دور جدید میں قلم کا استعمال اگر چہ کم ہونے لگا ہے مگر اس کی اہمت مسلمہ ہے قلم کے بغیر کسی بھی چیز کا تصویر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔قلم سے نکلی ہوئی تحریر کسی کو تاج و تخت کا مالک بناتا ہے اور کسی کو وقت کی ٹھوکر کھانے پر مجبور کرتا ہے قلم سستا ہو یا قیمتی اس کی اہمت نہیں ہے اہمت قلم سے نکلی ہوئی تحریر کی ہے کیونکہ یہ قلم ہی ہیں جس کو تلوار سے بھی زیادہ طاقتور کہا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں سورہ علق میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ’’الذی علم بالقلم ‘‘یعنی قلم کو علم حاصل کرنے کاذریعہ بنایا اس آیت سے ’’الذی علم بالقلم ‘‘سے قلم کی اہمیت واضع کرتے ہوئے رب العزت نے فرمایا کہ انسان کو یہ صلاحیت دی کہ وہ تحریر کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسرے لوگوںتک پہنچائے ۔سورہ قلم میں خالق کائنات فرماتا ہے’قلم اور ان کے لکھنے کی قسم ‘‘ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم کو کیوں اتنی اہمیت دی ہے۔سوچنے اور تدبر کا مقا م ہے کہ خالقِ کائنات نے کیوں ایسا کہا ہے اور اس کے تناظر میں اہلِ قلم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںاورانہیں کس طر ح کے فرائض انجام دینے چاہیے ۔ جب قلم مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال ہوتا ہے تو عبادت بن جاتا ہے ،جب یہی قلم منفی انداز میں استعمال ہو تو انسان کے لیے گناہ بن جاتا ہے۔
قلم کے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ تم اپنی اولاد کو لکھنا سکھائو کیونکہ لکھنے پڑھنے والے لوگ ہی بادشاہ اور حاکم ہوں گئے ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے جس نے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خوشخطی سے لکھا جنت سے داخل ہوگا ۔اس سے قلم کی اہمت اور افادیت واضع ہوتا ہے ۔ قلم سے تقدیر یں بدل جاتی ہیں ۔جج کے فیصلے اسی قلم سے کئے جاتے ہیں ۔قلم کے بارے میں شعراء کرام نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا ہے ؎
متاعِ لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبودی ہیں انگلیاں ہم نے
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گئے
عربی زبان میں ’’قلم ‘‘کے معنی کاٹنے یا تراشنے کے ہیں ۔یہ ایک عمومی تجربے میں آئی حقیقت ہے کہ تراشنے اور کاٹنے سے ہی کوئی چیزانسانی استعمال کے قابل بنتی ہے۔انسانی علم بھی حواسِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات ،مشاہدے اور اس کے تجربے کی ایک تراشدہ شکل ہی ہے، یہ آگے چل کر مستقبل کے انسانوں کے لئے قابلِ فہم ہو کر انسانی زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔حاصل شدہ معلومات ،مشاہدے اور تجربے کو بعد میں دوسرے انسانوں کے پڑھنے کے لائق بنانے کے لئے ہم انسان لسانی ،تکنیکی ،حسابی علم ،ڈرائنگ وغیرہ کے ذریعے سے اِن تک پہچاتے ہیں۔لہذا’’قلم‘‘اُس کامل اور قابل فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یاغیر مادی شے کے منفی یامثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے اور قلم اس مادی شے کا بھی نام ہے جس سے عموماً لفظوں کو تحریری شکل دی جاتی ہے۔
کسی بھی قوم یا معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ اہلِ قلم ہی ادا کرتے ہیں ۔ یہ صاحبان اہلِ علم و دانش ہی ہوتے ہیں جو عام افراد کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح قیادت کرتے ہیں جیسے وہ میر کارواں ہوں۔کسی بھی قوم کی حالت اور کردار کا جائزہ اُس قوم کے ادیبوں ،صحافیوں اور دوسرے اہلِ قلم کے نظریات اور کردار سے لگایا جا سکتا ہے ۔اگر کسی قوم کے اہلِ قلم لالچ ،خوف ،دباؤ یا کسی بھی غرض کی پروا نہ کرتے ہوئے حق اور سچ کی آواز بے خوف ہو کر بلند کر رہے ہوں تو اس قوم کوکوئی موعوب نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ قوم زبوں حالی کا شکار ہوتی ہے۔لیکن اگر کسی ملک و قوم کے دانشور مالی مفادات اور لالچ میں آکر قصیدہ گوئی اور خوشامد کا راستہ اختیار کر لیں یا پھر خوف اور دباؤمیں آکر حق کی بات کرنا چھوڈ دیں تو تباہی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔
قرآنِ حکیم جو انسانوں کے درمیان رنگ ،نسل یا کسی اور اعتبار سے کوئی امتیاز بخشتا ہے نہ کوئی فرق کرتاہے بلکہ صرف خدا خوفی( علم وعمل ) کی بنیاد پر فرق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جاننے والے نہ جاننے والے برابرنہیں ہو سکتے ۔ایک اور مقام پر کہا کہ جس بات کا علم نہ ہواسے اہلِ علم سے پوچھ لو۔اہلِ علم کو قرآنِ حکیم علماء کے نام سے پکارتا ہے۔ حق شناس اور باضمیرصحافی ،ادیب ،استاد ،علماء ،دانشور اور دوسرے اہلِ علم اس لحاظ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔آج ہمارے ادیب اور دانشور معاشرے کے حساس اور اہم لوگوں میں تسلیم کیے جاتے ہیں ،کیونکہ یہ نوک قلم سے محبت ، یگانگت ،جنگ اور امن جیسے موضوعات پر بے خطروخوف لکھتے ہیں ۔یہی عظیم مرتبہ رکھنے والے قلم کارسیاست دانوں سے لے کر عام شہریوں تک کو حقیقت پسندی سے روشناس کرانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔انسانی وسائل کی ترقی ،شعورو آگہی اور معاشرتی استحکام میں قلمی کے بے لوث سپاہیوں کا انمول کردار ہے ۔سیاستدان یا حکمران اپنی کارکردگیوں سے عروج وزوال کی داستان قلم بند کر تے ہیں یادوسرے شعبہ جات سے وابستہ برگزیدہ شخصیات اپنی بہتر کارکردگی دکھا کے فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہی وہ ناسیاًمنسیا ہوجاتے ہیں لیکن قلم کار ہی قرطاس ِ تہذیب اور آئینہ تدریس میں ہمیشہ زندہ جاویدرہتے ہیں ۔
تاریخِ انسانیت پر ایک طائرانہ سی نظر دوڈائیں تو معلوم ہو گا کہ ہر دور میں اہلِ علم اور اہلِ ادب نے نسلِ انسانی کے دلوں پر راج کیا ہے۔انھوں نے قلم کے ذریعے پوری دنیا میں امن و شانتی کا پیغام پھیلایا ہے اور وقت کے جابر اور سفاک حکمرانوں کے خلاف بازور قلم جہاد کیا ہے۔قلم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، ہر دور میں اس نے ہمیشہ قوم اور معاشروں میں سدھار پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔جب یہ سچے لوگوں کے ہاتھوں میں آتا ہے تو قوم اور سماج میں ظلم و جبر اور ناانصافی کا خاتمہ لاز م ہوتا جاتا ہے ۔صدیوں سے قلم کو صاحب ِ شعور و دانش بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔قلم کا صحیح ہاتھوں میں رہنا ملک و قوم اور معاشرے کے کامیاب اور روشن حال و مستقبل کے واسطے لازم و ملزوم ہے۔
قلم کی طاقت سے نسلِ انسان نافہمی سے نکل کر فہمیدگی کی طرف آجاتاہے ۔قلم کی طاقت سے ہی تخلیق کار کی تخلیقات محفوظ کی جاتی ہیں ۔یہاں تک کہ کسی کی زندگی یا موت تک کا فیصلہ اسی کی بدولت کیا جاتا ہے۔تمام ملکوں یا یوں کہے کہ دنیا کی تاریخ تک قلم کے ذریعے سے رقم کی جاتی ہے۔قلم وہ ہتھیار ہے جو ایک عالم و صحافی کے ذریعے عوام کی آواز بن جاتی ہے۔اس کی طاقت ہی ایک طالب ِ علم میں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔قلم کی بدولت سے ہی ایک عالم اور جاہل میں فرق کیا جا سکتا ہے۔یہ قلم کی ہی طاقت ہے کہ جہاں بڑے سے بڑے بندوق اور تلوار کے سپاہی اس دارِ فانی کو خیر باد کہنے کے چند ہی روز بعد بھلائے جاتے ہیں ،وہیں قلم کے سپاہی رحلت کرنے کے بعد بھی اپنی تحریروں کی بدولت زندہ جاوید رہتے ہیں۔ اسی لئے آج بھی افلاطون، ارسطو، غالب اور اقبال وغیرہ جیسے اہل ِقلم ہمارے قلب و ذہن میں حیات ہیں۔
قلم کی تواریخ میں پہلے پروں کے سرے کو کسی سیال میں ڈبو کر اس سے لکھے جاتا تھا ۔ اس کے بعد ۱۸۸۴ء میں نیورک کے ایک سیلس مین L.E Watermanنے پہلا Fountain pen ایجاد کیا یہ قلم تحریر کے لیے اپنے فرائض انجام دیتا رہا ۔پین سازی کی دنیا میں چار کمپنیوں نے دنیا میں اپنی پہچان بنائی جن کے نام ہیں Parker,Sheaffer,Waterman. and Wahl-Eversharp۔آج کاقلم یٹیپ ریکارڈبھی ہے اور ویڈیو کمیرہ بھی اب صحافی قلم کو کمیرہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں قلم سے اب غیر محسوس طریقہ سے تصویر اور آواز ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔اتنا ہی نہیں چین نے ایسا قلم تیا ر کیا جو قرآن مجید کی ۲۶ زبانوں میں قرآن کو تجوید کے ساتھ تلاوت کرتا ہے۔بچوں کے لیے ایسے پین بنائے گئے جو جو بچوں کو پڑھنا سکھا رہے ہیں ۔ بہرحال دنیا کتنے بھی ترقی کرتے رہے قلم قلم ہے اس کی اہمت کو گھٹایا نہیں جاسکتا ۔
بہرکیف وہ باضمیر قلمکار داد وتحسین کے مستحق ہے جو آج کے ایسے مشکل ترین دور میں قلم کی حرمت کو بچائے ہوئے ہیں کہ جس میں سچ لکھنے والوں کو اپنی جان تک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ اگر ہم نے ایک پُر امن قوم کے طور پر دنیا کو کوئی پیغام دینا ہے تو صرف اور صرف گفت وشنید،تحریری معاہدوں اور قلم کی طاقت سے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔
رابطہ : عید گاہ روڈ ۔۔۔۔ڈورو
ریسرچ اسکالر پنجابی یونیورسٹی
فون نمبر 9419068888 9596444868