غیاث الدین
قرآن کریم میںاللہ رب العزت نے جن چیزوںکی قسم کھائی ہے ،ان میںسے ایک ’’قلم ‘‘بھی ہے۔قلم اوراس کے لکھے کی قسم (ترجمہ )(پ۔29۔س۔ن )رب کے قلم کی قسم کھانے سے معلوم ہواکہ بارگاہ ایزدی میں قلم کی کتنی حرمت اورقدرومنزلت ہے۔قلم کی اہمیت سے صرف نظرنہیں کیاجاسکتا۔قلم خداکی بڑی نعمت ہے،قلم نہ ہوتاتودین ودنیاکے علوم محفوط نہ ہوتے،حیات انسانی اوردنیاکے کاروباری معاملات قائم نہ رکھے جاسکتے،تصانیف وتالیف کے عظیم الشان ذخائرشاہد ہیں کہ قلم نے دین ودنیاکے علوم اوراقوام کی تواریخ کومحفوظ رکھنے میںبنیادی کرداراداکیا۔رب نے سب سے پہلے قلم کوپیدافرماکرحکم دیاکہ ’’لکھ‘‘توقلم نے عرض کیا،پروردگار!کیالکھوں ؟توارشاد ہوا،’’قیامت تک جوہونیوالاہے وہ سب لکھ‘‘چنانچہ اس نے سب لکھ دیا۔آج بچوں کوپتہ ہی نہیں ہے کہ قصہ پارینہ بن جانے والے قلم اوردوات ہمارے زمانے کے ہربچے کے بستے میں بسیراکئے ہوئے تھے۔آج کے بچوں کوتختی ،سلیٹ ،قلم ،دوا ت کاتصورتوکجاتصویریں دیکھ کربھی پوچھناپڑتاہے کہ یہ کیاہے؟مجھے یہ سطورلکھتے ہوئے اپنے مدرسے کازمانہ یاد آگیا،اپنے وہ اساتذہ بھی یادآگئے ۔ جنہوںنے ہمیںقلم کی حرمت وتقدس کادرس دیا۔ہمارے ایک استاد ماسٹرظفر(ہتھائی والے)اپنی جیب میں ایک چھوٹاساچاقورکھتے تھے،جس طالب علم کاقلم کاقط خراب ہوجاتایاقلم ٹوٹ جاتاتووہ اپنے ہاتھ سے قلم تراش کرقط کومناسب سائز میں کردیتے ،اس کٹ سے قلم میںایک لچک پیداہوجاتی اورسیاہی کوقلم کی نوک میں ذخیرہ کرنے کایہ ایک طریقہ ہوتا،اس قلم سے ہم تختی پرلکھتے،حق تعالی ماسٹرظفرصاحب ودیگراساتذہ کی مغفرت فرمائے۔انہوںنے ہمیں بتایاکہ الف کتنے قط کاہوتاہے ،ب کتنے قط کا،اسی طرح دیگرحروف بھی سکھائےاورہماری خوش خطی بہتربنائی۔قلم کایہ احترام ہم نے ایک اوراستاد منشی عزیرالرحمن دھامپوریؒکے یہاں بھی دیکھا،وہ ہمیشہ اپنے قلم کواپنی نشست سے اونچی جگہ پررکھتے۔ آج کے طالب علم میں قلم اورکتاب کااحترام ختم ہوچکاہے۔کتابوں کے بستے ادھرادھرلاپرواہی سے پھینکنا،حتیٰ کہ قلم کوبھی ادھرادھرڈال دیناعام بات ہے۔ہمارے اساتذہ ہمیں بتایاکرتے تھے کہ جس قلم سے متبرک ومقدس نام ’خدا‘اوراس کے رسول کاذکراوراچھی اچھی باتیں لکھتے ہو،اُسی قلم کوآپ کس طرح کوڑے میںیازمین پرپھینک دیتے ہو۔اب توبچوں کوقلم و کتاب کے ادب واحترام کالحاظ ہی نہیں رہااورنہ ہی اب اساتذہ ان کوبتاتے ہیں ،کیونکہ اساتذہ خود احترام نہیں کرتے۔قلم جس ہاتھ میں ہے اس پربہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔اگرآپ قلم کارہیں توہمیشہ سچ لکھیںاوروہ لکھیں جس سے معاشرے کی اصلاح ہوسکے۔اگرآپ مصنف ہیں اورآپ کاقلم فیصلہ لکھتاہے تواپنے ضمیراورقانون کے مطابق فیصلہ تحریرکریں ۔آپ کاقلم رشوت کی چمک سے اندھیروں کا ہم نوانہ بنے، بس یہی احترا م قلم ہے،اس قلم سے آپ حساب وکتاب کرتے ہیں تودرست جمع تفریق کیجئے ،ہندسوں کے اُلٹ پھیرسے کسی کی حق تلفی نہ کی توگویاآپ نے قلم کی لاج رکھ لی۔آج کے پولیس افسرا ن،جج صاحبان ،وزیروں ،مشیروں ،پٹواریوں اوروکیلوںکوخیال رکھناہوگاکہ ا نکے لکھے کوکندھوں پرموجود فرشتے بھی تحریرکررہے ہیں۔پیشے اورہاتھ میںپکڑے قلم کے احترام کواگرملحوظ نہیں رکھاتوپھرایساہی ہے جیسے آپ نے اپنے ہی قلم سے اپنے ہی نامہ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کرلیا۔دورجدیدکا کمپیوٹربھی چونکہ اب لکھنے لگاہے ،اس لئے اس کا’’کی بورڈ‘‘بھی قلم کے حکم اورقلم ہی کادرجہ رکھتاہے۔اس کے بٹنوں پررقص کرتی آپ کی انگلیاں اگرغلط کمانڈ دے رہی ہیں اورغلط کودرست اورسیاہ کوسفید لکھ رہی ہیں تویہ بھی قلم کی ہی بے حرمتی ہے۔بہرحال یہ آلہ جس سے لکھنے کاہنرآزمایاجاتاہے متقاضی ہے ایک پاکیزہ خیال اورمثبت فکرکا۔اس قلم سے فرقہ پرستی ،نسل پرستی ،مفاد پرستی ،خود غرضی تعصب ،نفرت اورمنافقت کاسرقلم کردیجئے۔کہتے ہیں کہ قلم تلوارسے زیادہ طاقتورہوتاہے،توپھراے اہل قلم !ا س قلم سے جہاد کیجئے اورایک مصلح قلم کاربنئے ،نہ کہ مفسد قلم کار۔ایسی کتابوں کاکیافائدہ جنہیں دروازہ بند کرکے پڑھناپڑے اورلائبریر ی کے خفیہ خانے میں چھپاکررکھناپڑے،اپنے مقدس قلم کوفحش اوربے ہودہ تحریرں سے آلودہ نہ کریں ،جب آپ اپنے قلم کااحترام کریں گے تویہ ناممکن ہے کہ آپ کااحترا م نہ ہو۔‘‘