اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرویات کی خاطر پیدا کی ہیںمگر انسان خود اپنے خالق ومالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو نہ صرف اللہ کی رضا کے خلاف ہوتا ہے بلکہ خود اُس کے اور انسانیت کیلئے بھی نقصاندہ ہوتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں سوشل میڈیا کا راج ہے وہاں ہماری ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے،کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کرنے کی آزادی توحاصل ہے۔لیکن یہ اظہارِ آزادی انسان کے لئے ایک آزمائش بھی بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا پرہر کوئی کسی نہ کسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے اور اکثر اوقات یہ رائے بغیر کسی تحقیق کے ہی ہوتی ہےاور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ لوگوں پراُس کی رائے اور اُس کے الفاظ کا اثر کیا ہو گا جو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتارہتا ہے۔ظاہر ہے کہ کان، آنکھ، دل اور زبان انسان کے وہ ذرائع ہیں جن سے وہ دنیا میں اپنے اعمال انجام دیتے ہیںجبکہ زبان ایک ایسا ہتھیار ہے، جسے احتیاط کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔چنانچہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسرے انسانوں کے چال و چلن پر غور کرتا ہے اور خود اپنے اندر جھانک کہ نہیں دیکھتا ہے۔حق یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اخلاق و کردار سے پہچانا جاتا ہے،اچھے اخلاق اُسے انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتے ہیں اور بُرے اور گندے خصائل اُسے ذلیل و رُسوا کرکے پستی میں ڈال دیتے ہیں۔اس لئے اُن لوگوں کے لئے جو کسی بھی ذرائع ابلاغ سے منسلک ہیں یا جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ،کے لئے لازم ہے کہ وہ غور فکر کریں کہ جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں،کیا وہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہےیا سُنی سُنائی باتوں کا پھلندہ ہوتا ہے؟بے شک وہ اس دنیا میں اس سوال کا جواب دیں یا نہ دیںلیکن آخرت میں تواس کا جواب اللہ کے سامنے دینا ہی پڑے گا۔بحیثیت مسلمان ہمیں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی مرضی کو ہر قیمت پر مقدم رکھنا ہےاور ایسا کوئی کام نہیں کرنا ہے جسےاللہ اور اللہ کے رسولؐ ناپسند کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت میں کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی کمزوری اُسے اکثر ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے جن کے نتائج نہ صرف اُس کی دنیاوی زندگی بلکہ آخرت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔اکثر لوگ جذبات میں آ کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں جو ان کے دل کی اصل نیت کو ظاہر نہیں کرتیں۔ وہ بھول جاتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جانتا ہےاور زبان یا کیبورڈ سے نکلنے والے الفاظ اُس کے سامنے پوشیدہ نہیں رہ سکتےبلکہ قیامت کے دن ہر لفظ ،ہر جملہ اور ہر پوسٹ اللہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ اس لئے ہمیں اپنے الفاظ کی قیمت کو سمجھنا چاہیے اور ہر بار کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے رُک کر سوچنا چاہیے کہ کیا یہ الفاظ اللہ کے سامنے قابلِ وضاحت ہوں گے؟ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں لوگ دوسروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیںاور اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ اختلافات دنیا کے سامنے ہمیں کیا بنا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو الفاظ ہم دوسروں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ان کا جواب ہمیں اللہ کے سامنے دینا ہو گا؟ کیا ہم اتنے بے فکر ہو کر یہ بھول چکے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم دونوں اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں؟ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلافات کو حکمت کے ساتھ حل کیا جائے، نہ کہ نفرت اور غصے کے ساتھ۔ لیکن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر لوگ اس حکمت کو بھول چکے ہیں۔ وہ نفرت اور غصے کو اپنے الفاظ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور دوسروں کو بُرا بھلا کہتے ہوئے الفاظ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہمیں خود کو ایک مختلف راہ پر چلانا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر وہ بات جو ہم کہتے ہیں یا لکھتے ہیں، اس کا اثر صرف آج پر نہیں بلکہ کل اور آنے والے وقتوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی زبان اور قلم کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے سے بچنا ہو گااور یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کسی پر تنقید کرنا آسان ہے، لیکن خود کو درست رکھنا مشکل ہے،دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہئے۔