میر فاروق سرحدیؔ
چھوٹے چھوٹے کچے نیم پختہ اور پختہ مکانات وسیع و عریض کھیتوں میں یوُں آمنے سامنے استادہ ہیں جیسے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے ہو ں ۔ دن کے اُجالے میں بھی تاریکی سارا سارا دن کھیتوں میں پڑی جما ئیاںلیتی رہتی ہیں۔دھوپ نکڑوں اور ان مکانات کی چھتوں پر یوں آکر رک جاتی ہے کہ جیسے کہ اسے آگے جانے کی ممانعت ہو ۔ بہار میں یہاں فراٹے مارتی ہوائوںکا چلن رہتا ہے جس کی وجہ سے مکانات کی چھت ، دُکانوں کی زینت بنے ہوئے سامان ، چھتوں اور تاروں پر سوُکھنے کیلئے رکھے ہوئے کپڑے ہوا میں رقص کرتے کرتے حد نگاہ تک دور جا پڑتے ہیں راہ چلتے لوگوں کی اصل شکل وصورت گرد و غنار کے نیچے دب سی جاتی ہے اور اس گرد کا معتدبہ حصہّ سُپرد شکم بھی ہوجاتا ہے یہ مختصر سی آبادی بستے بستے بستی کی شکل اختیار کر گئی۔بستی کے بیچوں بیچ دریائےجہلم صدیوں سے بہہ رہا ہے۔ جہلم کبھی دریا کی صورت بہتا ہے اور کبھی نالی کی صورت سُکڑ جاتا ہے ابھی جب کہ یہ سطور قلم کی پیاس بجھا رہے ہیں جہلم مؤ خرالزکر صورت میں اپنی منزل کا سفر برق خرامی سے شب و روز طے کر رہا ہے۔ بات ہو رہی ہے تحصیل بونیار کے ایک زرخیز اور پر رونق علاقہ نورخواہ کی یہاں کی معاشرت قصبہ چندن واڑی اور مضافات میں آباد بستیوں کیلئےہمیشہ قابل تقلید رہی ہے ،یہاں کی اکثر عورتوں کی دُنیا گھر اور آس پڑوس تک ہی محدود ہے اور مرد اپنی دنیا اور اہل و عیال کی دنیا بنانے میں مگن ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے بچوں کو شرارت کے نت نئے طریقوں کو عملاتے ، مردوں اور نوجوانوں کو ماہ گیری کرتے اور فرصت کے لمحات جہلم کنارے گپیں لگاتے یا نرسری میں طاش کرکٹ گلی ڈنڈا وغیرہ کھیل کر دل بہلاتے دیکھا ہے۔ علاقہ نورخواہ کے بیچوں بیچ دریائے جہلم شب و روز اس بستی کے پاؤں دھوتی ہوئی جانب پاکستان اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ دریا کے کنارے پر چندن واڑی کے مقام پر حنفیہ غوثیہ نام کی ایک مرکزی جامع مسجد واقع ہے اس مسجد میں فرزند ان توحید اپنے دل کی غلاظت صاف کرتے ہیں تو دوسری جانب دریائے جہلم جسموں کی غلاظت کو اپنے متعفن پانی میں گھولتی ہوئی علاقے سے باہر چلتی ہے۔ علاقہ خاص کو قصبہ چندن واڑی سے ملانے والا ایک عمر رسیدہ بزرگ پل ہوا کرتا تھا جو کہ اب مرحوم ہو چکا ہے سال 2014 کے تباہ کن سیلاب نے بستی کے اس پُل کی روح قبض کی سیلاب سے قبل ہی وہ پل ہچکولے لے رہا تھا کئی جگہوں پر اس کے اعضا خرابی صحت کا عندیہ دے رہے تھے۔ کچھ حصہ زخم کھا کر چیخا واویلا بھی کیا لیکن اس پر بھی ترقیاتی محکمہ صُم بکُم عُمیٰ کی علامت بنا رہا تو پُل کے اُس حصے نے دریا میں چھلا نگ لگانے میں ہی عافیت سمجھی۔
پُل کے ایک کنارے پر قبضہ چندن واڑی کا سیاسی بازار موجود ہے جہاں سے علاقہ نورخواہ ، ریشہ واڑی ، گنگل، نلوسہ، بجہامہ، لچھی پورہ ، جبہ ڈار اور کنچن بگنہ و سلام آباد دچھنہ میں بسنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی چیزیں خرید کر لاتے ہیں۔ شام کے بعد سے رات گئے تک یہاں بستی والواں کا کافی رش رہتا ہے ،اکل و شرب کی محفلیں سجتی ہیں۔ کچھ مٹر گشتی میں مصروف رہتے ہیں اور بہار میں اکثر لوگ ہوا خوری کیلئے دریا کنارے چہل قدمی میں مصروف رہتے ہیں بستی کی یہ رونق دریا کے اُس پار پاش ایریا میں رہا ئش پذیر مکینوں میں ایک طرف کا جلن پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسی معاشرت وہاں عنقاہے۔ پل کے اُس جانب یعنی چندن واڑی میں علاقے کا مرکزی بازار موجود ہے جہاں روز اول ہی سے سیاست کی گہما گہمی دکھائی دیتی ہے سیاست کے شاہ سوار تاج محی الدین نے اسی جگہ کو اپنا مسکن بنالیا ہے،جہاں پر الیکشن کے موسم بہار میں زائیرین کی کثیر تعداد چائے کی چسکیاں اور بریانی کی لذتوں سے شکم سیر کر لیتے ہیں۔ اس بازار میںمتنوع قسم کی دُکانات اور چھاپڑی فروشوں کا ہجوم اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں مرکزی بازار کی پشت پر ایک آباد بستی ہے جو کہ مین مارکیٹ چندن واڑی کا پُر خطر علاقہ تصور کیا جات ہے۔ یہ بستی اصل میں قصبہ چندن واڑی کی ارتقائی صورت ہے ۔ پیدل پل Foot Bridge درحقیقت علاقہ نورانی کو مرکزی بازار سے ملاتا ہے ،اس پل کو سبھی پیدل پل ،ہچ کدل یا Foot Bridge کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ مذکورہ پل کی دیکھ ریکھ کیلئے مرکزی سرکار نے اپنی سینا کی ایک پارٹی ڈیوٹی پر مامور کر رکھی تھی لیکن چند سال قبل وردی پوشوں کی یہ جماعت پُل کے مرحوم ہوتے ہی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد نقل مکانی کر کے کہیں اور جا بسی۔ علاقے کا مرکزی بازار جسے مین مارکیٹ چندن واڑی کے نام سے جانا جاتا ہے کئی طرح کی سہولیات کیلئے معروف ہے۔اس بازار میں جموں و کشمیر بنک کی ایک برانچ موجود ہے، جہاں مضافات کے لوگ اور بستی کے مکین یک مشت موٹی رقومات بنک سے حاصل کر کے اپنے خوابوں کے محلات تعمیر تو کر ہی لیتے ہیں لیکن بعد ازیں بنک کے ساتھ آنکھ مچھولی کھیل کر گارنٹروں کےکھاتوں کو سرد خانوں میں ڈال کر دھنگا مشتی پر اُتر آتے ہیں ۔ مذکورہ بنک کا اے ٹی ایم A.T.Mلوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ کبھی سروس کی نایابی تو کبھی کیش کی قلعت لوگوں کیلئے سم قاتل سے کم نہیں ۔ لیکن حکام بنک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ علاوہ ازین متذکرہ مرکزی بازار میں کئی ایک ترقیاتی دفاتر بھی موجود ہیں جیسے Z.E.O آفس ، بلاک دفتر ، ہائیڈرولک ڈیوزن ، بجلی دفتر، PMGSY دفتر اور دیگر دفاتر جہاں پر ترقی سے زیادہ تخریبی عناصر غالب ہیں اس وجہ سے بھی یہ واحد پُل کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ لوگوں کا دفاتر کے چکرکاٹنے اور جوتے گھسنے کا واحد راستہ اسی پُل سے ہو کر گزرتاہے۔
پُل کے دوسرے جانب علاقہ نورخواہ میں متعدد تعلیمی مراکز موجود ہیں جن میں گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول نورخواہ پُل کے لگ بھگ دوسری سمت پر فقط چند قدموں کی دروری پر واقع ہے، آگے چل کر علم و ادب کا وہ گہوارا آتا ہے جسے اگر ’’چمن سرسید‘‘ کہا جائے تو شاید بے جانہ ہوگا ۔میرا مطلب نور العلوم اسکینڈری اسکول نورخواہ سے ہے جو ایک مردِ حُر الحاج محمد سلیم خان اور اُن کے کارکنان کی محنتوں کا سر چشمہ ہے ،مذکورہ شخص کسی تعارف یا تعریف کا محتاج نہیں اِسے ’’چھوٹا سر سید ‘‘ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا ۔روز اول ہی سے تعلیم و تعلم کی سر گرمیوں میں مصروف عمل ہے، نویں کی دھا ئی میں پسماندہ علاقے کے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اُٹھایا ۔ مدرستہ العلوم سے ترقی کرتے کرتے نورالعلوم تک کا اُن کا سفر کافی دلچسپ اور حیران کن رہا، بالآکر ادارہ نورالعلوم نے پسماندہ علاقے کے علمی معیار میںدن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر کے سماج کے مایہ ناز سپوتوں کو جنم دیا جو ادارے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فا ئز ہیں ۔یہ سب اسی مردِ قلندر کے خوابوں ، محنتوں اور مشقتوں و کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اس دور افتادہ علاقے میں آج گھر گھر علم و فضل کے موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ 72سال کایہ عمر رسیدہ شخص آج بھی اس بچھڑے ہوئے غیر علمی علاقے کے علمی معیار کو دوگنا اور دوبالا کرنے میں کوشاں ہے ،اللہ تعالی ٰاُن کی عمر میں برکت عطا فرمائے اورزور قلم اور زیادہ عطاکرے۔ اسکے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول نورخواہ اور امامیہ پبلک اسکول نورخواہ نامی ادادرے بھی علاقے میں علم کی شمع روشن کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ان سبھی اداروں کے طلاب اسٹاف اور والدین کا گذر اکثر و بیشتر اسی پُل سے ممکن ہو پاتا ہے دریائے جہلم پر عبور و مرور کے لیے ایک پل اور بھی تعمیر کیا گیا ہے لیکن مذکورہ پُل تاریخی تھا جو کہ 2014 کے بعد حکومت اور انتظامیہ کی نذرہو گیا۔ یہ پُل مزاحمت کی علامت تھی مذکورہ پُل زندگی کے جھمیلے سے فرارحاصل کر کے خود کشی کی غرض سے چھلانگ مارنے کے کام آنے کے ساتھ ساتھ عاشق مزاج نوجوانوں کو اپنی معشوقاؤں کو بہادری دکھانے کے کام بھی آتا تھا، علاوہ ازیں اس پل پر گھریلوں تشدد کی شکار ناخواندہ عورتیں چھلانگ لگا کر ہمیشہ کیلئےظلم و تشدد سے نجات پایا کرتی تھیں۔
ضلع انتظامیہ اس ڈیولیمنٹ سے نہال ہے ،آٹھ سال بیت گئے آسمان کی گردش اور جہلم کی روانی زورو پر ہے ۔ لیکن پُرانے پل کی جگہ نئے پل کی کوئی خبر نہیںحکومتیں تب سے اب تک مرحوم ہو گئیں لیکن یہ پل اب بھی ایفائے عہد کیلئے راہ تک رہا ہے۔ پل جب مرحوم ہوا تب کشمیر کی سیاہ و سپید پر نیشنل کی حکمرانی تھی، نیشنل کانفرنس کے سر کردہ اور شیر اُوڑی میرا مطلب شفیع اُوڑی نے عوام کو وعدہ دیا تھا کہ مذکورہ پل کی جگہ نیا پُل جلد تعمیر ہوگا ، حتیٰ کہ مرحوم پل کے ملبے پر چڑھ کر نئے پُل کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا ،تصویریں بھی کھینچوائیں تھی، شیرِ اُوڑی اب خود مرحوم ہونے والے ہیں تا ہم پُل مرحوم ہو چکا ہے اور ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ کرسی جب پی ڈی ڈی اور بے جے پی کی کوٹھی کی زینت بنی تو اُن کے وعدے بھی غرق دریاہوئے۔ سرید سلطنت پر بیٹھ کر انہوں نے یہاںکے عوامی نمائندوں ، سماجی تنظیموں ، بیوپار منڈل اور سرکردہ شہریوں کو خوب چکر لگوائے ۔ آر اینڈ بی دفتر نے بھی مذکورہ اداروں سے وابستہ افراد کے جوتے بڑھی شان سے گھسوائے ۔ حیرت ہوتی ہے ان اندھے ، بہرے حکمرانوں اور ترقیاتی دفتروں پر کہ آٹھ سال میں مشکلات کا سامنا کرنے والے ہزاروںکُنبوں کے دُکھ درد کا مداوانہ کر سکے، جہلم کے آر پار تجارت میں مصروف تاجروں کی آہ و پکار اُن کے ضمیر کو بیدار نہ کر سکی ۔ سمجھ سے پر ہے کہ آر اینڈ بی ترقیاتی دفتر کو ترقیاتی دفتر کیونکر کہا جائے، ترقی نام کی کوئی شے ہے کیا بلا یہاں؟
چندن واڑی مین مارکیٹ کی زبوحالی اپنا رونا خود رو رہی ہے مارکیٹ میں بے ترتیب چھاپڑی فروشوں کا ہجوم ہے جن کیلئے کوئی مخصوص جگہ نہیں ۔سبزی فروشوں نے اپنی دکانوں کے دائیں بائیں بھی تازہ پھولوں اور سبزیوں کو سجا کر رکھاہے جس کی بدولت عوام الناس کی آواجائی میں مشکلات درپیش ہیں۔ نیشنل ہائے وے پر سومو گاڑیوں کی بے وجہ پارکنگ اور من مانیاں عیاں و بیاں ہیں افسوس کا عالم ہے، آج تک سوموں گاڑیوں کیلئے کوئی مخصوص جگہ اڈے کی خاطر تلاش نہ کی گئی، نیشنل ہائے وے پر نہ ہی گاڑیاں بہ آسانی رواں دواں ہو سکتی ہیں نہ ہی فریضہ جمعہ مسجد کی تنگ دامنی کی بدولت ادا ہو سکتا ہے اور نہ ہی عوام یکمشت آمد و رفت کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ چھوٹی گاڑیوں کی پارکنگ کیلئےتو اب جگہ دستیاب کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہ رہی ہے کیونکہ یہ گاڑیاں سڑک کنارے تشریف فرما رہتی ہیں اور عوام الناس کو عندیہ دیتی ہیں کہ آپ پر ندوں کی پرواز بھرنے میں ہی عافیت سمجھیں۔
دریائے جہلم کے کنارے پر گندگی کا ڈھیر ہے اوردریا خود کوڑا دان Dust Bin کا کام بھی دیتا ہے۔ مردہ جانوروں کو غرق دریا کرنے کا کام بھی اس جہلم سے لیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ دکاندار اور بستی والے بھی خود غرض ہیں گندگی، غلاظت اور بے کار ساز و سامان دریا کنارے پھنک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ غیر ریاستی مزدوروں نے بھی مین مارکیٹ چندن واڑی میں ڈھیر ے جما کر اس فعل بد میں مکینوں کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ یہ کچھ تصویریں ہیں ترقی کی جس سے صرف اور صرف راہ چلتے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ مذکورہ پُل کی خستہ حالی سے عمومی طور پر سارا علاقہ متاثر ہے البتہ نورخواہ، ریشہ واڑی، گنگل، کنچن ، سلام آباد دچھنہ ، بگنہ، نلوسہ ، بجہامہ، لچھی پورہ اور جبہ ڈار کے باشندے بہت ہی تکلیف میں ہیں۔ گذشتہ آٹھ سالوں سے وہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار ہواور ہماری مشکلات کا ازالہ ہو جائے لیکن سب بے سود ۔ یہاں تو ہر شعبہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکا ہے، ان کے سامنے جس کا ہاتھ جتنا لمبا اُس کا کام اتناہی اہم ہے اور بلا تاخیر انجام دیا جاتا ہے، عام لوگوں کیلئے اس لائین میں بس ایک ہی چیز مفت اور جلد ملنے کی توقع ہوتی ہے اور وہ ہے دھکے۔
لچھی پورہ ، بونیار بارہمولہ ۔۔۔رابطہ : 9797225348
[email protected]