدھر ہیں حقوقِ اطفال کے ناخدا؟کدھر ہیں انسانیت کے نوحہ گر؟کہاں ہیں ہیومن رائٹس کے لیے دنیا ہلا دینے والے میڈیائی دعویدار؟وہ اس چہرے کو دیکھیں، وہ ان آنکھوں میں جھانکیں، وہ اس کھلی رنگت اور کھلی پیشانی کا مشاہدہ کریں، سر پہ سجی دستار اور لبوں سے چھلکتی مسکان کو دیکھیں اور اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ نرالے قسم کے یہ دہشت گرد کس کے خلاف حملہ کرنے کی منصوبہ بنارہے تھے ؟کیا یہ سفاک قاتلین اورانسانیت کے دشمنوںنے باغ میں لکھا ہوایہ جملہ کبھی نہیں پڑھا کہ’’ پھول توڑنا منع ہے‘‘۔سب بڑا مجرم میڈیا ہے جو صرف اور صرف بے حیائی پھیلانے کا ایجنڈا رکھتا ہے امریکی اور یہود کے مفادات کاتحفظ ہی اس کا ایجنڈا ہے ۔ اس طرح میڈیا شیطان کا آلہ کار ہے اور شیطانیت پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ایک عینی شاہد محمد اسحاق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 3اپریل 2018منگل کو دن 12 بجے جہاز آئے تو بچوں نے چلانا شروع کر دیا کہ وہ بم گرائیں گے تاہم بڑوں نے انھیں تسلی دی اور کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن پھر ایک ہی لمحے میں مسجد پر بمباری ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ عمارت کے اندر موجود افراد میں مدرسے کے طلبا،اساتذہ اور اسناد کی تقسیم کے لیے منعقدہ پروگرام میں شریک شہری سب شہیدہوئے۔مرنے والے چونکہ قرآن پڑھنے والے تھے، سو کوئی بڑی خبر نہ بنی!کوئی ناچنے گانے والے بانڈ ہوتے،دینی مدرسہ نہ ہوتاکوئی نائٹ کلب ہوتا،شراب اورشباب کی محفل ہوتی . یابدکاری کے اڈوں پر حملہ ہو اہوتاتو مغرب تا مشرق ایک شور محشربرپاہوتا۔ دجالی میڈیا خوب بھونکتا لیکن قرآن کے حافظوں پر حملہ کیا گیا تو سب خاموش سب قلموں اور کیمروں پرسکوتِ مرگ طاریہے !!!
قندوز کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیںبلکہ افغانستان پر امریکہ کی جارحیت اوربدتریب سفاکیت کی تاریخ کے خونین ابواب میںیہ ایک انتہائی سیاہ ترین باب کااضافہ ہے۔یہ 1996کی بات ہے کہ اس وقت کی امریکی سکریٹری آف سٹیٹ یاوزیہرخارجہ میڈیلین البرائٹ امریکہ کے ٹی وی پروگرام 60منٹ میں مدعو تھیں۔میزبان نے سوال کیا: عراق پر امریکی پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مر چکے ہیں،کیا اتنی بھاری قیمت دی جانی چاہیے؟اعلی مغربی تہذیب کی علمبردار عورت کا جواب تھا: جی ہاں یہ ایک مناسب قیمت ہے،دی جانی چاہیے۔کیتھرین واشنگٹن پوسٹ کی مالک تھیں۔1988میں انہوں نے سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے۔( بحوالہ ولیم بلم، کلنگ ہوپ، صفحہ 121)،چنانچہ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ الا ماشا اللہ دنیائے دانش کیتھرین کے فکری فرزندوں سے بھری پڑی ہے جو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے ۔ آپ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر راجر گراڈی کی کتاب دی فانڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی پڑھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ کس طرح راجر نے جب عام لوگوں کو ایسی کچھ چیزوں کا بتانا چاہا تو مغربی میڈیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ہمارے مشرق کے مغرب زدہ افراد ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ مغربی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے اور مسلمانوں کو ابھی تک بقائے باہمی کے آداب کا علم نہیں۔جھوٹ کے یہ لشکری اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ نام چامسکی جیسا آدمی چیخ اٹھتا ہے کہ حقائق بہت کڑوے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بد ترین حالات کہ ذمہ داری مظلوموں پر ڈال دی گئی ہے۔
یہ بات پلے باندھنے کے لائق ہے کہ جوایک امریکی عہدے دارنے از خودبتاکردجالی نیٹ ورک کوبے نقاب کرڈالا۔اس کاکہناتھاکہ بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسیٹسلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں( بحوالہ ولیم بلم ،کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آی اے انٹر و نشنز سنس ورلڈ وار ٹو، کامن کیج پریس، صفحہ 83)افغانستان کو اس نے امن کے نام پر برباد کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آدمی حیرت اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے جب و ہ ایسی تصاویر بھی دیکھتاہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی افغانوں کی لاشوں پرپیشاپ کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ دنیا کو قوانین کا درس دینے والے امریکہ نے بین الاقوامی قانون کو سب سے زیادہ پامال کیا ہے ۔بین الاقوامی قوانین اور ضابطے کبھی اس کی جارحیت اوراسکی جارحانہ روش میں حائل نہیں ہو سکے۔امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن ریاست کے رہنما اصول کو یوں بیان کرتے ہیں’’امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں۔انٹر نیشنل لا جائے جہنم میں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں( بحوالہ،بل ڈلن،یو ایس۔اے روگ سٹیٹ،27اکتوبر2002۔دی ٹرازر رولرز)۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا: کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو(بحوالہ نام چامسکی ،روگ سٹیٹس۔۔۔باب10)
جنوری 2015 میں فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو(جو گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی وجہ سے مشہور تھا) کے دفتر پر ایک دہشت گرد انہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے ۔ اس واقعہ کی عالمی میڈیا نے اس انداز میں کوریج کی کہ پوری دنیا اس واقعہ کی مذمت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ مغربی میڈیا اوراس کے زیراثرمشرقی میڈیا اس واقعہ کو خوب فوکس کرتا رہااور اس کے ساتھ ساتھ مشرق کے تنخواہ یافتہ سیکولرز اور لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے فرانس اور چارلی ایبڈو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کئی روز تک سوشل میڈیا بشمول ٹویٹر کے ذریعے "I am Charlie Hebdoمیں چارلی ہیبڈو ہوںکی عالمی مہم کا حصہ بنے رہے۔ گزشتہ ہفتہ افغانستان کے علاقہ قندوز میں ایک مدرسہ پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی کو شہید کیا گیا۔ ابتدا میں میڈیا کے ذریعے کہلوایا گیا کہ حملہ دہشتگردوں پر کیاگیا لیکن جب حقیقت کھلی کہ اس بربریت کا شکار معصوم بچے تھے جو قرآن پاک کاحفظ مکمل ہونے پر وہاں دستاربندی کے لیے جمع ہوے تھے تو میڈیا پر خاموشی طاری ہو گئی۔ شہادت پانے والے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو دل دہل گئے کہ اتنا بڑا ظلم لیکن دوسری طرف مجرمانہ خاموشی۔ عالمی میڈیا سے تو کوئی توقع رکھنا ہی فضول تھا، لیکن مسلم ممالک کے میڈیا چینلزنے بھی اس ظلم و بربریت پر کوئی توجہ نہ دی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کیسا امتیازی سلوک ساری دنیا قندوز سانحہ جیسے شہدا کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے؟؟ یعنی اگر دہشتگردی کسی فرد نے کی یا کسی پرائیویٹ گروہ نے تو پھر تو اس پر مذمت کی جائے گی اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی۔ لیکن اگر دہشت گردی ریاست ( خاص کر امریکہ اور اس کے دُم چھلوں )کی طرف سے کی جائے اور مرنے والوں( مسلمانوں) کی تعداد چاہیے سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں تک بھی پہنچ جائے تو نہ کوئی مذمت، نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی افسوس اور نہ کوئی معافی اور یہی ہم افغانستان، عراق، شام، کشمیر، فلسطین،یمن اور دوسرے کئی اسلامی ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ انصاف نام کی کو ئی چیز نہیں،صاف دکھائی دے رہاہے کہ انسانوں کے ضمیر مر چکے ہیں۔ 9/11 کے بعداس ریاستی دہشت گردی کو کھلی چھٹی دے دی گئی جس کے لیے شرط صرف ایک ہی رہی اور وہ یہ کہ ریاستی دہشت گردی کا نشانہ صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے۔ مغرب سے یا ان کے میڈیا سے کوئی کیا گلہ کرے، دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان، ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھی وہی کرتا ہے جو امریکا کی موروثی دجالی پالیسی ہے۔ہمارے ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیجیے جنہوں نے قوم کو بھارتی فلمی اداکارہ سری دیوی کی موت پر دن رات کوریج کر کے گھنٹوں سوگ منایا اور ایک وقت تو یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ یہ بانجھ میڈیا کہیں رقاصہ کو شہید کا درجہ ہی نہ دے دے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتہ ایک اور بھارتی اداکار سلمان خان کو پانچ سال سزا ملنے پر ان چینلز نے اسے’’ مسلمانوں کا بہت بڑا مسئلہ‘‘ بنا کر پیش کیا لیکن افسوس کہ انہی چینلز کو قندوز مدرسے میں شہید کیے جانے والے معصوم بچوں کے نہ توچہرے نظر آئے نہ ہی انہیں ان بچوں کے والدین پر جو گزری اس کی فکر تھی۔
کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ان معصوم بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ یہ بچے تو حافظ قرآن تھے جو ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی لیکن ایسے معصوموں کی شہادت پر ماسوائے پاکستان کے مذہبی ر ہنماوں کے مسلم دنیاکے کسی صف اول کے سیاسی رہنما کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس معاملہ پر بات کرے اور ان انسان دشمن عمل کی مذمت کرے۔